وہ حکومت جو اپنے سیاسی مخالفین کو قتل کرتی ہے اور بعد میں اسے چھپانے یا اپنے جرم کی نوعیت چھپانے کی کوشش کرتی ہے وہ سادہ ترین الفاظ میں مجرم حکومت کہلاتی ہے-
فلسطینی شہری اس پر فکر مند ہیں کہ رام اللہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی کی حکومت موجودہ بائیس عرب ریاستوں کی طرح ایک اور عرب پولیس ریاست کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے- لیکن موجودہ صورتحال میں ایک فرق ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ فلسطینی پولیس ریاست ایک ایسی ریاست ہے جس کے پاس ریاست موجود نہیں ہے- دو ہفتے قبل فلسطین کے انٹیلی جنس ادارے ’’مخابرات‘‘ رام اللہ کے نزدیک کوبرگائوں سے آٹھ افراد کو تشدد کے بعد گرفتار کرلیا- گرفتار شدہ لوگوں میں مقامی امام مسجد، پنتالیس سالہ مجد البرغوثی بھی شامل تھے جس کے آٹھ بچے ہیں، اس کے خلاف جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان کے مطابق اس نے آتشیں اسلحہ کہیں چھپا رکھا تھا- البرغوثی کا کہنا تھا کہ آتشیں اسلحہ نہ اس کے پاس موجود ہے اور نہ اسے اس بارے میں کوئی علم ہے-
مسلسل آٹھ روز اس شخص پر جسمانی تشدد کیا جاتا رہا اسے نیند سے محروم کیا گیا، جسمانی تعذیب دی گئی- اس کے جسم پر آبلے پڑ گئے، کم و بیش وہی حربے استعمال کیے گئے کہ جو اسرائیلی انٹیلی جنس فلسطینیوں کے خلاف استعمال کرتی ہے-
20 فروری کو البرغوثی اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا اور اسے رام اللہ کے ہسپتال میں لایا گیا- ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کے جسم پر شدید چوٹیں ہیں اور اسے ہسپتال میں داخل کرنے کی فوری ضرورت ہے- فلسطینی انٹیلی جنس ملازمین نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور اسے واپس تفتیشی مرکز لے آئے- 22 فروری کو البرغوثی کا انتقال ہوگیا- امکان ہے کہ وہ تشدد کے دوران جاں بحق ہوا- قید میں موجود قریبی قیدیوں کا کہنا ہے کہ وہ کئی گھنٹے تک مدد کے لیے پکارتا رہا اور بعد میں اس کی آوازیں آنا بند ہوگئیں یہاں تک کہ وہ فوت ہوگیا-
اس کی وفات کے بعد مخابرات کے چند عہدیدار اور فلسطینی اتھارٹی کے حکام وہاں پر آئے اور کہا کہ یہ شخص مریض تھا اور دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے جاں بحق ہوا- اس کے اہل خانہ اور قریبی عزیزوں نے کہا ہے کہ البرغوثی کو کوئی پیچیدہ مرض لاحق نہیں تھا- ان کا کہنا ہے کہ البرغوثی کی موت انٹیلی جنس محکمے کے لوگوں کے تشدد کی وجہ سے ہوئی- میں نے بذات خود البرغوثی کی لاش کو دیکھا ہے اور اس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس پر شدید تشدد کیا گیا تھا اور اس کو بجلی کے جھٹکے بھی لگائے گئے تھے-
اس سارے واقعے کی ذمہ داری فلسطینی اتھارٹی محمود عباس پر عائد ہوتی ہے- فلسطینی اتھارٹی کے صدر ہونے کے ناطے ضروری ہے کہ وہ تسلیم کریں کہ اس قتل کی قانونی اور اخلاقی ذمہ اری ان پر عائد ہوتی ہے- فلسطینی چاہتے ہیں کہ محمود عباس فتح تنظیم کے عہدیدار کے طور پر نہیں بلکہ تمام فلسطینیوں کے سربراہ کی حیثیت میں کردار ادا کریں- یہ محمود عباس کی صلاحیتوں کا امتحان ہے اگر وہ اس معاملے میں صحیح فیصلہ نہ کرسکیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ فلسطینیوں کو دھوکہ دے رہے ہیں- ضرورت یہ ہے کہ وہ فوری طور پر تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیں اور طے شدہ وقت کے اندر اس قتل کی وجوہات و محرکات کا کھوج لگانے کی ہدایت کریں-
فلسطینیوں کو یہ تسلی دینا چاہیے کہ اس معاملے میں کوئی کام غلط نہ ہوگا نہ ہی حقیقت کو چھپایا جائے گا- ہر حکومت کا بنیادی کام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرے ان کی دشمن نہ بنے-
بلاشک و شبہہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ البرغوثی کی موت تشدد کی وجہ سے ہوئی ہے تو فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کو چاہیے کہ وہ ہمت و حوصلے کے ساتھ فلسطینیوں سے خطاب کریں اور انہیں صورتحال سے آگاہ کریں اور سچائی واضح کریں- اگر سچائی واضح ہو جائے تو محمود عباس کو چاہیے کہ وہ فلسطینی انٹیلی جنس کے سربراہ توفیق الطواری کو فارغ کردیں، کیونکہ انہوں نے تشدد کا ایسا سلسلہ شروع کررکھا ہے جس کی کسی طور اجازت نہیں دی جاسکتی یہ اپنے بھائی کے قتل کے مترادف ہے-
ہم یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ البرغوثی کے قتل میں جو لوگ براہ راست یا بلاواسطہ شامل رہے ہیں ان کو سزا دی جائے- لیکن ایسے کئی اقدامات ہیں جن پر عملدرآمد کے لیے تحقیقاتی کمیٹی کے نتائج کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے- محمود عباس کو چاہیے کہ تمام سیکورٹی اور انٹیلی جنس محکموں کو ہدایات جاری کردی جائیں کہ تفتیشی مراکز میں کسی صورت تشدد اور تعذیب نہ دی جائے یہ کس قدر افسوس ناک اور شرمناک بات ہے کہ ہم ایک طرف اسرائیل کے ظلم و تشدد کے خلاف بات کرتے ہیں اور دوسری طرف اسی مقدار میں تشدد کا خود بھی استعمال کرتے ہیں- محمود عباس کو فوری طور پر یہ حکم بھی جاری کرنا چاہیے کہ جن لوگوں کو سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیا گیا ہے ان کو رہا کردیا جائے- سیکورٹی محکمے میں کام کرنے والے نوجوان کم تعلیم یافتہ افراد کو یہ بات خوب اچھی طرح سمجھا دینا چاہیے کہ وہ قانون سے بالاتر نہیں ہیں اگر وہ تشدد کے مرتکب پائے گئے تو ان کے ساتھ بھی قانون کے مطابق معاملہ کیا جائے گا- یہ حقیقت ہے کہ البرغوثی کو ہم واپس نہیں لاسکتے لیکن اس کے خاندان دوستوں اور فلسطینیوں کی خاطر ہم اس جرم کو بار بار وقوع پذیر ہونے سے روک سکتے ہیں- لیکن یہ اس وقت ممکن ہے کہ جب ہمارا یہ کام کرنے کا ارادہ ہو-
اس سلسلے میں فلسطینی اتھارٹی کو رقوم فراہم کرنے والے یورپی یونین اور دوسرے اداروں سے بھی یہ گزارش کرنا ہے کہ البرغوثی کا قتل آپ کے سامنے ہوا ہے- جن افراد نے اسے قتل کیا ہے وہ آپ کے تنخواہ دار ہیں- یقینا یورپ کے لوگ نہیں چاہیں گے کہ ان کے ٹیکس سے جو رقم حاصل کی جاتی ہے اس کو انسانی حقوق کی پامالی کے لیے استعمال کیا جائے- فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے- یہ بے انتہاء ضروری ہے کہ اقتصادی امداد امداد فلسطینی اتھارٹی کو اس شرط پر فراہم کی جائے کہ وہ مقبوضہ علاقوں میں ان کی حفاظت کا وعدہ کرے- اس سلسلے میں امریکہ کا خصوصی طور پر تذکرہ نہیں کیا جارہا ہے- جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی پشت پر امریکہ کا ہاتھ ہے، لیکن میرا اصل مطالبہ امریکیوں سے ہے- وقت آگیا ہے کہ یورپی یونین فلسطینی اتھارٹی کو بتادے کہ جبر و تشدد روک دے-
