اسرائیلی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ بیت المقدس میں اسرائیلی یشیوا ( تالمود مذہبی سکول ) پر حملے میں مارے جانے اور زخمی ہونے والے ’’طالب علم ‘‘ نہیں تھے وہ ’’زیرتربیت پیراملٹری فوجی ‘‘ تھے –
اسرائیل کے ترجمان نے دعوی کیا ہے کہ مشرقی بیت المقدس سے تعلق رکھنے والے ایک تنہا فلسطینی نے معصوم مذہبی طلبہ کو نشانہ بنایا ہے- اسرائیلی میڈیا‘ پر حکومت اسرائیل کی طرف سے مسلسل سنسر شپ عائد ہوتی رہتی ہے اور فلسطینی مجاہدین کے ہاتھوں اسرائیلیوں کو جو نقصان پہنچتا ہے اس کی تفصیلات محدود پیمانے ہی پر بتائی جاتی ہیں- اسرائیلیوں کی ہلاکتوں کی تعداد بھی کم بتائی جاتی ہے تاکہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ تاثر پیدا کیا جاسکے کہ ہلاک ہونے والے معصوم شہری تھے‘ آبادکار تھے ‘ فوجی نہیں تھے- اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے اس حقیقت کو فراموش کردیا کہ ’’حصدار مرکز ‘‘ کے نام سے صہیونی مذہبی تعلیمی سکولوں میں تالمود کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ فوجی تربیت لازمی طورپر دی جاتی ہے اور عملی فوجی تربیت کے بغیر مذہبی تعلیم کو بھی نامکمل سمجھاجاتاہے- یتزاک رابن کے قاتل یفال آمر کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتاہے کہ اس نے مرکز حراف میں تعلیم حاصل کی تھی-
صہیونی ذرائع ابلاغ کے کلی یا جزوی زیر اثر امریکی ذرائع ابلاغ نے (چند ایک کے علاوہ) اسرائیلی پراپیگنڈہ کو جوں کا توں دھرا دیا انہوں نے خبر دی کہ اس حملے کے دوران مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا گیا یہ کاروائی مغربی کنارے میں اسرائیلی کاروائی کے جواب میں کی گئی ‘ جس میں 138فلسطینی جاں بحق ہوگئے اور ان میں24 بچے بھی شامل ہیں- انسانی حقوق کی تنظیموں بیت سلم‘ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہاکہ اسرائیلی فوجی کاروائی کے دوران جاں بحق ہونے والوں کی اکثریت معصوم شہریوں پر مشتمل تھی- ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکاکہ مغربی بیت المقدس میں کسی گروپ یا جماعت نے کاروائی کی ہو- چند رپورٹیں ایسی آئی ہیں جن میں کہاگیا ہے کہ ممکن ہے کہ حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں نے کاروائی کی ہو اور یہ کاروائی گزشتہ مہینے دمشق میں موساد کے ایجنٹوں کے ہاتھوں حزب اللہ کے عسکری راہنما عماد مغنیہ کا بدلہ لینے کے لئے کی گئی ہو- تاہم حزب اللہ نے بیت المقدس کے یہودی مرکز میں حملے سے لا تعلقی کااظہار کیا ہے – علاوہ ازیں ایک معروف یہودی ربی نے مسلمانوں کو امالیقات قرار دیا ہے اوربائبل کے مطابق ’’انہیں ہلاک کردینا چاہیے اور ‘‘انہیں دنیا کے نقشے سے مٹادینا چاہیے-‘‘
قدیم فلسطین کے خانہ بدوش لوگوں کو امالق کہا جاتا تھا- بائبل کے مطابق وہ یسوع کے پوتے امالق کی اولاد تھے- مرکز حرف کے ڈائریکٹر ربی یعقوشیرہ نے کہا ہے کہ تمام فلسطینیوں کو بالکل ختم کردینا چاہیے- ربی کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ امالق ہمارے درمیان دوبارہ آگئے ہیں اور انہوں نے اپنی مذہبی شناخت بدل لی ہے- انہیں نقشۂ ارض سے مٹا دینا ہی سب سے بڑی ضرورت ہے- ان حملوں میں ہلاک ہونے والا دورون مراہٹہ بھی ہے- اس کا سابقہ تعلق بھارت سے ہے اور اس نے حال ہی میں یہودی مذہب قبول کیا تھا- اسرائیلی روزنامے ’’ہارٹز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق دورون نے فوجی لباس پہن رکھا تھا اور اس سے ذرائع ابلاغ کی اس خبر کی تردید ہوتی ہے کہ اس حملے میں معصوم شہری مارے گئے- ہارٹز کا کہنا ہے کہ سترہ سالہ دورون تربیت کے لیے ’’حصدر مرکز‘‘ میں رجسٹر تھا اور اس مرکز میں طلبہ کو نو ماہ کی فوجی تربیت دی جاتی ہے- اسرائیلی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ وہ حملے کے بعد بننے والے خونیں مناظر کی تصاویر ساری دنیا خصوصاً مغرب میں پھیلائیں گے تاکہ حماس کا منفی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے-
حماس کے ذمہ دار نے اس طرز عمل کو ’’بیمار ذہنیت‘‘ قرار دیا ہے- الخلیل سے تعلق رکھنے والے حماس کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ مزاحمتی حملوں کو یورپ میں دکھانے اور حماس کا تصور خراب کرنا تو ایسا ہی ہے گویا کہ نازیوں کو غریب اور معصوم شکار بنا کر پیش کیا جائے- سال 2008ء سے اب تک اسرائیلی قابض فوج نے ہزاروں معصوم فلسطینیوں کو ہلاک اور زخمی کیا ہے- اہل یورپ اور اہل شمال امریکہ سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی دعوی کرتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کا مقصد یہ نہیں کہ عام فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنایا جائے- مقبوضہ فلسطینی شہروں میں کام کرنے والی تنظیمیں اسرائیلی دعوئوں کی تردید کرتی ہیں- ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل جان بوجھ کر عام شہریوں کو ہلاکت کے لیے منتخب کرتا ہے-
