عماد مغنیہ 7 دسمبر1962 ء کو جنوبی لبنان کے گاؤں صور میں پیدا ہوئے- ان کی والدہ سول سوسائٹی کی ایک سر گرم خاتون تھیں، یہی وجہ ہے کہ شروع ہی سے عماد کی زندگی والدہ کی اچھی تربیت کے اثرات مرتب ہوتے گئے-
ابتدائی تعلیم طیر دبا کے علاقے سے حاصل کی جبکہ گریجویشن بیروت میں قائم ایک امریکی یونیورسٹی’’بیروت امریکن یونیورسٹی‘‘ سے کی- لبنانی عوام اور حزب اللہ کے ہاں وہ الحاج عماد، ہیرو، چیتا،عماد رضوان اور حزب اللہ کا دماغ کے ناموں اور القابات سے جانے جاتے تھے- جبکہ امریکہ اور اسرائیل کے ہاں گریٹ کلر،شیعہ بن لادن اور چالاک لومڑی کے القابات سے مشہور تھے- امریکہ، اسرائیل اور انٹر پول کو کئی مقدمات میں انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں ان کا نام شامل تھا- ستمبر2001ء کے امریکہ پر حملے کے سے قبل امریکہ کو دنیا بھر سے مطلوب بیس افراد میں عماد مغنیہ فہرست میں پہلے نمبر پر تھے-
زمانہ طالب علمی میں ان کی ملاقات سابق فلسطینی صدر یاسر عرفات (مرحوم )سے ہوئی تو عماد نے ان کی جماعت فتح میں شمولیت کا فیصلہ کیا –
عرفات مرحوم کے ساتھ کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد انہوں نے اسلامک جہاد کے نام سے ایک تنظیم قائم کی، تاہم بعد ازاں اسے ختم کر کے 1980ء میں حزب اللہ میں شامل ہو گئے، جہاں انہیں تنظیم کے بانی شیخ حسن فضل اللہ جیسے لوگوں سے تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا -حزب اللہ میں شمولیت کے بعد انہوں نے لبنان سے امریکی اور اسرائیلی فوجوں کے انخلاء کے لیے جنگ کا آغاز کیا- حزب اللہ میں انہیں سکیورٹی چیف بنایاگیا اور کہیں بھی ہونے والے حملوں کی تمام ترکارروائی عماد کی نگرانی اور ہدایات کی روشنی میں طے کی جانے لگی-اپریل1983ء میں بیروت میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کر کے 63 امریکی ہلا کرنے اور اسی سال لبنان میں امریکی فوج پر بم حملہ کر کے 241 فوجیوں کے قتل ذمہ داری بھی ان پر ڈالی گئی، جس پر امریکہ نے ان کی زندہ یا مردہ گرفتار ی کے لیے پچیس ملین ڈالر کی رقم مختص کی- وادی بقاع میں 58 فرانسیسی فوجیوں کے قتل کے پس پردہ بھی ان ہی کا ہاتھ بتایا جاتا ہے – جون 1985ء میں یورپ سے ایک امریکی ایئر لائن ڈبلیو ٹی او کا طیارہ اغواء کیا- 1992ء ارجنٹائن کے شہر بیونس آئرس میں اسرائیلی سفارت خانے میں بم حملوں میں انتالیس افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری بھی ان پر عائد کی گئی- 1980 ء اور 90 کی دہائیوں میں کئی امریکی فوجیوں کو اغواء کیا-
عما د مغنیہ فلسطینی تحریک آزادی کے زبردست حامی سمجھے جاتے تھے – ابتداء میں انہوں نے تحریک آزادی فلسطین کے لیے کام کیا- اتحاد عالم اسلامی کے زبر دست داعی تھے ، انہی کی کوششوں سے حماس اور حزب اللہ کے درمیان مثالی او ردوستانہ تعلقات قائم ہوئے- جون2006ء کی اسرائیل لبنان جنگ میں حزب اللہ کی کامیابی اور اسرائیلی شکست کے پیچھے بھی کمانڈر عماد ہی کی پالیسی کار فرما تھی-انہیں القاعدہ اور عراق میں امریکی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے ابو مصعب الزرقاوی کا بھی دوست سمجھاجاتا ہے -امریکی سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار کا کہنا ہے مغنیہ ایک دروازے سے داخل ہوتا او ردوسرے سے نکلتا، روزانہ گاڑی تبدیل کرتا، فون پر کسی سے ملاقات کا وقت طے نہیں کرتا، وہ ایک تیز اور شاطر دہشت گردتھا-
حزب اللہ کے ماہر ڈاکٹر میگنس کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے حزب اللہ ایک تنظیم کے طور پر ابھری، اسی طرح مغنیہ پس پردہ چلے گئے اور یہی ان کے تحفظ کی کامیاب ترین حکمت عملی تھی- امریکی اور اسرائیلی خفیہ اداروں کے پاس کمانڈر عماد کی تصویر بائیس سال پرانی ہے، جاسوسوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عماد نے سرجری کے ذریعے اپنے چہرے کا حلیہ بالکل تبدیل کر لیاتھا، جس سے ان کی شناخت نا ممکن ہو گئی تھی- ’’حزب اللہ کا دماغ‘‘ 12 فروری2008ء کو شام کے دارلحکومت دمشق کار بم حملے میں شہید کردیاگیا، کارروائی کی ذمہ داری موساد پر عائد کی گئی-
ابتدائی تعلیم طیر دبا کے علاقے سے حاصل کی جبکہ گریجویشن بیروت میں قائم ایک امریکی یونیورسٹی’’بیروت امریکن یونیورسٹی‘‘ سے کی- لبنانی عوام اور حزب اللہ کے ہاں وہ الحاج عماد، ہیرو، چیتا،عماد رضوان اور حزب اللہ کا دماغ کے ناموں اور القابات سے جانے جاتے تھے- جبکہ امریکہ اور اسرائیل کے ہاں گریٹ کلر،شیعہ بن لادن اور چالاک لومڑی کے القابات سے مشہور تھے- امریکہ، اسرائیل اور انٹر پول کو کئی مقدمات میں انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں ان کا نام شامل تھا- ستمبر2001ء کے امریکہ پر حملے کے سے قبل امریکہ کو دنیا بھر سے مطلوب بیس افراد میں عماد مغنیہ فہرست میں پہلے نمبر پر تھے-
زمانہ طالب علمی میں ان کی ملاقات سابق فلسطینی صدر یاسر عرفات (مرحوم )سے ہوئی تو عماد نے ان کی جماعت فتح میں شمولیت کا فیصلہ کیا –
عرفات مرحوم کے ساتھ کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد انہوں نے اسلامک جہاد کے نام سے ایک تنظیم قائم کی، تاہم بعد ازاں اسے ختم کر کے 1980ء میں حزب اللہ میں شامل ہو گئے، جہاں انہیں تنظیم کے بانی شیخ حسن فضل اللہ جیسے لوگوں سے تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا -حزب اللہ میں شمولیت کے بعد انہوں نے لبنان سے امریکی اور اسرائیلی فوجوں کے انخلاء کے لیے جنگ کا آغاز کیا- حزب اللہ میں انہیں سکیورٹی چیف بنایاگیا اور کہیں بھی ہونے والے حملوں کی تمام ترکارروائی عماد کی نگرانی اور ہدایات کی روشنی میں طے کی جانے لگی-اپریل1983ء میں بیروت میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کر کے 63 امریکی ہلا کرنے اور اسی سال لبنان میں امریکی فوج پر بم حملہ کر کے 241 فوجیوں کے قتل ذمہ داری بھی ان پر ڈالی گئی، جس پر امریکہ نے ان کی زندہ یا مردہ گرفتار ی کے لیے پچیس ملین ڈالر کی رقم مختص کی- وادی بقاع میں 58 فرانسیسی فوجیوں کے قتل کے پس پردہ بھی ان ہی کا ہاتھ بتایا جاتا ہے – جون 1985ء میں یورپ سے ایک امریکی ایئر لائن ڈبلیو ٹی او کا طیارہ اغواء کیا- 1992ء ارجنٹائن کے شہر بیونس آئرس میں اسرائیلی سفارت خانے میں بم حملوں میں انتالیس افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری بھی ان پر عائد کی گئی- 1980 ء اور 90 کی دہائیوں میں کئی امریکی فوجیوں کو اغواء کیا-
عما د مغنیہ فلسطینی تحریک آزادی کے زبردست حامی سمجھے جاتے تھے – ابتداء میں انہوں نے تحریک آزادی فلسطین کے لیے کام کیا- اتحاد عالم اسلامی کے زبر دست داعی تھے ، انہی کی کوششوں سے حماس اور حزب اللہ کے درمیان مثالی او ردوستانہ تعلقات قائم ہوئے- جون2006ء کی اسرائیل لبنان جنگ میں حزب اللہ کی کامیابی اور اسرائیلی شکست کے پیچھے بھی کمانڈر عماد ہی کی پالیسی کار فرما تھی-انہیں القاعدہ اور عراق میں امریکی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے ابو مصعب الزرقاوی کا بھی دوست سمجھاجاتا ہے -امریکی سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار کا کہنا ہے مغنیہ ایک دروازے سے داخل ہوتا او ردوسرے سے نکلتا، روزانہ گاڑی تبدیل کرتا، فون پر کسی سے ملاقات کا وقت طے نہیں کرتا، وہ ایک تیز اور شاطر دہشت گردتھا-
حزب اللہ کے ماہر ڈاکٹر میگنس کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے حزب اللہ ایک تنظیم کے طور پر ابھری، اسی طرح مغنیہ پس پردہ چلے گئے اور یہی ان کے تحفظ کی کامیاب ترین حکمت عملی تھی- امریکی اور اسرائیلی خفیہ اداروں کے پاس کمانڈر عماد کی تصویر بائیس سال پرانی ہے، جاسوسوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عماد نے سرجری کے ذریعے اپنے چہرے کا حلیہ بالکل تبدیل کر لیاتھا، جس سے ان کی شناخت نا ممکن ہو گئی تھی- ’’حزب اللہ کا دماغ‘‘ 12 فروری2008ء کو شام کے دارلحکومت دمشق کار بم حملے میں شہید کردیاگیا، کارروائی کی ذمہ داری موساد پر عائد کی گئی-