بلکہ تحریک آزادی میں مخل ہونے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا- 1938ء میں غزہ کے جنوبی علاقے الجورہ میں آنکھ کھولنے والے مرد دلیر ایام طفولیت ہی سے والد کے سایہ طفت سے محروم ہوگئے- والدہ نے مامتا کا حق ادا کیا اور والد کی کمی محسوس نہ ہونے دی-
ابتداء ہی سے شیخ دینی علوم کے زیور سے آراستہ ہوئے- ماں کی تربیت نے شیخ احمد میں جذبہ آزادی کی ایک چنگاری سلگادی تھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہودی استعمار اور ناجائز قبضے نے شیخ کے جذبہ حریت کو مزید جلا بخشی-
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ دیوانہ بنا دیتے ہیں
ابتداء ہی میں شیخ یاسین نے نشانہ بازی، پہاڑوں پر چڑھنا، کشتی اور جمناسٹک جیسے کھیلوں میں حصہ لیا- یہ ورزشی کھیل دراصل شیخ کی زندگی کے اصل اہداف کے حصول اور جہاد کے لیے ریہرسل تھے- تحصیل علم کے لیے انہوں نے قاھرہ یونیورسٹی کا انتخاب کیا-
وہ جہاں گئے نوجوانوں کی آنکھ کا تارہ بنے- قاھرہ سے واپسی پر غزہ میں درس و تدریس، تبلیغ دین اور نوجوانوں میں جذبہ جہاد کو فروغ دینا اپنا معمول بنایا- خود بھی سخت ترین جسمانی ورزش کرتے اور اپنے دوستوں کو بھی اس کا عادی بناتے-
اس دوران ایک چھلانک کے دوران انہیں سخت چوٹ لگی، جس سے ان کی ریڑھ کی ہڈی ناکارہ ہوگئی- جسمانی طور پر مفلوج ہو جانے کے باوجود شیخ کے جذبہ جہاد اور شوق شہادت میں نہ صرف کمی نہ آئی بلکہ یہ جذبہ اور بڑھتا چلا گیا گویا
جتنا جتنا ستم یار سے کھاتا ہے شکست
دل اور جواں اور جواں اور جواں ہوتا ہے
اب وعظ و تلقین اور نوجوانوں میں جذبہ حریت بیدار کرنا ان کا واحد مشغلہ رہ گیا- وقت گزرنے کے ساتھ ان کا حلقہ اثر مزید وسعت اختیار کرتا گیا- اسرائیل نے شیخ احمد شہید کے وعظ و تلقین پر سخت تشویش ظاہر کی اور 1966ء میں انہیں پہلی مرتبہ کلمہ حق کہنے کی پاداش میں جیل کی نذر کردیا گیا- عدالت نے اسرائیل کے خلاف اکسانے کے جرم میں انہیں پندرہ سال قید بامشقت کی سزا سنائی-
تاہم چند برس بعد انہیں رہا کردیا گیا- اس کے بعد گویا جیلوں میں آنا جانا ان کی زندگی کا حصہ بن کر رہ گیا- 1983ء میں گرفتار ہوئے تو اسرائیلی عدالت نے انہیں اکتیس سال قید کی سزا سنائی- تاہم بیرونی دبائو کے بعد انہیں رہا کردیا گیا- جسمانی طور پر معذور اس بطل حریت کے جذبہ آزادی کو دبایا نہ جاسکا تو انہیں رہا کردیا گیا- تاہم کچھ ہی عرصہ بعد 1989ء میں دوبارہ گرفتار ہوئے اور سات برس تک پابند سلاسل رہے- بالآخر 1997ء میں رہائی ملی-
بالعموم پوری امت مسلمہ اور بالخصوص فلسطینی عوام کے عظیم ہیرو کی زندگی مسلسل کشمکش کی زندگی رہی- قبلہ اول کی آزادی اور فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے لڑتے لڑتے بالآخر اس نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی- بائیس مارچ 2004ء کی صبح اسرائیل نے وحشت اور درندگی کی تاریخ دھراتے ہوئے شیخ احمد یاسین کو ابدی نیند سلادیا- اس طرح ان کی خوش بخت زندگی اور شہادت کی موت کی تمنا دونوں پوری ہوگئیں-