مجھے اس کااندازہ ہے کہ آپ ایک دوسرے کی کاربن کارپی نہیں ہیں اور مجھے اس کا ادراک بھی ہے کہ دنیا بھر میں ایسے یہودی کثرت سے موجود ہیں جو یہودیت کے نام پر کی جانے والی فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہیں- میں ان تمام یہودیوں کا شکر گزار ہوں جو اپنے ضمیر کی آواز پر اور انسانی عظمت کے نام پر ایسا موقف اختیار کئے ہوے ہیں- یہ ایماندار عظیم لوگ ہیں جن کی بدلت ہم امید رکھتے ہیں کہ اگر یہودی اخلاقیات کی بات کی جائے تو یہ لا حاصل نہ رہے گی –
لیکن اس سب کے باوجود بڑی تعداد میں ایسے یہودی موجود ہیں جنہوں نے تاریکی کے سپاہی اور برائی کے وکیل کا روپ اختیار کررکھاہے – یہ وہ یہودی ہیں ‘جنہوں نے فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم کررکھاہے- افسوس ‘یہ تن تنہا ‘ چھوٹے موٹے لوگ نہیں ہیں بلکہ ان کے ہزاروں پیروکار ہیں اور ان کا بے انتہا احترام کرتے ہیں-
خود گمراہ اور گمراہ کرنے والے یہودی ہی میرے آج کے مضمون کا موضوع ہیں- میری خواہش یہ ہے کہ میں کسی پر الزام تراشی نہ کروں اور کسی پر بہتان لگائوں ‘میری کوشش یہ ہے کہ انہیں موجودہ دور کے سونے کے بچھڑے ‘ ریاست اسرائیل کی پرستش سے باہر نکال لوں- میں بالکل آغاز ہی میں آپ لوگوں کو تالمود کی ایک کہانی سنانا چاہتاہوں ‘ یہ کہانی آپ میں سے کئی لوگوں کی کہانی سے مشابہہ ہے – کہا جاتاہے کہ ایک مشرک شم مائی کے پاس آیا اور کہاکہ مجھے یہودی بنالولیکن لیکن اس نے یہ شرط پیش کی کہ میں یہودی بننے سے قبل ایک پاؤں پر کھڑا رہوں گا اور آپ مجھے پوری توریت یاد کرائیں گے- ربی شم مائی نے اپنے ہاتھ میں ایک چھڑی رکھی ہوئی تھی ‘ اس نے چھڑی کے ذریعے اسے بھگا دیا- وہ یہی درخواست لے کر چلل کے پاس گیا اس نے جواب دیا ’’جو چیز تمہیں اپنے لیے نا پسند ہو‘ وہی چیز اپنے بھائی کے ساتھ نہ کرو‘یہ توریت کی تعلیمات کا خلاصہ ہے اور باقی جو کچھ ہے اس کی تشریح ہے جاؤ‘ اسے یاد کرلو-‘‘
جو چیز تمہارے لئے قابل نفرت ہے ‘ وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ نہ کرو ان الفاظ میں کسی قدر روشنی اور دانائی ہے – کیا آپ اس بین الاقوامی قانون کو تسلیم کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہیں زمین پر پایا جانے والا ہر یہودی کم و بیش یہ تسلیم کرے گا کہ اس میں یہودی اخلاقیات اور یہودی تعلیمات شامل ہیں- آپ کو اپنے رویے اسرائیل کے بارے میں بھرپورانداز میں جائزہ لینا چاہیے‘ اس ریاست کے ہٹلر سے خیالات زیادہ ملتے ہیں‘ موسی علیہ السلام کی تعلیمات سے کم ملتے ہیں-
اسرائیل آپ لوگوں کو دھوکہ دے رہاہے ‘ آپ سے غلط بیانی سے کام لے رہاہے اور آپ کی اخلاقی حس کو گمراہ کررہاہے- اسرائیلی انبیاء اور جدالانبیاء ابراہیم علیہ السلام نے انسانیت کو یہی سبق دیا ’’تم لوگ قتل نہ کرو گے ‘ جھوٹ نہ بولو گے ‘ چوری نہ کروگے اور انصاف کروگے‘‘
مجھے افسوس ہے کہ میں اس قدر سخت گفتگو کررہاہوں- حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور صہیونیت سال ہا سال بعد اس میں کامیاب ہوچکے ہیں کہ ایک ایسی قوم کو جو انصاف پر یقین رکھتی تھی اور اخلاقیات کو غیر معمولی اہمیت دیتی ہے ‘ کو قاتلوں اور لٹیروں کی قوم میں تبدیل کردیا ہے اب یہ قوم ایسی قوم بن چکی ہے کہ جو راہزنی کرنے اور اس کے لیے دلائل ڈھونڈنے والی قوم بن چکی ہے – یہ ایسی قوم بن چکی ہے جس نے سیاہ کو سفید کرنا اور سفید کو سیاہ کرنا سیکھ لیا ہے اور یہ اس لیے کیا جار ہاہے تاکہ اپنے جرائم چھپائے جاسکیں اور اس جھوٹ ‘ دروغ گوئی اور عجیب وغریب ناموں کو تعلقات عامہ اور سیاسی راست روی قرار دیا جائے –
آپ کے نام پر ‘جانتے بوجھتے ‘ اسرائیل معصوم لوگوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار رہاہے – اسرائیلی لیڈر اور حکومتی ترجمان تو یہی کہیں گے کہ جو کچھ ہوا غلطی سے ہوا‘ جب غلطیاں ہر روز ‘ہر گھنٹے اور ہر منٹ میں سرزد ھوں تو وہ غلطیاں نہیں رہ جاتیں ‘ پالیسی بن جاتی ہیں- اسرائیل نے جو واقعات کیے ہیں ان کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ‘ نہ ہی یہ کہہ کر جان چھڑائی جاسکتی ہے کہ یہ عرب پراپیگنڈہ ہے – تسلیم شدہ حقائق ہیں-
آپ کے نام پر اسرائیل ‘ نسلی تطہیر (gEthnic Cleansin)کررہاہے- یہ سب کچھ اسرائیل کی یہودی شناخت کو محفوظ رکھنے کے نام پر کیا جا رہاہے‘ دس فرامین کے ماننے والی قوم اس قدر برہنہ تشد د کررہی ہے کہ اس کااندازہ لگانا مشکل ہے- آپ ہی کے نام پر اسرائیل نے 2006ء میں جنوبی لبنان پر لاکھوں کلسٹر بم اور چھوٹے بم (Bomblets)گرائے – کیا یہ وہی روشنی ہے جو آپ انسانوں تک پھیلانا چاہتے ہیں‘ آپ کو اس پر شرمندہ ہونا چاہیے- انسان اور رب تعالی کے خلاف یہ آپ کے مظالم ہی ہیں کہ ہم فلسطینی عملاً اپنے دور کے یہودی بن چکے ہیں اور آپ لوگ حقیقی طور پر ’’اپنے دور کے یہوددشمن ‘‘بن چکے ہیں ‘ آپ یہودی ‘ہولوکاسٹ کا نشانہ بنے‘کتنے ہی ہلاکت خیز منصوبے آپ کے خلاف ہیں ‘ لیکن جب آپ کو قوت ملتی ہے آپ اپنے مظلوموں کے خلاف قدر ہلاکت خیز اور قاتل صفت بن جاتے ہیں کہ جس قدر آپ کے اوپر ظلم کرنے والے آپ کے خلاف کرتے رہے-
نازی‘ یہودیوں اور دوسروں کو کم ترانسان ( hUntermesc)قرار دیتے تھے اور آپ لوگ ہم ’’عربوں‘‘ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں- نازی اسے جائز سمجھتے تھے کہ وہ اپنے رسوخ میں اضافہ کریں چاہے اس کی زد پر ہمسایوں پر پڑے اور اسےmPacification Lebensrau‘ کے نام پر ایسے اقدامات کئے جس میں معصوم لوگ‘ بے دردی سے قتل کردیئے جاتے تھے اور آپ دفاعی اقدامات کرتے ہیں جس کے دوران آپ معصوم لوگوں پر ہلاکت اور تباہی و بربادی نازل کرتے ہیں- نازی اس طرح اپنے مظالم نہیں چھپاتے جس طرح آپ لوگ چھپاتے ہیں- آپ نہ صرف بدنما قاتل ہیں بلکہ بچوں کے قتل کے معاملے میں بھی آپ منفرد ہیں – جھوٹ بولنے والوں میں بھی آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے – نازی یقین رکھتے تھے کہ ریہ نسل ’’عظیم نسل ‘‘ ہے اور آپ صہیونی بھی یہی بات سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہودیوں کے بغیر دنیا وجود میں لائی جائے ‘ آپ کے اعمال بھی ایسے ہیں اور آپ کے سامنے منزل بھی یہی ہے – آپ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ ہم شمالی امریکہ اور یورپ کے سادہ لوح نہیں ہیں کہ جنہیں آپ بآسانی بے وقوف بناسکیں ‘ ہم یہودیوں کے آغاز سے موجودہ صورت حال تک تمام معاملات سے بخوبی آگاہ ہیں – میں یہ سب کچھ اس لیے کہہ رہاہوں کہ جب لوگ ان میں یہودی بھی شامل ہیں ‘ جب یہودیوں کا چال چلن اختیار کرتے ہیں تو وہ بھی یہودی بن جاتے ہیں – ظلم ’’اعلی نسل کرے یا ‘‘‘’’منتخب قوم ‘‘کرے ظلم اور ناقابل برداشت ہے – برائی کو کبھی بھی حلال نہیں قرار دیا جاسکتا – اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ الخلیل اور غزہ میں ’’گیس چیمبر‘‘نہیں ہیں ‘ لیکن پ لوگ ہمیں ایف سولہ لڑاکا طیاروں سے اور ٹینکوں سے اور توپ خانے سے اور ہیلی کاپٹروں سے ہلا ک کرتے ہیں – اس کا نتیجہ ایک ہی بر مد ہوتا ہے – یہ جو کچھ ہو رہاہے سب کی آنکھوں کے سامنے ہے ‘ آپ الخلیل میں آئیں اور اپنی آنکھوں سے خوددیکھیں-
کیا آپ اسے بے انتہا سخت سمجھتے ہیں ؟ایسا نہیں ہے کیونکہ ہولوکاسٹ کانشانہ بننے والے یہودیوں کے بچے اور پوتے جو کچھ فلسطین میں کررہے ہیں اس کا ہمارے انفرادی اور اجتماعی ضمیر پر کوئی اثرمرتب نہیں ہوا ہے – یہ سراسر سادہ لوحی ہے کہ اگر ہم سمجھیں کہ اسرائیل کے موجودہ فرعون مثلاً مائن ولنائی یہ دھمکی دیں کہ فلسطینیوں کو تیسرے ہولوکاسٹ کے حوالے کردیا جائے گا اور اس کے بعد یہودی بیدار ہوجائیں گے- آپ میں سے کئی لوگوں کو اس بناء پر معافی دی جاسکتی ہے کہ وہ اسرائیل کے کردار سے آگاہ نہیں ہیں- لیکن آپ ایسی قوم نہیں ہیں کہ جو ناواقف رہ سکتی ہو- اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگ برائی کی جان بوجھ کر اور شعوری حالت میں حمایت کررہے ہیں- اگر آپ کا طرز عمل ہے تو آپ میں اور آپ کو نقصان پہنچانے والے نازی یہودیوں میں کوئی فرق نہیں ہے –
امریکہ کی بے حد و حساب امداد اور تعاون پر اس قدر پرجوش نہ ہوں امریکہ آپ کی اس لیے امداد نہیں کررہاہے کہ آپ اپنے اخلاقی اصولوں پر عمل پیدا ہوں ‘ امریکہ اس لیے آپ کی امداد کررہاہے کہ آپ اپنے اخلاقی اصولوں کو تہس نہس کرسکیں ‘ جوکہ آپ لوگ کررہے ہیں – یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جب ایک بدی کی قوت پ کی مدد گار ہوتی ہے اس کا مطلب یہ نکلتاہے کہ آپ اپنے اخلاقی نظام کو برباد کررہے ہیں ‘مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے جو ذہین اور باشعور لوگ ہیں وہ میری بات کا مطلب سمجھ رہے ہیں – میں آپ لوگوں سے اپیل کرتاہوں کہ طاقت کے اس نشے کی کیفیت سے باہر نکل آئیے -طاقت کانشہ ہی غلط ہوتاہے – آپ ایک اجتماعی مرض کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اخلاقیات برباد ہو رہے ہیں- اس لحاظ سے آپ لوگ شدید مشکل کا شکار ہیں-
اسرائیل —فلسطین میں رہنے والے یہودیوں سے بھی میں کچھ باتیں کرنا چاہتاہوں – کچھ دنوں بعد آپ اسرائیل کے قیام کے ساٹھ برس مکمل ہونے کا جشن منائیں گے جوکہ ہمارے لیے بدی اور نسل کشی کی یاد منانے کے مترادف ہے کیونکہ آپ لوگوں نے ہمارے گھر تباہ کئے ‘ ہمارے قصبے تاراج کردیئے ‘ ہمارے دیہات مٹا کر رکھ دیئے اور پوری قوم پر نسل کشی مسلط کردی اور ہمارے لوگوں کو بندوق کے زور پر اپنی ہی سرزمین سے نکال باہر کیا اور انہیں دنیا کے چار کونوں میں دھکیل دیا – آپ لوگوں نے اس سارے معاملے کو آزادی کی جنگ قرار دیا اور جانے والوں کے بارے کہہ دیا کہ ’’وہ خود فرار ہوئے ہیں – ‘‘اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ساٹھ برس گزرنے کے باوجود بھی اتنے ہی ظالم ہیں جتنا کہ پہلے تھے-
آپ لوگوں کو جس قدر وسائل مہیا ہیں ‘ اگر آپ لوگوں نے اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن کے لیے اپناذہن استعمال کیا ہوتا تو قیام امن کی منزل کتنا عرصہ قبل ہی مل چکی ہوتی – لیکن آپ قیام امن کے لیے نہ اس وقت مخلص تھے نہ اب مخلص ہیں- اس وقت بھی ایسا ہی تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے کہ آپ ہماری زمینیں چھین رہے ہیں اور ان پر ’’صرف یہودیوں کے لیے ‘‘ تعمیرات کررہے ہیں – جہاں انتہا پسند یہودی قیام کرتے ہیں جنہیں سکھایا جاتاہے کہ تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ غیر یہودیوں کا خون بہایاجائے –
کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ قتل اور بدی ‘ نیکی کو جنم دے سکیں – لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ آپ اب بھی اپنے رویے کی اصلاح کرسکتے ہیں‘ فلسطینیوں ‘ عربوں اور مسلمانوں تک پہنچنے کی کوشش کیجئے – واضح طور پر یہ علاقہ مسلمانوں کا علاقہ ہے اور وہ یہاں سینکڑوں برس سے رہ رہے ہیں ‘ کچھ ہی سالوں کے بعد یہاں 6سے 7کروڑ مسلمان آپ کے اردگرد ہوں گے- اپنی آئندہ کی نسلوں کے بارے میں سوچیے-
سوچیے کہ اتنے عرصہ بعد امریکہ کی اقتصادی و فوجی طاقت وقوت ختم ہوچکی ہوگی – اسلام کے پیروکاروں کے ساتھ احترام سے پیش آنے کی کوشش کریں کیونکہ اسلام کا احترام کئے بغیر پ یہودیوں کا احترام بھی نہیں کرسکتے – اسلام ‘توریت کو روشنی کی کتاب قرار دیتا ہے اور اسلام پر الزام تراشی سے آپ ایک جرم کے مرتکب ہورہے ہیں- مہم جوئی پر اترے ہوئے جنونی مسیحیوں سے دوری اختیار کریں جن کی کوشش یہ ہے کہ عالمی پیمانے پر آرماگیڈرون برپا کیا جائے‘ جن میں کروڑوں لوگ جاں بحق کردیئے جائیں گے اور ان میں ننانوے فیصد یہودی بھی شامل ہوں ‘ ختم ہوجائیں گے اور یہ سب کچھ اسی لیے کیا جائے گا تاکہ مسیح علیہ السلام کی مد ثانی کو ممکن بنایاجاسکے –
لیکن ان سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ بے یارومدد گار فلسطینیوں کو ہلاک کرنے اور معذور بنانے ے باز رہیں کیونکہ آپ لوگ بذات خود صدیوں تک بے یار و مدد گار رہے ہیں ‘ان کے بچوں کو ہلاک کرنے کا سلسلہ بند کردیں ‘ ان کے گھروں کو مسمار کرنے کا سلسلہ بند کردیں ‘ان کی زمینیں ہتھیانے کا سلسلہ بند کردیں ‘ ان کے بیٹوں کو غیر قانونی طور پر جیلوں میں ٹھونسنے کا سلسلہ بند کردیں اجتماعی قتل عام ‘ اجتماعی سزا اور اجتماعی انتقام کا سلسلہ بند کردیں ‘ ہماری روز مرہ زندگی کو جہنم میں تبدیل کرنے کا سلسلہ بند کردیں- انصاف کے لیے اور انسانی عظمت کے لیے آپ ایسا نہیں کرسکتے و اپنی حفاظت کے لیے ایسا کردیں –
امریکی افسران کے کہنے پر فلسطینیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ بند کردیں کیونکہ آپ اور امریکہ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں ‘ لیکن ہم فلسطینی تو آپ کے ہمسائے ہیں‘ یا ایک ہی ریاست میں رہ رہے ہیں‘ اس کا پاس ‘ احساس کریں – اگر آپ سمجھتے ہیں کہ امریکی اسلحہ اور امریکی ٹیکنالوجی سے آپ بہادری کے میڈل اور تاریخ میں نام حاصل کریں کرلیں گے تو یہ آپ کی سراسر غلطی ہے ‘ مہاجر کیمپوں پر ایف سولہ سے حملہ کرکے سوتے ہوئے بچوں اور فلسطینی عورتوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا کونسی بہادری ہے –
لیکن اس سب کے باوجود بڑی تعداد میں ایسے یہودی موجود ہیں جنہوں نے تاریکی کے سپاہی اور برائی کے وکیل کا روپ اختیار کررکھاہے – یہ وہ یہودی ہیں ‘جنہوں نے فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم کررکھاہے- افسوس ‘یہ تن تنہا ‘ چھوٹے موٹے لوگ نہیں ہیں بلکہ ان کے ہزاروں پیروکار ہیں اور ان کا بے انتہا احترام کرتے ہیں-
خود گمراہ اور گمراہ کرنے والے یہودی ہی میرے آج کے مضمون کا موضوع ہیں- میری خواہش یہ ہے کہ میں کسی پر الزام تراشی نہ کروں اور کسی پر بہتان لگائوں ‘میری کوشش یہ ہے کہ انہیں موجودہ دور کے سونے کے بچھڑے ‘ ریاست اسرائیل کی پرستش سے باہر نکال لوں- میں بالکل آغاز ہی میں آپ لوگوں کو تالمود کی ایک کہانی سنانا چاہتاہوں ‘ یہ کہانی آپ میں سے کئی لوگوں کی کہانی سے مشابہہ ہے – کہا جاتاہے کہ ایک مشرک شم مائی کے پاس آیا اور کہاکہ مجھے یہودی بنالولیکن لیکن اس نے یہ شرط پیش کی کہ میں یہودی بننے سے قبل ایک پاؤں پر کھڑا رہوں گا اور آپ مجھے پوری توریت یاد کرائیں گے- ربی شم مائی نے اپنے ہاتھ میں ایک چھڑی رکھی ہوئی تھی ‘ اس نے چھڑی کے ذریعے اسے بھگا دیا- وہ یہی درخواست لے کر چلل کے پاس گیا اس نے جواب دیا ’’جو چیز تمہیں اپنے لیے نا پسند ہو‘ وہی چیز اپنے بھائی کے ساتھ نہ کرو‘یہ توریت کی تعلیمات کا خلاصہ ہے اور باقی جو کچھ ہے اس کی تشریح ہے جاؤ‘ اسے یاد کرلو-‘‘
جو چیز تمہارے لئے قابل نفرت ہے ‘ وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ نہ کرو ان الفاظ میں کسی قدر روشنی اور دانائی ہے – کیا آپ اس بین الاقوامی قانون کو تسلیم کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہیں زمین پر پایا جانے والا ہر یہودی کم و بیش یہ تسلیم کرے گا کہ اس میں یہودی اخلاقیات اور یہودی تعلیمات شامل ہیں- آپ کو اپنے رویے اسرائیل کے بارے میں بھرپورانداز میں جائزہ لینا چاہیے‘ اس ریاست کے ہٹلر سے خیالات زیادہ ملتے ہیں‘ موسی علیہ السلام کی تعلیمات سے کم ملتے ہیں-
اسرائیل آپ لوگوں کو دھوکہ دے رہاہے ‘ آپ سے غلط بیانی سے کام لے رہاہے اور آپ کی اخلاقی حس کو گمراہ کررہاہے- اسرائیلی انبیاء اور جدالانبیاء ابراہیم علیہ السلام نے انسانیت کو یہی سبق دیا ’’تم لوگ قتل نہ کرو گے ‘ جھوٹ نہ بولو گے ‘ چوری نہ کروگے اور انصاف کروگے‘‘
مجھے افسوس ہے کہ میں اس قدر سخت گفتگو کررہاہوں- حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور صہیونیت سال ہا سال بعد اس میں کامیاب ہوچکے ہیں کہ ایک ایسی قوم کو جو انصاف پر یقین رکھتی تھی اور اخلاقیات کو غیر معمولی اہمیت دیتی ہے ‘ کو قاتلوں اور لٹیروں کی قوم میں تبدیل کردیا ہے اب یہ قوم ایسی قوم بن چکی ہے کہ جو راہزنی کرنے اور اس کے لیے دلائل ڈھونڈنے والی قوم بن چکی ہے – یہ ایسی قوم بن چکی ہے جس نے سیاہ کو سفید کرنا اور سفید کو سیاہ کرنا سیکھ لیا ہے اور یہ اس لیے کیا جار ہاہے تاکہ اپنے جرائم چھپائے جاسکیں اور اس جھوٹ ‘ دروغ گوئی اور عجیب وغریب ناموں کو تعلقات عامہ اور سیاسی راست روی قرار دیا جائے –
آپ کے نام پر ‘جانتے بوجھتے ‘ اسرائیل معصوم لوگوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار رہاہے – اسرائیلی لیڈر اور حکومتی ترجمان تو یہی کہیں گے کہ جو کچھ ہوا غلطی سے ہوا‘ جب غلطیاں ہر روز ‘ہر گھنٹے اور ہر منٹ میں سرزد ھوں تو وہ غلطیاں نہیں رہ جاتیں ‘ پالیسی بن جاتی ہیں- اسرائیل نے جو واقعات کیے ہیں ان کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ‘ نہ ہی یہ کہہ کر جان چھڑائی جاسکتی ہے کہ یہ عرب پراپیگنڈہ ہے – تسلیم شدہ حقائق ہیں-
آپ کے نام پر اسرائیل ‘ نسلی تطہیر (gEthnic Cleansin)کررہاہے- یہ سب کچھ اسرائیل کی یہودی شناخت کو محفوظ رکھنے کے نام پر کیا جا رہاہے‘ دس فرامین کے ماننے والی قوم اس قدر برہنہ تشد د کررہی ہے کہ اس کااندازہ لگانا مشکل ہے- آپ ہی کے نام پر اسرائیل نے 2006ء میں جنوبی لبنان پر لاکھوں کلسٹر بم اور چھوٹے بم (Bomblets)گرائے – کیا یہ وہی روشنی ہے جو آپ انسانوں تک پھیلانا چاہتے ہیں‘ آپ کو اس پر شرمندہ ہونا چاہیے- انسان اور رب تعالی کے خلاف یہ آپ کے مظالم ہی ہیں کہ ہم فلسطینی عملاً اپنے دور کے یہودی بن چکے ہیں اور آپ لوگ حقیقی طور پر ’’اپنے دور کے یہوددشمن ‘‘بن چکے ہیں ‘ آپ یہودی ‘ہولوکاسٹ کا نشانہ بنے‘کتنے ہی ہلاکت خیز منصوبے آپ کے خلاف ہیں ‘ لیکن جب آپ کو قوت ملتی ہے آپ اپنے مظلوموں کے خلاف قدر ہلاکت خیز اور قاتل صفت بن جاتے ہیں کہ جس قدر آپ کے اوپر ظلم کرنے والے آپ کے خلاف کرتے رہے-
نازی‘ یہودیوں اور دوسروں کو کم ترانسان ( hUntermesc)قرار دیتے تھے اور آپ لوگ ہم ’’عربوں‘‘ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں- نازی اسے جائز سمجھتے تھے کہ وہ اپنے رسوخ میں اضافہ کریں چاہے اس کی زد پر ہمسایوں پر پڑے اور اسےmPacification Lebensrau‘ کے نام پر ایسے اقدامات کئے جس میں معصوم لوگ‘ بے دردی سے قتل کردیئے جاتے تھے اور آپ دفاعی اقدامات کرتے ہیں جس کے دوران آپ معصوم لوگوں پر ہلاکت اور تباہی و بربادی نازل کرتے ہیں- نازی اس طرح اپنے مظالم نہیں چھپاتے جس طرح آپ لوگ چھپاتے ہیں- آپ نہ صرف بدنما قاتل ہیں بلکہ بچوں کے قتل کے معاملے میں بھی آپ منفرد ہیں – جھوٹ بولنے والوں میں بھی آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے – نازی یقین رکھتے تھے کہ ریہ نسل ’’عظیم نسل ‘‘ ہے اور آپ صہیونی بھی یہی بات سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہودیوں کے بغیر دنیا وجود میں لائی جائے ‘ آپ کے اعمال بھی ایسے ہیں اور آپ کے سامنے منزل بھی یہی ہے – آپ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ ہم شمالی امریکہ اور یورپ کے سادہ لوح نہیں ہیں کہ جنہیں آپ بآسانی بے وقوف بناسکیں ‘ ہم یہودیوں کے آغاز سے موجودہ صورت حال تک تمام معاملات سے بخوبی آگاہ ہیں – میں یہ سب کچھ اس لیے کہہ رہاہوں کہ جب لوگ ان میں یہودی بھی شامل ہیں ‘ جب یہودیوں کا چال چلن اختیار کرتے ہیں تو وہ بھی یہودی بن جاتے ہیں – ظلم ’’اعلی نسل کرے یا ‘‘‘’’منتخب قوم ‘‘کرے ظلم اور ناقابل برداشت ہے – برائی کو کبھی بھی حلال نہیں قرار دیا جاسکتا – اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ الخلیل اور غزہ میں ’’گیس چیمبر‘‘نہیں ہیں ‘ لیکن پ لوگ ہمیں ایف سولہ لڑاکا طیاروں سے اور ٹینکوں سے اور توپ خانے سے اور ہیلی کاپٹروں سے ہلا ک کرتے ہیں – اس کا نتیجہ ایک ہی بر مد ہوتا ہے – یہ جو کچھ ہو رہاہے سب کی آنکھوں کے سامنے ہے ‘ آپ الخلیل میں آئیں اور اپنی آنکھوں سے خوددیکھیں-
کیا آپ اسے بے انتہا سخت سمجھتے ہیں ؟ایسا نہیں ہے کیونکہ ہولوکاسٹ کانشانہ بننے والے یہودیوں کے بچے اور پوتے جو کچھ فلسطین میں کررہے ہیں اس کا ہمارے انفرادی اور اجتماعی ضمیر پر کوئی اثرمرتب نہیں ہوا ہے – یہ سراسر سادہ لوحی ہے کہ اگر ہم سمجھیں کہ اسرائیل کے موجودہ فرعون مثلاً مائن ولنائی یہ دھمکی دیں کہ فلسطینیوں کو تیسرے ہولوکاسٹ کے حوالے کردیا جائے گا اور اس کے بعد یہودی بیدار ہوجائیں گے- آپ میں سے کئی لوگوں کو اس بناء پر معافی دی جاسکتی ہے کہ وہ اسرائیل کے کردار سے آگاہ نہیں ہیں- لیکن آپ ایسی قوم نہیں ہیں کہ جو ناواقف رہ سکتی ہو- اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگ برائی کی جان بوجھ کر اور شعوری حالت میں حمایت کررہے ہیں- اگر آپ کا طرز عمل ہے تو آپ میں اور آپ کو نقصان پہنچانے والے نازی یہودیوں میں کوئی فرق نہیں ہے –
امریکہ کی بے حد و حساب امداد اور تعاون پر اس قدر پرجوش نہ ہوں امریکہ آپ کی اس لیے امداد نہیں کررہاہے کہ آپ اپنے اخلاقی اصولوں پر عمل پیدا ہوں ‘ امریکہ اس لیے آپ کی امداد کررہاہے کہ آپ اپنے اخلاقی اصولوں کو تہس نہس کرسکیں ‘ جوکہ آپ لوگ کررہے ہیں – یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جب ایک بدی کی قوت پ کی مدد گار ہوتی ہے اس کا مطلب یہ نکلتاہے کہ آپ اپنے اخلاقی نظام کو برباد کررہے ہیں ‘مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے جو ذہین اور باشعور لوگ ہیں وہ میری بات کا مطلب سمجھ رہے ہیں – میں آپ لوگوں سے اپیل کرتاہوں کہ طاقت کے اس نشے کی کیفیت سے باہر نکل آئیے -طاقت کانشہ ہی غلط ہوتاہے – آپ ایک اجتماعی مرض کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اخلاقیات برباد ہو رہے ہیں- اس لحاظ سے آپ لوگ شدید مشکل کا شکار ہیں-
اسرائیل —فلسطین میں رہنے والے یہودیوں سے بھی میں کچھ باتیں کرنا چاہتاہوں – کچھ دنوں بعد آپ اسرائیل کے قیام کے ساٹھ برس مکمل ہونے کا جشن منائیں گے جوکہ ہمارے لیے بدی اور نسل کشی کی یاد منانے کے مترادف ہے کیونکہ آپ لوگوں نے ہمارے گھر تباہ کئے ‘ ہمارے قصبے تاراج کردیئے ‘ ہمارے دیہات مٹا کر رکھ دیئے اور پوری قوم پر نسل کشی مسلط کردی اور ہمارے لوگوں کو بندوق کے زور پر اپنی ہی سرزمین سے نکال باہر کیا اور انہیں دنیا کے چار کونوں میں دھکیل دیا – آپ لوگوں نے اس سارے معاملے کو آزادی کی جنگ قرار دیا اور جانے والوں کے بارے کہہ دیا کہ ’’وہ خود فرار ہوئے ہیں – ‘‘اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ساٹھ برس گزرنے کے باوجود بھی اتنے ہی ظالم ہیں جتنا کہ پہلے تھے-
آپ لوگوں کو جس قدر وسائل مہیا ہیں ‘ اگر آپ لوگوں نے اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن کے لیے اپناذہن استعمال کیا ہوتا تو قیام امن کی منزل کتنا عرصہ قبل ہی مل چکی ہوتی – لیکن آپ قیام امن کے لیے نہ اس وقت مخلص تھے نہ اب مخلص ہیں- اس وقت بھی ایسا ہی تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے کہ آپ ہماری زمینیں چھین رہے ہیں اور ان پر ’’صرف یہودیوں کے لیے ‘‘ تعمیرات کررہے ہیں – جہاں انتہا پسند یہودی قیام کرتے ہیں جنہیں سکھایا جاتاہے کہ تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ غیر یہودیوں کا خون بہایاجائے –
کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ قتل اور بدی ‘ نیکی کو جنم دے سکیں – لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ آپ اب بھی اپنے رویے کی اصلاح کرسکتے ہیں‘ فلسطینیوں ‘ عربوں اور مسلمانوں تک پہنچنے کی کوشش کیجئے – واضح طور پر یہ علاقہ مسلمانوں کا علاقہ ہے اور وہ یہاں سینکڑوں برس سے رہ رہے ہیں ‘ کچھ ہی سالوں کے بعد یہاں 6سے 7کروڑ مسلمان آپ کے اردگرد ہوں گے- اپنی آئندہ کی نسلوں کے بارے میں سوچیے-
سوچیے کہ اتنے عرصہ بعد امریکہ کی اقتصادی و فوجی طاقت وقوت ختم ہوچکی ہوگی – اسلام کے پیروکاروں کے ساتھ احترام سے پیش آنے کی کوشش کریں کیونکہ اسلام کا احترام کئے بغیر پ یہودیوں کا احترام بھی نہیں کرسکتے – اسلام ‘توریت کو روشنی کی کتاب قرار دیتا ہے اور اسلام پر الزام تراشی سے آپ ایک جرم کے مرتکب ہورہے ہیں- مہم جوئی پر اترے ہوئے جنونی مسیحیوں سے دوری اختیار کریں جن کی کوشش یہ ہے کہ عالمی پیمانے پر آرماگیڈرون برپا کیا جائے‘ جن میں کروڑوں لوگ جاں بحق کردیئے جائیں گے اور ان میں ننانوے فیصد یہودی بھی شامل ہوں ‘ ختم ہوجائیں گے اور یہ سب کچھ اسی لیے کیا جائے گا تاکہ مسیح علیہ السلام کی مد ثانی کو ممکن بنایاجاسکے –
لیکن ان سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ بے یارومدد گار فلسطینیوں کو ہلاک کرنے اور معذور بنانے ے باز رہیں کیونکہ آپ لوگ بذات خود صدیوں تک بے یار و مدد گار رہے ہیں ‘ان کے بچوں کو ہلاک کرنے کا سلسلہ بند کردیں ‘ ان کے گھروں کو مسمار کرنے کا سلسلہ بند کردیں ‘ان کی زمینیں ہتھیانے کا سلسلہ بند کردیں ‘ ان کے بیٹوں کو غیر قانونی طور پر جیلوں میں ٹھونسنے کا سلسلہ بند کردیں اجتماعی قتل عام ‘ اجتماعی سزا اور اجتماعی انتقام کا سلسلہ بند کردیں ‘ ہماری روز مرہ زندگی کو جہنم میں تبدیل کرنے کا سلسلہ بند کردیں- انصاف کے لیے اور انسانی عظمت کے لیے آپ ایسا نہیں کرسکتے و اپنی حفاظت کے لیے ایسا کردیں –
امریکی افسران کے کہنے پر فلسطینیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ بند کردیں کیونکہ آپ اور امریکہ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں ‘ لیکن ہم فلسطینی تو آپ کے ہمسائے ہیں‘ یا ایک ہی ریاست میں رہ رہے ہیں‘ اس کا پاس ‘ احساس کریں – اگر آپ سمجھتے ہیں کہ امریکی اسلحہ اور امریکی ٹیکنالوجی سے آپ بہادری کے میڈل اور تاریخ میں نام حاصل کریں کرلیں گے تو یہ آپ کی سراسر غلطی ہے ‘ مہاجر کیمپوں پر ایف سولہ سے حملہ کرکے سوتے ہوئے بچوں اور فلسطینی عورتوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا کونسی بہادری ہے –