چهارشنبه 30/آوریل/2025

حماس کو تباہ کرنے کے لئے عباس ‘ دحلان ‘اسرائیل نے سازش کی :وینیٹی فیئر

بدھ 12-مارچ-2008

امریکہ کے مشہور رسالے ’’وینیٹی فیئر ‘‘نے تحقیق کے بعد یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اور ان کے مشیر محمد دحلان نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جمہوری طریقے پر منتخب حماس کی حکومت ختم کرنے کے لئے بش انتظامیہ سے ساز باز کی – میگزین کی تازہ ترین اشاعت میں ‘ اس بات کا دعوی کیا گیا ہے کہ ’’اس کی خفیہ دستاویزات ‘‘تک رسائی ہوئی ہے جو امریکہ اور فلسطین کے ذرائع سے حاصل کی گئی ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ مذکورہ امریکی  پریشن کی صدر امریکہ جارج بش نے منظوری دی تھی – وزیر خارجہ کنڈولیرا رائس نے اس پر عمل در مد کراناتھا اور فوجی سلامتی کے نائب مشیر ایلیوٹ ابرامز کو یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ فلسطین کے اندر ’’خانہ جنگی‘‘ کو پروان چڑھائیں –
وینیٹی فیئر کے مطابق اس منصوبے پر عمل در مد کے لئے محمد دحلان کو  لہ کاربنا یا جاناتھا اور اس کیلئے انہیں امریکہ کے ایماء پر جدید ترین ہتھیار فراہم کئے جانے تھے تاکہ فتح کو اس قدر قوت مل جائے کہ جمہوری طریقے پر منتخب حماس کی حکومت کو ایوان اقتدار سے نکال باہر کیاجاسکے – اس مضمون کے منتخب اقتباس حسب ذیل ہیں :-
والیز اور عباس خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ ان ہدایات پر عمل در مد کی صورت میں حماس کا ردعمل ’’بغاوت ‘‘ اور خون خرابے کی صورت میں نکلے گا‘ تفصیلات کے مطابق اس سلسلے میں فتح کی سیکورٹی فورسز کو امریکہ پہلے ہی سے جدید ہتھیار فراہم کررہاتھا – میمورینڈم کے اندر یہ بات  شامل تھی ’’اگر  پ ان نکات پر کام کریں گے ‘ ہم سیاسی طور پر اور مادی طور پر  پ کی امداد کریں گے – نیز ’’ہم  پکی امداد کے لئے وہاں موجود ہوں گے ‘‘محمود عباس کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی تاکہ ’’ان کی ٹیم کو مستحکم کیا جاسکے‘‘ اور عالمی برادری ’’کی اہم اورقابل اعتماد شخصیات کو اس میں شامل کیا جاسکے -‘‘امریکی حکومت کے ایک اہلکار کے مطابق اس طریقہ کار سے محمد دحلان کو اقتدار میں لانامطلوب تھا-
’’ایک افسر کا کہناہے کہ محمودعباس نے اس پر اتفاق کیا کہ ’’دو ہفتوں کے اندراندر اس پر عمل در مد کرلیا جائے گا ‘ یہ واقعہ رمضان کے مہینے میں ہواکہ جب مسلمان طویل گھنٹوں کے لئے روزہ رکھتے ہیں – محمود عباس نے کنڈو لیزارائس کو دعوت دی کہ وہ اس کے ساتھ افطار ( روزہ کھولنے ) میں شرکت کرے – امریکی عہدیدار کا کہناہے کہ رائس نے افطار کے دوران یہ واضح کردیاکہ ’’ہمارا اس پر اتفاق ہو رہاہے کہ  پ دو ہفتوں میں حکومت کو ختم کردیں گے ‘‘محمود عباس نے کہاکہ ’’دو ہفتے نہیں ‘مجھے ایک مہینہ درکار ہوگا ‘ہمیں عید تک انتظار کرنا چاہیے -‘‘
(محمود عباس کے ترجمان نے ای میل کے ذریعے بتایا ’’ہمارے ریکارڈ کے مطابق یہ درست نہیں ہے )اہل کا رکا کہناہے کہ رائس نے اپنے ایک ساتھی کو بتایا ’’اس افطار کی وجہ سے ہمیں حماس کی حکومت کو دو ہفتے مزید برداشت کرنا پڑے گا – ‘‘
’’بش نے دحلان سے تین بار ملاقات کی ‘ یہ سلسلہ جولائی 2003ء میں وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے بعد شروع ہوا ‘ بش نے کھلے عام دحلان کو ’’مضبوط اورٹھوس لیڈر ‘‘ قرار دیا – متعدد اسرائیلی اور امریکی حکام اپنی نجی محفلوں میں یہ کہتے پائے گئے کہ صدر بش نے اسے ’’ہمارا فرد ‘‘ قرار دیا ہے – ڈیوڈ روز نے خفیہ دستاویزات کی تیاری کے ذریعے ‘ جن کی تیاری میں سابقہ اور موجودہ امریکی حکومت کے ناراض اہلکاروں کا تعاون حاصل کیاگیا ‘ انکشاف کیا کہ صدر بش ‘کنڈو لیزارائس اور قومی سلامتی کے مشیر ایلیٹ ابرامز نے فتح کی اہم شخصیت محمد دحلان کے ماتحت ایک مسلح فورس کی تشکیل کی حمایت کی جو غزہ میں خون بہائے لیکن اس کاالٹا نتیجہ بر مد ہوا اور حماس پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی -‘‘
’’بش انتظامیہ کے دور میں فلسطین پالیسی پر شدید گرماگرمی پیدا ہوئی – فلسطینی پالیسی کے ناقدین میں سے ایک ڈیوڈ ورم سر ہیں‘جو کنزر ویٹو مخالف ہیں اور جنہوں نے نائب صدر ڈک چینی کے مشرق وسطی کے چیف ایڈوائزر کے عہدے سے جولائی 2007ء میں ایک ماہ بعد استعفی دے دیاتھا- ورم سر نے بش انتظامیہ پر الزام عائد کیاکہ ’’وہ فلسطین میں ایک گھناؤنی جنگ میں ملوث ہو رہی ہے – جس کا اس کے سواء کوئی مقصد نہیں ہے کہ ایک بدعنوان (محمود عباس کی )کو کامیابی سے ہمکنار کردے -‘‘ان کا کہناہے کہ حماس کا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ وہ غزہ پر کنٹرول کرے جب تک فتح نے اس میں مداخلت نہیں کی ’’اس سے لگتاہے کہ جو کچھ ہوا وہ حماس کی جانب سے تختہ الٹنے کی بات نہیں تھی بلکہ فتح کی طرف سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش تھی جو پہلے ہی سے ناکام ہوگئی –
اس منصوبے سے مشرق وسطی میں قیام امن کی منزل اور دور ہوگئی ہے لیکن ورم سر اس پر خوش ہے کہ اس طریقے سے دوغلا پن واضح ہوگیا ان کا کہناہے کہ ’’صدر کی جانب سے مشرق وسطی میں قیام امن اور قیام جمہوریت کے اعلانات اور ان کی پالیسی میں کافی فرق ہے -‘‘انہوں نے کہاکہ ’’دحلان براہ راست ایف بی  ئی اور سی  ئی اے کے تعاون سے کام کرتاہے اور اس نے سنٹر ل انٹیلی جنس ڈائریکٹر جارج ٹینٹ سے براہ راست رابطہ استوار کررکھا ہے جو کلنٹن کا نامزد ہے اور بش کی ماتحتی میں جولائی 2004ء تک کام کرتا رہا-
’’دحلان کا کہناہے کہ میں نے بش انتظامیہ میں اپنے دوستوں کو بتا دیا تھا کہ فتح جنوری میں انتخابات کے لئے تیار نہیں ہے عرفات کی جانب سے دسیوں برس تک اپنی ذات کے گرد گھومنے والی قیادت نے فتح تنظیم کو بدعنوانی اور نا اہلیت کا نشان بنادیا اور حماس نے اس کا فائدہ اٹھایا – فتح کے اندر تقسیم درتقسیم نے بھی اس کو کمزور کیا – کئی مقامات پر حماس کا ایک نمائندہ ہوتاتھا اور فتح کی طرف سے کئی کئی لوگ انتخابات لڑ رہے تھے اور ہر شخص انتخابات کا مخالف تھا‘ سوائے جارج بش کے – امریکی انتظامیہ کے ہر شخص نے محمود عباس سے یہی کہاکہ صدر بش انتخابات چاہتے ہیں – لیکن یہ انتخابات کس مقصد کے لئے تھے ؟انتخابات اپنے وقت پر ہوئے ‘ 25 جنوری کو حماس نے قانون ساز کونسل کی 56 فیصد نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی ‘ امریکی انتظامیہ کے چند ہی لوگ تھے جنہیں اس کااندازہ ہوکہ حماس جیت جائے گی – نہ ہی ان کے پاس ایسا کوئی منصوبہ تھا کہ ان حالات میں کیا کرنا ہوگا – کنڈو لیزارائس نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ کسی بھی شخص نے یہ کیوں محسوس نہ کیا – جس شخص کو بھی حماس کی کامیابی کی خبر ملی وہ حیران رہ گیا-
وزارت دفاع کے ایک افسر کا کہناتھاکہ ’’ہر شخص دوسرے کو الزام دے رہاتھا اور وزارت دفاع کے دفتر میں ہم ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ ’’انتخابات کا مشورہ کس نے دیا تھا -‘‘عوام الناس میں کنڈو لیزارائس نے حماس کی کامیابی کے روشن پہلوکو سامنے رکھنے کی کوشش کی‘ اس نے کہایہ بڑی تبدیلی ہے – ’’تاہم بش انتظامیہ فلسطینی جمہوریت کے بارے میں اپنے رویے کو تبدیل کرنے پر غور کررہی تھی – واشنگٹن نے محمود عباس کی طرف بد اعتمادی سے دیکھنا شروع کردیا کیونکہ اس نے حماس کے ساتھ مل کر ’’قومی حکومت ‘‘بنانے کی بات چیت شروع کردی تھی – 4 اکتوبر 2006ء کو رائس ‘ محمو دعباس سے ملنے رام اللہ  ئی اور عرفات کے کمپاؤنڈ میں نئے تعمیرشدہ مقاطعہ میں ملاقات کی – جبکہ عرفات کے ہیڈ کوارٹر کو اسرائیل نے 2002ء میں تباہ کردیا تھا-
محمود عباس کے زمانے میں امریکی مداخلت اس سے بہت زیادہ بڑھ گئی جتنی کہ یاسرعرفات کے زمانے میں تھی ‘ محمو د عباس کے پاس مضبوط  زاد بنیاد موجود نہ تھی اور اس کی شدید خواہش تھی کہ بیرونی امداد وسیع پیمانے پر امڈ پڑے اور اس طرح اس کی قوت میں اضافہ ممکن تھا- اسے یہ بھی معلوم تھاکہ واشنگٹن کی امداد کے بغیر وہ حماس کے مقابلے میں کھڑا نہیں ہوسکتا- اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں کنڈولیزا رائس نے اپنی قوم کی طرف سے محمود عباس کی شخصیت کی ’’بے انتہا ‘‘ تعریف کی تاہم بند کمروں میں ہونے والے اجلاسوں میں رائس کا رویہ سخت ہوجاتاتھا –
حماس کو تنہاکرنے کا فارمولہ کام نہیں  یا ‘ اس نے بار بار محمود عباس کو بتایا کہ امریکی حکومت چاہتی ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو اسماعیل ھنیہ کی حکومت ختم کرے اور نئے انتخابات کا انعقاد کرے – ہفتوں پرہفتے گزرتے چلے گئے ‘ محمود عباس ‘امریکی احکامات پر عمل در مد کے لیے تیار تھا – رام اللہ میں ایک اور سرکاری نمائندے کو بھیجا گیا- جیک وائس کا مشرق وسطی میں سفارتکاری کا طویل تجربہ ہے اس کامقصد صرف یہ تھاکہ فلسطینی صدر کو صرف وارننگ دی جائے – لیکن محمود عباس نے حماس کی حکومت ختم کرنے کا اعلان کردیا اور اب ایسی صورت حال پیدا ہوچکی ہے کہ کسی کے قابو میں نہیں ہے-

مختصر لنک:

کاپی