پنج شنبه 01/می/2025

غزہ کی تازہ ترین صورتحال پر حماس کے ترجمان ایمن طہ کا انٹرویو

جمعہ 21-مارچ-2008

اسرائیلی جارحیت اور غزہ کی ناکہ بندی جاری رہنے کی صورت میں جنگ بندی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا- حماس اپنی قیادت کو محفوظ کرنے کے لیے نہیں بلکہ فلسطینی مفادات کی خاطر جنگ بندی کی جائے گی- مصری قیادت سے حماس کے تعلقات مثبت ہیں- حالات میں تبدیلی کے باوجود مصر اور حماس کے درمیان تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی- قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے اسرائیل کی شرائط ڈیل میں رکاوٹ ہیں- مغربی کنارے میں ہم فلسطینی اتھارٹی کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن ہماری اولین ترجیح اسرائیل کے خلاف مزاحمت ہے- ہماری بندوقوں کا رخ صہیونی دشمن کی طرف ہے-
ان خیالات کا اظہار اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے ترجمان ایمن طہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے انٹرویو میں کیا- انٹرویو کا مکمل متن زائرین کی دلچسپی کے لئے پیش خدمت ہے-
آپ اسلامی تحریک مزاحمت (حماس ) اورمصری قیادت کے درمیان آج کل تعلقات کو آپس میں کس طرح دیکھتے ہیں؟
جواب :سب سے پہلے تو میں آپ کا شکر یہ ادا کرتاہوں کہ آپ نے مجھے موقع دیا کہ میں اپنا موقف دوستوں تک پہنچا سکوں- رہا سوال ہمارے اور مصری قیادت کے درمیان تعلقات کا تو ہمارے تعلقات بڑے مثبت ہیں- حالات کی تبدیلی سے ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی- یہ تعلقات اعتماد ‘ باہمی افہام و تفہیم ‘ مشاورت اور باہمی احترام پر مبنی ہیں-
آپ اور مصر کے درمیان قائم مشترکہ ٹیکنیکل کمیٹی کیا ہے اور اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟
جواب :ٹیکنیکل کمیٹی التوا کا شکار مسائل کے لئے قائم کی گئی ہے- گزشتہ دنوں میں کمیٹی نے التوا کا شکار متعدد اہم اور بڑے مسائل حل کئے ہیں- جس میں مصر میں پھنسے ہوئے فلسطینیوں ‘اسیران اور ضروری اشیاء کی غزہ میں داخلے جیسے مسائل شامل ہیں- لیکن ابھی تک مسئلہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا- ابھی بھی مریض‘ اسیران اور مصر میں فلسطینی پھنسے ہوئے ہیں-
مصری قیادت سے سابقہ ملاقاتوں کے کیا نتائج برآمد ہوئے ؟اور مصری قیادت سے ملاقاتوں میں کون سی اہم بات زیر بحث آئی؟
جواب :ملاقاتیں ‘ رابطے اور مشاورت بذات خود مثبت چیز ہے- ہم نے فلسطینیوں کے اندرونی مسائل ‘ حصار بندی اور کراسنگز کے مسائل کے حوالے سے بات چیت کی- حماس نے اپنا موقف اور نقطہ ء نظر واضح انداز میں پیش کیا- اسی طرح جنگ بندی اور اسرائیلی مغوی فوجی کے مسئلہ کے متعلق اپنا موقف پیش کیا- یہ مسائل ایک یا دو میٹنگوں میں حل ہونے والے نہیں ہیں- میرے خیال میں ہر ملاقات کے کچھ نتائج نکلیں گے-
بعض مصری مضمون نگاروں اور سیاستدانوں نے مزاحمت کاروں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور رفح کراسنگ کھولنے کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ رفح کراسنگ صرف 2005ء معاہدے کے مطابق کھولی جائے ‘آپ کیا کہیں گے؟
جواب :یہ بیانات اور مضامین مصری عوام کی نمائندگی نہیں کرتے- مصری عوام نے ہمیشہ مزاحمت کی حمایت اور امداد کی ہے-
مغوی اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کی رہائی کے بدلے میں فلسطینی اسیران کے متعلق ڈیل کے بارے میں کیا پیش رفت ہوئی ہے؟
جواب :اس حوالے سے کوئی نئی بات نہیں ہوئی- حماس نے مصری حکومت پر واضح کردیا ہے کہ اس بارے میں کوئی ڈیل نہیں ہوگی اور نہ ہی کوئی لچک دکھائی جائے گی- مشکل اسرائیل کی ہے- وہ قیدیوں کے تبادلے میں ایسی شرائط رکھتاہے جو ڈیل میں رکاوٹ ہیں-
ہم دوسرے موضوع کی طرف آتے ہیں- فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو براہ راست جوابدہ سیکورٹی فورسز کی طرف سے مغربی کنارے میں جاری گرفتاریوں کی کارروائیوں کے متعلق آپ کیا کہیں گے؟
جواب: یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ فلسطینی سیکورٹی فورسز مغربی کنارے میں حماس اور اسلامی جہاد کے کارکنان کوگرفتار کررہی ہیں- وہ حماس اور اسلامی جہاد کا مغربی کنارے میں خاتمہ کرنا چاہتی ہیں- حماس اور اسلامی جہاد کے کارکنان کو گرفتار کرنے کا مطلب مزاحمت کو ختم کرناہے- حماس واضح کردینا چاہتی ہے کہ ہم کمزور نہیں ہیں ‘ ہم فلسطینی اتھارٹی کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن ہماری اولین ترجیح اسرائیل کے خلاف مزاحمت ہے- ہماری بندوقوں کا رخ اسرائیل کی جانب ہے- فلسطینی اتھارٹی کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے جرائم روک دے- یہ نہ ہو کہ پانی سر سے گزر جائے- اس وقت پشیمانی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا-
کہا جا رہا ہے کہ غزہ اور مصر کے درمیان واقع رفح کراسنگ کو کھولنے کے 2005معاہدے کی سطح پر لایا جا رہاہے- آپ کا کیا ردعمل ہے؟
جواب :رفح کراسنگ کے حوالے سے میں نے اپنا موقف واضح کردیا ہے- یہ مصر اور فلسطینیو ں کے درمیان کراسنگ ہے- اسرائیل کا اس سے کوئی تعلق نہیں- ہم نے کراسنگ پر فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی کی موجودگی کے متعلق اس شرط پر لچک دکھائی ہے کہ کراسنگ پر تعینات کئے جانے والے سیکورٹی گارڈز کے ناموں پر فتح اور حماس دونوں متفق ہوں- ہم نے یورپین کے غزہ یا عریش میں موجودگی کے متعلق بھی لچک دکھائی ہے کہ غزہ یا عریش میں یورپین کی موجودگی پر حماس کو اعتراض نہیں ہوگا البتہ پرانے معاہدے پر جانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے- 2005ء معاہدے پر دستخط ایک سال کی مدت کے لیے تھے- پھر اس میں توسیع کرکے یہ معاہدہ مئی 2006ء تک کے لیے بڑھا دیا گیا تھا- اب اس کی مدت ختم ہوچکی ہے-
اسرائیل سے جنگ بندی کی خبریں گردش میں ہیں ‘کیا آپ نے پہلے بات چلائی یا پھر اسرائیل جنگ بندی کے پیچھے بھاگ رہاہے یا پھر کوئی اور بات ہے- اس کے متعلق تازہ ترین صورت حال کیا ہے؟
جواب :میں واضح کرناچاہتاہوں کہ ہم جنگ بندی کے پیچھے نہیں بھاگ رہے- مزاحمت ہماری حکمت عملی ہے جو جاری ہے- ہمیں قربانیوں کا ادراک ہے لہذا فلسطینی عوام کے مفاد کی خاطر جنگ بندی کے متعلق پیش قدمی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے-
 ہمیں جنگ بندی کی پیش کش کی گئی ہے ہم نے واضح کردیا ہے کہ جنگ بندی کی شرائط اہم ہیں -جنگ بندی کے دوطرفہ اور تمام علاقوں پر مشتمل ہونی چاہیے- مزید برآں فلسطینیوں کے خلاف جاری ظالمانہ حصار بندی کاخاتمہ ضروری ہے- ہم واضح کرتے ہیں کہ ہم جنگ بندی کے پیچھے نہیں بھاگتے- جنگ بندی کی ہماری شرائط فلسطینیوں کے مفادات کے لئے ہیں- لوگوں کی طرف سے الزام تراشیاں کی جار ہی ہیں کہ حماس کی قیادت اپنے آپ کو بچانے کے لئے جنگ بندی کررہی ہے-
 ہم فلسطینی عوام کے مفاد کی خاطر کام کرتے ہیں اور جنگ بندی کے لیے ہماری شرائط اس کی غماز ہیں- میں ایک اور بات واضح کردینا چاہتاہوں کہ اسرائیلی جارحیت اور غزہ کے خلاف ناکہ بندی جاری رہنے کی صورت میں جنگ بندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا-

مختصر لنک:

کاپی