گزشتہ چند ہفتوں سے میری کوشش رہی ہے کہ امن سے محبت کرنے والے چند یہودیوں کے ہمراہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی سنجیدگی سے کوشش کی جائے- اس کوشش کا مقصد یہ تھاکہ زندگیاں بچائی جائیں اور مزید تباہی و بربادی کو روکا جائے‘ نیز غزہ کی پٹی کے تباہ حال لوگوں کو اسرائیلی قابض فوج کے مزید ظلم و ستم سے بچایا جائے-
ہماری کوششیں کچھ رنگ لائیں اور غزہ میں فلسطینی حکام نے اس پر رضا مندی ظاہر کردی کہ اقتصادی ناکہ بندی کے خاتمے کے لئے اسرائیل نے سنجیدہ کوشش کی تو اس سے بھرپور تعاون کیا جائے گا‘کیونکہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں سے ہزاروں فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں- رام اللہ میں مغربی سرپرستی میں قائم فلسطینی اتھارٹی کی حکومت نے بھی کہاہے کہ ایک متوازن معاہدے پر عمل درآمد کے لئے وہ تیار ہیں جس سے غزہ کی پٹی کے شہریوں کو بہتر حالات فراہم کئے جاسکیں-
فلسطینی اتھارٹی کے چند حکام نے غزہ میں امن معاہدے کے بارے میں چند تحفظات کااظہار کیا‘ ان کا کہناتھاکہ اس معاہدے کی شقوں کو مغربی کنارے تک توسیع پذیر ہونا چاہیے ان کا ایک اور بڑا اعتراض یہ تھاکہ رام اللہ کی قیادت کو اس معاہدے میں کوئی نمایاں مقام نہیں دیاگیا- مجھے ذاتی طور پر اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ اس معاہدے میں فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین محمود عباس کو نمایاں حیثیت میں شامل کیا جائے- غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں اس پر اتفاق رائے پایا جاتاہے کہ اگر اسرائیل حملے روک دے تو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی سے اسرائیل پر میزائل پھینکے جانے کا سلسلہ بھی بند ہوجائے گا-
گزشتہ ہفتے میں نے اسرائیلی حکومت کو ذاتی طور پر واضح کیا کہ اصلی مسئلہ قسام میزائل کا پھینکا جانا نہیں ہے نہ ہی حصار بندی مسئلہ ہے – اصل مسئلہ وہ شہری اور بچے ہیں کہ جو اسرائیل کے ظلم و ستم کے مقابلے میں کوئی راہ فرار نہیں پاتے- میں اسرائیل کی حکومت سے کہتاہوں کہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کامعاہدہ تسلیم کرلے کیونکہ اب گیند اسرائیل کے کورٹ میں ہے- مجھے ادراک ہے کہ حماس کے ساتھ معاہدہ کرنے کا مطلب یہ ہوگاکہ اسلامی تحریک کو تسلیم کرلیا جائے – حقیقت یہ ہے کہ حماس اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اور مفاہمت کی بھیک نہیں مانگ رہی‘ یہ اسرائیل کی ضرورت ہے کہ اسے مسلمان تسلیم کرلیں- اسرائیل ایک بڑی فوجی طاقت ہے اسرائیلی حکومت وہی اقدامات کررہی ہے جو جنگ عظیم دوم میں یورپ میں گستاپوتنظیم کررہی تھی‘ اسرائیلی حکومت جب ایک سو یا دو سو فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارتی ہے تو اسے قتل نہیں کیا جاسکتا‘ یہ اجتماعی قتل عام ہے – فلسطینیوں کے ردعمل کو جانچنے کے لئے اسرائیل ایک یا دو ہفتے کی آزمائشی جنگ بندی کا اعلان کرسکتاہے – اسرائیل کے پاس اب کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ وہ مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرے –
جمعرات کے روز اسرائیلی وزیرخارجہ تسیبی لیفنی نے دعوی کیاتھاکہ اسرائیل کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات فلسطینیوں کی جانب سے پھینکے جانے والے میزائلوں کا ردعمل ہیں‘ اس مشترکہ پریس کانفرنس میں دورے پر تے ہوئے رومانیہ کے وزیرخارجہ اڈرین سی اورئی آنو بھی موجود تھے –
گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیرخارجہ نے غزہ کی پٹی میں موجود درجنوں سفارتکاروں سے ملاقات کی‘ اس کا امکان ہے کہ غزہ کی پٹی کے خلاف وسیع پیمانے پر کاروائی کا آغاز ہونے والا ہے – جس کی بدولت سینکڑوں فلسطینی جاں بحق اور ہزاروں معذور ہوجائیں گے – لیفنی نے اس ملاقات کے دوران سفارتکاروں سے صرف یہ سوال کیا کہ اگر آپ کے شہروں پر روزانہ راکٹ گرائے جاتے رہیں تو کیا آپ برداشت کریں گے – لیکن لیفنی نے سفارتکاروں کو یہ نہیں بتایاکہ فلسطینی‘ اسرائیلی آبادکاریوں پر گھریلو ساختہ میزائل کیوں گراتے ہیں –
لیفنی کبھی بھی یہ نہ بتائیں گی کہ اسرائیل نے بے بس اہل غزہ کے خلاف نسل کشی کی مہم شروع کررکھی ہے اور اس کا کوئی مقصد نہیں ہے – سوائے اس کے کہ فلسطینیوں کی تعداد کو کم کیا جائے اور ان کو مزیددباؤمیں رکھا جائے – یورپی یونین اور دیگر ممالک کو دیکھنا چاہیے کہ اسرائیل کا رویہ کیا ہے-
اصل بات یہ ہے کہ اسرائیل ایسے موقعہ کی تلاش میں ہے کہ کسی بھی لمحے غزہ کی پٹی پر حملہ کردے تاکہ فلسطینیوں کو نقصان پہنچایا جاسکے-بیس ماہ پہلے اسرائیل کو حزب اللہ لبنان کے ہاتھوں جو شکست کھانا پڑی تھی‘ اسے وہ شکست فراموش نہیں کرنی چاہیے اور اسے فلسطینیوں کے خون بہانے کا سلسلہ بند کردینا چاہیے- ایک اور راستہ یہ ہے کہ حماس کو بے دست و پا کردیا جائے اور مسئلہ فلسطین کو دبا دیا جائے – اس صورت حال میں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ظلم و زیادتی اور جبر و تشدد کے ذریعے کسی قوم کو غلام نہیں رکھاجاسکتا-
ہماری کوششیں کچھ رنگ لائیں اور غزہ میں فلسطینی حکام نے اس پر رضا مندی ظاہر کردی کہ اقتصادی ناکہ بندی کے خاتمے کے لئے اسرائیل نے سنجیدہ کوشش کی تو اس سے بھرپور تعاون کیا جائے گا‘کیونکہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں سے ہزاروں فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں- رام اللہ میں مغربی سرپرستی میں قائم فلسطینی اتھارٹی کی حکومت نے بھی کہاہے کہ ایک متوازن معاہدے پر عمل درآمد کے لئے وہ تیار ہیں جس سے غزہ کی پٹی کے شہریوں کو بہتر حالات فراہم کئے جاسکیں-
فلسطینی اتھارٹی کے چند حکام نے غزہ میں امن معاہدے کے بارے میں چند تحفظات کااظہار کیا‘ ان کا کہناتھاکہ اس معاہدے کی شقوں کو مغربی کنارے تک توسیع پذیر ہونا چاہیے ان کا ایک اور بڑا اعتراض یہ تھاکہ رام اللہ کی قیادت کو اس معاہدے میں کوئی نمایاں مقام نہیں دیاگیا- مجھے ذاتی طور پر اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ اس معاہدے میں فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین محمود عباس کو نمایاں حیثیت میں شامل کیا جائے- غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں اس پر اتفاق رائے پایا جاتاہے کہ اگر اسرائیل حملے روک دے تو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی سے اسرائیل پر میزائل پھینکے جانے کا سلسلہ بھی بند ہوجائے گا-
گزشتہ ہفتے میں نے اسرائیلی حکومت کو ذاتی طور پر واضح کیا کہ اصلی مسئلہ قسام میزائل کا پھینکا جانا نہیں ہے نہ ہی حصار بندی مسئلہ ہے – اصل مسئلہ وہ شہری اور بچے ہیں کہ جو اسرائیل کے ظلم و ستم کے مقابلے میں کوئی راہ فرار نہیں پاتے- میں اسرائیل کی حکومت سے کہتاہوں کہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کامعاہدہ تسلیم کرلے کیونکہ اب گیند اسرائیل کے کورٹ میں ہے- مجھے ادراک ہے کہ حماس کے ساتھ معاہدہ کرنے کا مطلب یہ ہوگاکہ اسلامی تحریک کو تسلیم کرلیا جائے – حقیقت یہ ہے کہ حماس اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اور مفاہمت کی بھیک نہیں مانگ رہی‘ یہ اسرائیل کی ضرورت ہے کہ اسے مسلمان تسلیم کرلیں- اسرائیل ایک بڑی فوجی طاقت ہے اسرائیلی حکومت وہی اقدامات کررہی ہے جو جنگ عظیم دوم میں یورپ میں گستاپوتنظیم کررہی تھی‘ اسرائیلی حکومت جب ایک سو یا دو سو فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارتی ہے تو اسے قتل نہیں کیا جاسکتا‘ یہ اجتماعی قتل عام ہے – فلسطینیوں کے ردعمل کو جانچنے کے لئے اسرائیل ایک یا دو ہفتے کی آزمائشی جنگ بندی کا اعلان کرسکتاہے – اسرائیل کے پاس اب کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ وہ مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرے –
جمعرات کے روز اسرائیلی وزیرخارجہ تسیبی لیفنی نے دعوی کیاتھاکہ اسرائیل کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات فلسطینیوں کی جانب سے پھینکے جانے والے میزائلوں کا ردعمل ہیں‘ اس مشترکہ پریس کانفرنس میں دورے پر تے ہوئے رومانیہ کے وزیرخارجہ اڈرین سی اورئی آنو بھی موجود تھے –
گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیرخارجہ نے غزہ کی پٹی میں موجود درجنوں سفارتکاروں سے ملاقات کی‘ اس کا امکان ہے کہ غزہ کی پٹی کے خلاف وسیع پیمانے پر کاروائی کا آغاز ہونے والا ہے – جس کی بدولت سینکڑوں فلسطینی جاں بحق اور ہزاروں معذور ہوجائیں گے – لیفنی نے اس ملاقات کے دوران سفارتکاروں سے صرف یہ سوال کیا کہ اگر آپ کے شہروں پر روزانہ راکٹ گرائے جاتے رہیں تو کیا آپ برداشت کریں گے – لیکن لیفنی نے سفارتکاروں کو یہ نہیں بتایاکہ فلسطینی‘ اسرائیلی آبادکاریوں پر گھریلو ساختہ میزائل کیوں گراتے ہیں –
لیفنی کبھی بھی یہ نہ بتائیں گی کہ اسرائیل نے بے بس اہل غزہ کے خلاف نسل کشی کی مہم شروع کررکھی ہے اور اس کا کوئی مقصد نہیں ہے – سوائے اس کے کہ فلسطینیوں کی تعداد کو کم کیا جائے اور ان کو مزیددباؤمیں رکھا جائے – یورپی یونین اور دیگر ممالک کو دیکھنا چاہیے کہ اسرائیل کا رویہ کیا ہے-
اصل بات یہ ہے کہ اسرائیل ایسے موقعہ کی تلاش میں ہے کہ کسی بھی لمحے غزہ کی پٹی پر حملہ کردے تاکہ فلسطینیوں کو نقصان پہنچایا جاسکے-بیس ماہ پہلے اسرائیل کو حزب اللہ لبنان کے ہاتھوں جو شکست کھانا پڑی تھی‘ اسے وہ شکست فراموش نہیں کرنی چاہیے اور اسے فلسطینیوں کے خون بہانے کا سلسلہ بند کردینا چاہیے- ایک اور راستہ یہ ہے کہ حماس کو بے دست و پا کردیا جائے اور مسئلہ فلسطین کو دبا دیا جائے – اس صورت حال میں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ظلم و زیادتی اور جبر و تشدد کے ذریعے کسی قوم کو غلام نہیں رکھاجاسکتا-