ناکہ بندی مزید سخت ‘15لاکھ فلسطینیوں کی زندگیوں کو شدید خطرہ لاحق ‘ تازہ حالات پر ناکہ بندی کے خلاف قائم عوامی کمیٹی کے سربراہ جمال الخضری کا انٹرویو جو معلومات کے لئے نذر ظائرین ہے –
ناکہ بندی کے مقابلے کے لئے مقامی اور علاقائی طور پر کی جانے والی کوششوں کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
جواب :ناکہ بندی کے خاتمے کے حالات کے متعلق دلچسپی لینے والے بعض لوگوں میں حالیہ دنوں میں ایک غلط تصور پیدا ہوا ہے – بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فلسطینی جب ضروریات زندگی خرید و فروخت کے لئے سرحدی باڑ توڑ کر مصر میں داخل ہوگئے تو ناکہ بندی کا خاتمہ ہوگیا – یہ تصور بہت غلط ہے – جب سے سرحدی باڑو توڑی گئی ہے ناکہ بندی کی کوئی کڑی نہیں ٹوٹی بلکہ ناکہ بندی میں سختی کردی گئی ہے- ایندھن اور بجلی کی فراہمی میں مزید کمی کردی گئی ہے – ہر چیز پر سختی کردی گئی- عوامی کمیٹی نے اسلامی اور عالمی رائے عامہ کو متحرک کرنے کے لئے پروگرام بنائے ہیں- اس سلسلے میں 23فروری کو فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کا عالمی دن منایا گیا ہے – آئندہ ہر سال 23 فروری کو ناکہ بندی کے خاتمے کا دن منایا جائے گا-
23فروری کے دن اہم سرگرمیاں کیاتھیں اور کس حد تک عوام نے ساتھ دیا ؟
جواب :ہم نے 23فروری کو بہت سے پروگرامات ترتیب دیئے- مکمل ہڑتال کی گئی جو نہایت کامیاب ہوئی- متعدد مقامات پرجلسے اور جلوس نکالے گئے- اقوم متحدہ کے دفتر کے سامنے جلوس نکالا گیا- ہم نے اقوام متحدہ کی نمائندہ سے ملاقات کی اور ظالمانہ ناکہ بندی کے خلاف اقوم متحدہ کی نمائندہ کو یادداشت پیش کی کہ ناکہ بندی غیرقانونی ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے – طلبہ نے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مختلف پروگرامات ترتیب دیئے –
عالمی طور پر عرب اور دیگر ممالک میں بھی جلوس نکالے گئے- مغربی ممالک میں بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیا- لاکھوں لوگوں نے غزہ سے اظہار یکجہتی کے لئے رات کو بتیاں گل کردیں – ایک ملک میں 5منٹ تک ٹریفک جام کی گئی-
ناکہ بندی کی حالت میں اہالیان غزہ سے آپ کا رابطہ ہے آپ نے فلسطینیوں شہرمیں کیا نئی چیز پائی ہے ؟
جواب :ناکہ بندی کی حالت میں رہنے والے فلسطینی شہری بالخصوص غزہ کے شہریوں نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ہر مصیبت کامقابلہ کرسکتاہے اور حالات جس قدر بھی کٹھن ہوں اس کو جھکایا نہیں جاسکتا- ایک اہم چیز یہ ہے کہ اللہ ہی ہے جس نے اس قوم کو صبر اور ثابت قدمی عطا کی ہے –
ناکہ بندی کے مقابلے کے لئے قائم عوامی کمیٹی کے آپ سربراہ ہیں ‘ آپ اپنے آپ کو کس طرح دیکھتے ہیں ؟
جواب :یہ اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے کہ اس نے مجھے فلسطینی قوم کی خدمت کا موقع دیا ہے میں اس منصب کو فلسطینی قوم کے خادم کامنصب تصور کرتاہوں- غزہ قربانیوں کی جگہ ہے- آپ یہاں پر مسلسل کام کرسکتے ہیں- میرا یقین ہے کہ اللہ تعالی ہمارے لئے ایک دن کشادگی پیدا کرے گا اور ناکہ بندی کا فائدہ ہوگا‘جو بھی ہمیں کام کرتے دیکھتاہے نیک شگونی کا اظہار کرتاہے- میں بھی پر امیدہوں کہ – میری امید حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ ہم منصفانہ مسئلہ کے حامل ہیں ‘ ہماری زمین مقبوضہ ہے – ہمارے بیٹے پناہ گزین ہیں‘ ہمارے بیٹے جیلوں میں بند کردئیے گئے ہیں- اسرائیل کے فوجی رکاوٹیں فلسطینی قوم کے سینوں کو چیر رہی ہیں- ہمارے مسئلے کے پوری دنیا میں حامی ہیں- دنیا کی ہر جگہ پر ہمارے حامی ہیں- مشکل یہ ہے کہ ہم اس مسئلے کو کیسے پیش کریں اور ہم کیسے دنیا تک اپنی واز پہنچاتے ہیں – عوامی کمیٹی نے اس حوالے سے جو دروازہ کھٹکھٹایا ‘اسے کھول دیا گیا- دنیا کے 90مختلف شہروں میں جلسے جلوس کئے گئے-
بیرونی ممالک سے آپ کے رابطے کیسے ہیں ؟
جواب :یورپی پارلیمنٹ میں بیرونی تعلقات کی ہائی کمشنر کی طرف سے ہمیں خط موصول ہوا ہے جس میں انہوں نے ناکہ بندی کو فلسطینی عوام کے خلاف اجتماعی سزا قرار دیا- انہوں نے غزہ کی سرحدیں کھولنے کی ضرورت پر زوردیا- بین الاقومی ریڈ کراس کے ڈائریکٹر کا بھی مثبت موقف تھا- انہوں نے بھی ناکہ بندی کو مستردکردیا ہے – جب ہم نے اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی اونروا کی ہائی کمشنر محترمہ کارین ابوزید سے ملاقات کی تو ان کا موقف بہت شاندار تھا- انہوں نے کہاکہ میں عوامی کمیٹی کا شکر یہ ادا کرتی ہوں –
مستقبل میں آپ کی کیا توقعات ہیں ؟
جواب :میں ہمیشہ خیر کی توقع رکھتاہوں لیکن ہماری خواہش ہے کہ سرگرمیاں جاری رہیں – ذرائع ابلاغ کا فرض ہے کہ وہ دنیا تک غزہ کی تصویر پہنچائیں –
بین الاقوامی برادری کے لئے آپ کا کیا پیغام ہے ؟
جواب :ہمارا بین الاقوامی برادری کو یہی پیغام ہے کہ وہ حقیقت کو سمجھیں کہ وہ قابض اسرائیل کی بے بنیاد دلیلوں میں فرق کریں – مزاحمت‘ قبضہ ‘ یہودی اور آبادکاری کا ایک مسئلہ ہے جبکہ حصاربندی ایک علیحدہ مسئلہ ہے – انہیں جاننا چاہیے کہ قبضے کا خاتمہ تمام مسائل کا حل ہے لیکن حصار بندی کا مسئلہ انسانی مسئلہ ہے- حصار بندی غیر اخلاقی‘غیر انسانی اور اقدار کے خلاف ہے اس کا خاتمہ ضروری ہے – میں اپنی قوم کو صبر کا پیغام دیتاہوں-
جواب :ناکہ بندی کے خاتمے کے حالات کے متعلق دلچسپی لینے والے بعض لوگوں میں حالیہ دنوں میں ایک غلط تصور پیدا ہوا ہے – بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فلسطینی جب ضروریات زندگی خرید و فروخت کے لئے سرحدی باڑ توڑ کر مصر میں داخل ہوگئے تو ناکہ بندی کا خاتمہ ہوگیا – یہ تصور بہت غلط ہے – جب سے سرحدی باڑو توڑی گئی ہے ناکہ بندی کی کوئی کڑی نہیں ٹوٹی بلکہ ناکہ بندی میں سختی کردی گئی ہے- ایندھن اور بجلی کی فراہمی میں مزید کمی کردی گئی ہے – ہر چیز پر سختی کردی گئی- عوامی کمیٹی نے اسلامی اور عالمی رائے عامہ کو متحرک کرنے کے لئے پروگرام بنائے ہیں- اس سلسلے میں 23فروری کو فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کا عالمی دن منایا گیا ہے – آئندہ ہر سال 23 فروری کو ناکہ بندی کے خاتمے کا دن منایا جائے گا-
23فروری کے دن اہم سرگرمیاں کیاتھیں اور کس حد تک عوام نے ساتھ دیا ؟
جواب :ہم نے 23فروری کو بہت سے پروگرامات ترتیب دیئے- مکمل ہڑتال کی گئی جو نہایت کامیاب ہوئی- متعدد مقامات پرجلسے اور جلوس نکالے گئے- اقوم متحدہ کے دفتر کے سامنے جلوس نکالا گیا- ہم نے اقوام متحدہ کی نمائندہ سے ملاقات کی اور ظالمانہ ناکہ بندی کے خلاف اقوم متحدہ کی نمائندہ کو یادداشت پیش کی کہ ناکہ بندی غیرقانونی ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے – طلبہ نے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مختلف پروگرامات ترتیب دیئے –
عالمی طور پر عرب اور دیگر ممالک میں بھی جلوس نکالے گئے- مغربی ممالک میں بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیا- لاکھوں لوگوں نے غزہ سے اظہار یکجہتی کے لئے رات کو بتیاں گل کردیں – ایک ملک میں 5منٹ تک ٹریفک جام کی گئی-
ناکہ بندی کی حالت میں اہالیان غزہ سے آپ کا رابطہ ہے آپ نے فلسطینیوں شہرمیں کیا نئی چیز پائی ہے ؟
جواب :ناکہ بندی کی حالت میں رہنے والے فلسطینی شہری بالخصوص غزہ کے شہریوں نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ہر مصیبت کامقابلہ کرسکتاہے اور حالات جس قدر بھی کٹھن ہوں اس کو جھکایا نہیں جاسکتا- ایک اہم چیز یہ ہے کہ اللہ ہی ہے جس نے اس قوم کو صبر اور ثابت قدمی عطا کی ہے –
ناکہ بندی کے مقابلے کے لئے قائم عوامی کمیٹی کے آپ سربراہ ہیں ‘ آپ اپنے آپ کو کس طرح دیکھتے ہیں ؟
جواب :یہ اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے کہ اس نے مجھے فلسطینی قوم کی خدمت کا موقع دیا ہے میں اس منصب کو فلسطینی قوم کے خادم کامنصب تصور کرتاہوں- غزہ قربانیوں کی جگہ ہے- آپ یہاں پر مسلسل کام کرسکتے ہیں- میرا یقین ہے کہ اللہ تعالی ہمارے لئے ایک دن کشادگی پیدا کرے گا اور ناکہ بندی کا فائدہ ہوگا‘جو بھی ہمیں کام کرتے دیکھتاہے نیک شگونی کا اظہار کرتاہے- میں بھی پر امیدہوں کہ – میری امید حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ ہم منصفانہ مسئلہ کے حامل ہیں ‘ ہماری زمین مقبوضہ ہے – ہمارے بیٹے پناہ گزین ہیں‘ ہمارے بیٹے جیلوں میں بند کردئیے گئے ہیں- اسرائیل کے فوجی رکاوٹیں فلسطینی قوم کے سینوں کو چیر رہی ہیں- ہمارے مسئلے کے پوری دنیا میں حامی ہیں- دنیا کی ہر جگہ پر ہمارے حامی ہیں- مشکل یہ ہے کہ ہم اس مسئلے کو کیسے پیش کریں اور ہم کیسے دنیا تک اپنی واز پہنچاتے ہیں – عوامی کمیٹی نے اس حوالے سے جو دروازہ کھٹکھٹایا ‘اسے کھول دیا گیا- دنیا کے 90مختلف شہروں میں جلسے جلوس کئے گئے-
بیرونی ممالک سے آپ کے رابطے کیسے ہیں ؟
جواب :یورپی پارلیمنٹ میں بیرونی تعلقات کی ہائی کمشنر کی طرف سے ہمیں خط موصول ہوا ہے جس میں انہوں نے ناکہ بندی کو فلسطینی عوام کے خلاف اجتماعی سزا قرار دیا- انہوں نے غزہ کی سرحدیں کھولنے کی ضرورت پر زوردیا- بین الاقومی ریڈ کراس کے ڈائریکٹر کا بھی مثبت موقف تھا- انہوں نے بھی ناکہ بندی کو مستردکردیا ہے – جب ہم نے اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی اونروا کی ہائی کمشنر محترمہ کارین ابوزید سے ملاقات کی تو ان کا موقف بہت شاندار تھا- انہوں نے کہاکہ میں عوامی کمیٹی کا شکر یہ ادا کرتی ہوں –
مستقبل میں آپ کی کیا توقعات ہیں ؟
جواب :میں ہمیشہ خیر کی توقع رکھتاہوں لیکن ہماری خواہش ہے کہ سرگرمیاں جاری رہیں – ذرائع ابلاغ کا فرض ہے کہ وہ دنیا تک غزہ کی تصویر پہنچائیں –
بین الاقوامی برادری کے لئے آپ کا کیا پیغام ہے ؟
جواب :ہمارا بین الاقوامی برادری کو یہی پیغام ہے کہ وہ حقیقت کو سمجھیں کہ وہ قابض اسرائیل کی بے بنیاد دلیلوں میں فرق کریں – مزاحمت‘ قبضہ ‘ یہودی اور آبادکاری کا ایک مسئلہ ہے جبکہ حصاربندی ایک علیحدہ مسئلہ ہے – انہیں جاننا چاہیے کہ قبضے کا خاتمہ تمام مسائل کا حل ہے لیکن حصار بندی کا مسئلہ انسانی مسئلہ ہے- حصار بندی غیر اخلاقی‘غیر انسانی اور اقدار کے خلاف ہے اس کا خاتمہ ضروری ہے – میں اپنی قوم کو صبر کا پیغام دیتاہوں-