انتفاضہ الاقصی کے ابتدائی سالوں میں ایک اسرائیلی افسر نے ہتھکڑیاں پہنے اور آنکھوں پر پٹی باندھے سینکڑوں فلسطینیوں کو نابلس میں بتایا کہ ’’ہم تم فلسطینیوں سے وہی سلوک کررہے ہیں کہ جو سلوک نازیوں نے ہمارے ساتھ کیاتھا اور جب ہم تمہیں چھوڑدیں گے تو ممکن ہے کہ تم لوگوں کا سامانا ایسے لوگوں سے ہو ‘ جو وہی سلوک کریں کہ جو ہم کررہے ہیں -اس افسر میں ایک ایسے مرض کی علامات پائی جاتی تھیں جو اسرائیلی یہودی نفسیات میں جاری و ساری ہے – اس نفسیاتی بیماری میں مبتلا افراد بدترین جرائم کا اس طرح ارتکاب کرتے ہیں کہ انہیں جرم کا معمولی سا شائبہ بھی نہیں ہوگا – اسرائیلی فضائیہ کے سابق کمانڈر جو بعد میں فضائیہ کے سربراہ بنے ‘ کے بارے میں یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ اس نے غزہ شہر میں ایف سولہ لڑاکا بم بار طیارے کو حکم دیاکہ ایم ٹن کا بم گرایا جائے ‘ جس سے سولہ سوتے ہوئے لوگ شہید ہوگئے اور ان میں گیارہ بچے بھی شامل تھے –
حقیقت یہ ہے کہ ہولوکاسٹ اور فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم میں ایک بنیادی رشتہ موجود ہے ‘ معروف فلسطینی دانشور ایڈورڈ سعید کا کہناہے کہ ’’فلسطینی عوام ظلم سہنے والوں کے ظلم کا نشانہ بنے ہیں ‘‘کہا جاسکتاہے کہ فلسطینی اس سے زیادہ مدت آزمائش اور جبر و تشدد کا شکار رہے ہیں جتنی کہ یہودی رہے ہیں –
یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ اسرائیل کی تخلیق کا سبب جرمنی بناہے ‘ تو یہ درست ہے کہ صہیونیوں کو ہولوکاسٹ سے نقصان پہنچا لیکن ہولوکاسٹ کی بدولت ہی صہیونیوں کو موقع ملا کہ وہ الگ ریاست کا مطالبہ کریں ‘ آج بھی حالت یہ ہے کہ مشرق وسطی کے لوگوں کے خلاف اسرائیلی مجرمانہ اقدامات کے روکنے کے لئے جو سب سے مضبوط دلیل ہوسکتی ہے وہ ہولوکاسٹ ہی ہے –
اس بناء پر کہا جاسکتاہے کہ اسرائیل کی تخلیق کا سبب نازی جرمنی بنا ہے – دنیا بھر میں جو قوانین لاگو ہیں ‘اسرائیل میں ان کا عمل ہی نہیں ہے – اسرائیلی ہولوکاسٹ کا تذکرہ بار بار کرتے ہیں تاکہ فلسطینیوں کے خلاف اپنے ظلم و ستم کی دلیل پیش کرسکیں – یہودی آبادکاریہ مطالبہ کرتے نہیں تھکتے کہ فلسطینیوں کو ’’تنورمیں جھونک دیا جائے اور یہ بات الخلیل شہرکی دیواروں پر بکثرت لکھی نظر آتی ہے کہ ’’وہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ ان کے ساتھ ہولوکاسٹ میں زیادتی کی گئی ہے اس لئے وہ بدلہ لینے میں برحق ہیں – جب بھی اسرائیلی تشدد اور مظالم کا تذکرہ آتاہے ‘ جب بھی فلسطینیوں پر کی گئی ظلم و زیادتی کی بات ہوتی ہے ‘جب بھی فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی تشددکا ذکر آتاہے اس کا ایک ہی جواب دیا جاتاہے کہ صہیونیوں پر یہ اور یہ مظالم ہولوکاسٹ کے دوران ہوئے ہیں – اس کامطلب یہ ہے کہ ہر فلسطینی ‘ مرد ‘ عورت اور بچے کو ظلم و ستم کا اس لئے شکار ہونا پڑ رہاہے کیونکہ ہولوکاسٹ کا واقعہ رونما ہواتھا- اسرائیلی فوجی ‘ جو مغربی کنارے میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں ‘ فلسطینی علاقوں میں تعیناتی سے قبل انہیں بیت المقدس میں قائم یاد واحییم عجائب گھر کی سیر کرائی جاتی ہے تاکہ وہ لوگ بھی بے گناہ فلسطینیوں کے خلاف ایسے ہی اقدامات کرسکیں –
صہیونیوں کو جب بھی یہودی مظالم کی یادستاتی ہے کہ وہ فلسطینیوں پر تشدد کرنا شروع کردیتے ہیں – نجانے یہ کون سی منطق ہے کہ وہ ایک قوم کے مظالم کا دوسری قوم سے بدلہ لیتے ہیں – اسرائیلی سپاہیوں کو جو پیغام ملتاہے وہ بالکل واضح ہے – انہیں یہ پیغام ملتاہے کہ آج کے نازی ’’فلسطینی ‘‘ ہیں ان پر تشدد کرنے ‘انہیں زخمی کرنے اور انہیں ہلاک کرنے سے یہودی ‘ کسی دوسرے ہولوکاسٹ کو وقوع پذیر ہونے سے روک رہے ہیں – کچھ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ فلسطینیوں سے ظالمانہ سلوک روا رکھنے سے وہ حقیقت میں ہولوکاسٹ کی ظلم وزیادتی کا بدلہ لے رہے ہیں جس سے انہیں بے حد و حساب روحانی مسرت ہوتی ہے – ان کے لا شعور میں یہ بات بیٹھ چکی ہے اور حقیقت میں وہ تشدد کرکے نازیوں کے طریقوں کی تعریف کررہے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ فوجی اور ان کے افسران کوشش کرتے ہیں کہ وہ نازیوں کے طرز عمل کو اختیار کرتے ہیں ‘ اور ان کے نزدیک اصل چیز طاقت ہی کا استعمال ہے –
اخلاقی دیوالیہ پن :
اس جنگ کے بعد جرمنی اور صہیونی بلیک میلنگ کے آگے جھک جانے کی یاد تازہ ہوجاتی ہے – ساٹھ برس گزر چکے ہیں لیکن آج بھی جرمنی ایسے جرم کا کفار ہ اداکررہاہے اس نے اسرائیل کو اس قابل بنادیا ہے کہ وہ بھی فلسطینیوں کے ساتھ اسی قسم کا سلوک روا رکھ سکیں ‘تاہم یہ یاد رکھناچاہیے کہ اسرائیلی جو تباہی وبربادی کررہے ہیں – اس میں گیس چیمبر کا استعمال نہیں ہے – جرمنی کے کونرڈ ایڈناور سے اینجل مرکل تک نے جس طرح فلسطین کے خلاف اسرائیل کے ظلم و ستم سے آنکھیں چرائی رکھیں اس سے ثابت ہوتاہے کہ وہ بھی فلسطین کے خلاف اسرائیلی مظالم سے خوش ہیں – جرمنوں سے عمومی طور پر اور جرمنی کے برسراقتدار طبقے نے خصوصی طور پر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم پر خاموشی اختیار کئے رکھی ‘ انہوں نے اسرائیل کو چھوٹ دیئے رکھی کہ وہ جو چاہے اقدام کرے – انہوں نے یہ رویہ اس لئے اختیار کیا کیونکہ وہ طاقتور قوموں خصوصاً امریکہ کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتا-
جرمنی ہر دور میں صاف اور واضح بات کہنے میں متامل رہاہے – اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ اسرائیل کے ہاتھ میں کلہاڑا ہے اور جرمنی نہیں چاہتاکہ اسے اس کے ماضی قریب کی یاد دلائی جائے – اقتصادی اور سیاسی طور پر جرمنی عظیم الحبثہ ملک ہے – لیکن اخلاقی طور پر بونا ہے کیونکہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم پر اس نے ان تمام برسوں میں خاموشی اختیار کئے رکھی – جرمنی نے اسرائیل کو بھرپور تکنیکی معاون فراہم کئے رکھی تاکہ وہ فلسطینی بچوں کو باآسانی قتل کرسکے – جرمنی نے اسرائیل کو بہترین آبدوزیں فراہم کیں تاکہ وہ اسرائیلی جوہری وارہیڈ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرسکے –
نجانے وہ دن کب آئے گاکہ جب جرمنی گہری نیند سے بیدار ہوگا اور صہیونی ظلم وستم کی مذمت کرے گا- ذرائع ابلاغ میں یہ خبر آچکی ہے کہ جرمن دانشور کے ایک گروپ نے جرمنی کی حکومت پر تنقید کی ہے اور کہاہے کہ وہ اسرائیل کی مسلسل حمایت بند کردے – 25دانشوروں کا کہناہے کہ جرمنی نے جو تشدد کیا وہ ساٹھ برس بعد بھی کسی نہ کسی طرح جاری وساری ہے – اسرائیل بھرپور انداز میں نسل کشی کررہاہے – اسرائیل نے 2 سے 3 ملین چھوٹے بم لبنان پر گرائے یہ بم بیس سے تیس لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے کافی ہیں – غزہ کی بھی یہی صورت حال ہے کہ جہاں سینکڑوں لوگ موت کے گھاٹ اترچکے ہیں نجانے یہ سلسلہ کب ختم ہو گا-
