سخت سردیوں میں اسرائیلی آپریشن کے دوران شیر خوار بچوں کی تباہ کن اسرائیلی ہتھیاروں سے خونریزی کے دردناک مناظر ٹی وی پر دکھائے جارہے تھے-
میں نے کئی دنوں سے بیرونی میڈیا پر باقاعدہ نظر رکھی ہوئی تھی تاکہ کسی مغربی سیاستدان کی طرف سے ایسے مظالم پر مذمت یا اس طرح کے آپریشن کو روکنے کے بارے میں کوئی بیان دیکھ سکوں- بدھ 5 مارچ 2008ء کو کم از کم 123 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 39 کم سن بچے جبکہ بارہ مائیں تھیں- مغربی ’’مہذب‘‘ یا بین الاقوامی جمہوری حکام کے لیے امریکہ میں تیار ہونے والے اسرائیلی ٹینک و میزائلوں کا نشانہ بننے والے معصوم شہریوں کی بھیانک خونریزی اور کم سن بچوں کی ہلاکت کی مذمت کے لیے کیا یہ کافی نہیں- تمام مغربی اخبارات، نیوز ایجنسیاں، ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنز قتل و غارت کے اس ہولناک جرم پر چپ تھے اور یہ کوئی حیران کن بات نہیں کیونکہ تمام مغربی اخبارات کو ہدایات جاری کی جاتی ہیں کہ وہ عربوں پر جنگ کو نظر انداز کریں-
مغربی اخبارات کی اہم شہ سرخیاں غزہ کی خونریزی کا فلسطینیوں پر الزام اسرائیلی حکام کی جانب سے دی گئی غزہ کے لوگوں کو ہولوکاسٹ کی دھمکیاں اور کنڈولیزا رائس کی طرف سے اسرائیلی قتل و غارت کی ذمہ داری کا حماس پر الزام کے بارے میں جانے پہچانے مؤقف پر مشتمل تھیں- اس خوفناک خونی ہفتے کے دوران کسی مغربی اخبار نے اسرائیلی میزائلوں کے بارے میں کچھ نہیں لکھا جنہوں نے گھروں میں موجود کئی کم سن بچوں کے کئی ٹکڑے کردیئے-
میں نے آج تک اسرائیلی مظالم کے بارے میں کسی مغربی اخبار میں کوئی بیان نہیں پڑھا جس میں حالات کو سو فیصد سچائی سے بیان کیا گیا ہو- یکم فروری 2008ء کو ’’ہیرلڈٹربیون‘‘ کی شہ سرخی ہے ’’غزہ میں ہزاروں افراد کے مظاہرے کے بعد تشدد میں کمی، اسرائیلی وزیر راکٹ حملے روکنے کے لیے پرعزم‘‘ 3 مارچ 2008ء کو ’’دی انڈیپنڈنٹ‘‘ کی سہ سرخی ہے ’’صرف نیا صدر غزہ کی پچیدہ صورتحال ختم کرسکتا ہے-‘‘ 4 مارچ 2008ء کو ’’دی ٹائم میگزین‘‘ کی شہ سرخی ہے ’’غزہ اسرائیل کے دلدل ہے-‘‘ 5 مارچ 2008ء کو ’’دی گارڈین‘‘ کی شہ سرخی ہے ’’اسرائیلی شہر حماس کے راکٹوں کی زد میں فوج کی غزہ کی طرف پیش قدمی-‘‘ 6 مارچ 2008ء کو ’’ہیرلڈٹربیون‘‘ کی شہ سرخی ’’اسرائیلی فوج غزہ سے واپس، اولمرٹ کی جانب سے مزید حملوں کی دھمکی، حماس کو کمزور کرنا ہمارا مقصد: اسرائیلی وزیر اعظم-‘‘ یکم مارچ 2008ء کو ’’دی گارڈین‘‘ کی شہ سرخی ہے ’’اسرائیلی وزیر کی غزہ کو ہولوکاسٹ کی دھمکی-‘‘ کئی نیوز ایجنسیاں اس بات پر متفق ہیں کہ اسرائیل کی طرف سے کیے گئے تمام شرمسار جرائم فلسطینی راکٹوں حملوں کا ردعمل ہیں- اولمرٹ نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان جرائم کی وجہ صرف راکٹ حملے نہیں ہیں-
اس سے پہلے انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا تھا کہ لبنان جنگ صرف دو اسرائیلی فوجیوں کی حراست کا نتیجہ نہیں تھی- برطانوی اخبار نے بھی ایک بار خبر شائع کی کہ غزہ سے کیے گئے راکٹ حملے ہولوکاسٹ کا سبب بنیں گے- پوری مغربی دنیا اسرائیلی بربریت کی ذمہ داری کا الزام فلسطینیوں پر عائد کرتی ہے- مغرب کی طرف سے اس سے بڑھ کر اور منافقت کیا ہوگی کہ وہ مظالم کا نشانہ بننے والے معصوم فلسطینیوں پر الزام عائد کررہے ہیں جبکہ ایسے گھناؤنے جرائم میں ملوث اسرائیلی حکام کی حمایت کررہے ہیں- یہ رائے اس وقت بالکل تبدیل ہو جاتی ہے جب کوئی اسرائیلی مارا جاتا ہے-
اچانک مذمت اور دہشت گردی کے تمام بیانات سامنے آجاتے ہیں جن میں فلسطینی لوگوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر تمام مغربی اخبارات میں کئی طرح کی کہانیاں بڑی بڑی شہ سرخیوں کی مدد سے شائع ہونا شروع ہوجاتی ہیں- جیسا کہ ’’دی انڈیپنڈنٹ‘‘ نے 7 مارچ 2008ء کو شائع کی ’’بیت المقدس کے دل میں قتل و غارت-‘‘ وہ اخبارات جنہوں نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے کم سن بچوں کے بارے میں کبھی کوئی خبر شائع نہیں کی ہوتی وہی اخبارات فلسطینیوں کو انسانیت کے نام پر دھبے کے نام سے اپنی اخبار کی شہ سرخیوں کو سجاتے ہیں-
6 مارچ 2008ء کو ’’دی اکنامسٹ‘‘ میگزین نے خبر شائع کی ’’غزہ میں خونریزی، اسرائیلی اور فلسطینی جان لیوا ڈیڈ لاک کا شکار اور اسلامی عسکریت پسندوں کا تباہ ہونے سے انکار‘‘ پچھلے دو ہفتوں کے دوران بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات عرب کو اس بات پر قائل کرلیں گے کہ سیکورٹی کونسل اسرائیلی مظالم کے خلاف کچھ نہیں کرسکتی کیونکہ امریکہ کی طرف سے ویٹو کرنے کا اختیار عربوں کے خون بہانے کی گارنٹی کے لیے تیار ہے- عربوں کو جاننا چاہیے کہ بین الاقوامی برادری اسرائیلی جرائم اور معصوم بچوں کی خونریزی کے خلاف تردید تک نہیں کرسکی چنانچہ اب اس کا حل کیا ہے؟ سخت سردی میں اسرائیل کی طرف سے کی گئی خونریزی بہار میں عربوں کی مزاحمتی روح کو بیدار کرے گی-
ایہود باراک کو اس وقت پتہ چلے گا کہ خونریزی اسرائیلی قاتلوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتی- مغربی جمہوری دنیا کے میڈیا میں ایک بھی لفظ ایسا شائع نہیں ہوا جو سچائی پر مبنی ہو یا جس میں اسرائیل کے مظالم کا تذکرہ ہو- ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب ہم ایسے منافقوں کو غور سے دیکھیں گے اور ان کو اسرائیل کی طرف سے عرب بچوں کی خونریزی پر خاموش رہنے کے جرائم یاد دلائیں گے-
میں نے کئی دنوں سے بیرونی میڈیا پر باقاعدہ نظر رکھی ہوئی تھی تاکہ کسی مغربی سیاستدان کی طرف سے ایسے مظالم پر مذمت یا اس طرح کے آپریشن کو روکنے کے بارے میں کوئی بیان دیکھ سکوں- بدھ 5 مارچ 2008ء کو کم از کم 123 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 39 کم سن بچے جبکہ بارہ مائیں تھیں- مغربی ’’مہذب‘‘ یا بین الاقوامی جمہوری حکام کے لیے امریکہ میں تیار ہونے والے اسرائیلی ٹینک و میزائلوں کا نشانہ بننے والے معصوم شہریوں کی بھیانک خونریزی اور کم سن بچوں کی ہلاکت کی مذمت کے لیے کیا یہ کافی نہیں- تمام مغربی اخبارات، نیوز ایجنسیاں، ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنز قتل و غارت کے اس ہولناک جرم پر چپ تھے اور یہ کوئی حیران کن بات نہیں کیونکہ تمام مغربی اخبارات کو ہدایات جاری کی جاتی ہیں کہ وہ عربوں پر جنگ کو نظر انداز کریں-
مغربی اخبارات کی اہم شہ سرخیاں غزہ کی خونریزی کا فلسطینیوں پر الزام اسرائیلی حکام کی جانب سے دی گئی غزہ کے لوگوں کو ہولوکاسٹ کی دھمکیاں اور کنڈولیزا رائس کی طرف سے اسرائیلی قتل و غارت کی ذمہ داری کا حماس پر الزام کے بارے میں جانے پہچانے مؤقف پر مشتمل تھیں- اس خوفناک خونی ہفتے کے دوران کسی مغربی اخبار نے اسرائیلی میزائلوں کے بارے میں کچھ نہیں لکھا جنہوں نے گھروں میں موجود کئی کم سن بچوں کے کئی ٹکڑے کردیئے-
میں نے آج تک اسرائیلی مظالم کے بارے میں کسی مغربی اخبار میں کوئی بیان نہیں پڑھا جس میں حالات کو سو فیصد سچائی سے بیان کیا گیا ہو- یکم فروری 2008ء کو ’’ہیرلڈٹربیون‘‘ کی شہ سرخی ہے ’’غزہ میں ہزاروں افراد کے مظاہرے کے بعد تشدد میں کمی، اسرائیلی وزیر راکٹ حملے روکنے کے لیے پرعزم‘‘ 3 مارچ 2008ء کو ’’دی انڈیپنڈنٹ‘‘ کی سہ سرخی ہے ’’صرف نیا صدر غزہ کی پچیدہ صورتحال ختم کرسکتا ہے-‘‘ 4 مارچ 2008ء کو ’’دی ٹائم میگزین‘‘ کی شہ سرخی ہے ’’غزہ اسرائیل کے دلدل ہے-‘‘ 5 مارچ 2008ء کو ’’دی گارڈین‘‘ کی شہ سرخی ہے ’’اسرائیلی شہر حماس کے راکٹوں کی زد میں فوج کی غزہ کی طرف پیش قدمی-‘‘ 6 مارچ 2008ء کو ’’ہیرلڈٹربیون‘‘ کی شہ سرخی ’’اسرائیلی فوج غزہ سے واپس، اولمرٹ کی جانب سے مزید حملوں کی دھمکی، حماس کو کمزور کرنا ہمارا مقصد: اسرائیلی وزیر اعظم-‘‘ یکم مارچ 2008ء کو ’’دی گارڈین‘‘ کی شہ سرخی ہے ’’اسرائیلی وزیر کی غزہ کو ہولوکاسٹ کی دھمکی-‘‘ کئی نیوز ایجنسیاں اس بات پر متفق ہیں کہ اسرائیل کی طرف سے کیے گئے تمام شرمسار جرائم فلسطینی راکٹوں حملوں کا ردعمل ہیں- اولمرٹ نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان جرائم کی وجہ صرف راکٹ حملے نہیں ہیں-
اس سے پہلے انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا تھا کہ لبنان جنگ صرف دو اسرائیلی فوجیوں کی حراست کا نتیجہ نہیں تھی- برطانوی اخبار نے بھی ایک بار خبر شائع کی کہ غزہ سے کیے گئے راکٹ حملے ہولوکاسٹ کا سبب بنیں گے- پوری مغربی دنیا اسرائیلی بربریت کی ذمہ داری کا الزام فلسطینیوں پر عائد کرتی ہے- مغرب کی طرف سے اس سے بڑھ کر اور منافقت کیا ہوگی کہ وہ مظالم کا نشانہ بننے والے معصوم فلسطینیوں پر الزام عائد کررہے ہیں جبکہ ایسے گھناؤنے جرائم میں ملوث اسرائیلی حکام کی حمایت کررہے ہیں- یہ رائے اس وقت بالکل تبدیل ہو جاتی ہے جب کوئی اسرائیلی مارا جاتا ہے-
اچانک مذمت اور دہشت گردی کے تمام بیانات سامنے آجاتے ہیں جن میں فلسطینی لوگوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر تمام مغربی اخبارات میں کئی طرح کی کہانیاں بڑی بڑی شہ سرخیوں کی مدد سے شائع ہونا شروع ہوجاتی ہیں- جیسا کہ ’’دی انڈیپنڈنٹ‘‘ نے 7 مارچ 2008ء کو شائع کی ’’بیت المقدس کے دل میں قتل و غارت-‘‘ وہ اخبارات جنہوں نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے کم سن بچوں کے بارے میں کبھی کوئی خبر شائع نہیں کی ہوتی وہی اخبارات فلسطینیوں کو انسانیت کے نام پر دھبے کے نام سے اپنی اخبار کی شہ سرخیوں کو سجاتے ہیں-
6 مارچ 2008ء کو ’’دی اکنامسٹ‘‘ میگزین نے خبر شائع کی ’’غزہ میں خونریزی، اسرائیلی اور فلسطینی جان لیوا ڈیڈ لاک کا شکار اور اسلامی عسکریت پسندوں کا تباہ ہونے سے انکار‘‘ پچھلے دو ہفتوں کے دوران بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات عرب کو اس بات پر قائل کرلیں گے کہ سیکورٹی کونسل اسرائیلی مظالم کے خلاف کچھ نہیں کرسکتی کیونکہ امریکہ کی طرف سے ویٹو کرنے کا اختیار عربوں کے خون بہانے کی گارنٹی کے لیے تیار ہے- عربوں کو جاننا چاہیے کہ بین الاقوامی برادری اسرائیلی جرائم اور معصوم بچوں کی خونریزی کے خلاف تردید تک نہیں کرسکی چنانچہ اب اس کا حل کیا ہے؟ سخت سردی میں اسرائیل کی طرف سے کی گئی خونریزی بہار میں عربوں کی مزاحمتی روح کو بیدار کرے گی-
ایہود باراک کو اس وقت پتہ چلے گا کہ خونریزی اسرائیلی قاتلوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتی- مغربی جمہوری دنیا کے میڈیا میں ایک بھی لفظ ایسا شائع نہیں ہوا جو سچائی پر مبنی ہو یا جس میں اسرائیل کے مظالم کا تذکرہ ہو- ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب ہم ایسے منافقوں کو غور سے دیکھیں گے اور ان کو اسرائیل کی طرف سے عرب بچوں کی خونریزی پر خاموش رہنے کے جرائم یاد دلائیں گے-