چهارشنبه 30/آوریل/2025

فرانس کا صدراور یہودیوں کی وکالت

ہفتہ 23-فروری-2008

فرانس کے صدر نکولس سرکوزی کے بارے میں یہ سوال اٹھایا جا رہاہے کہ کیا وہ صہیونی ہیں؟ ان کے عملی اقدامات سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ صہیونی ہیں ،گزشتہ ہفتے جناب سرکوزی کے حوالے سے یہ خبر آئی کہ جس نے بھی اسرائیل کو یہودی ریاست کے طور پر تسلیم نہ کیا وہ اس سے ہاتھ نہ ملائیں گے- اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ  پ نسل پرستی کو اس کی تمام تفصیلات سمیت قبول کریں، اس کا مطلب صرف یہ نکلتاہے کہ فرانس میں صرف کیتھولک آبادی کو رہنے کا حق حاصل ہے اور جو لوگ کیتھولک نہیں ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ کیتھولک بن جائیں یا فرانس چھوڑدیں، فرانس میں رہنا ہے تو کم تر بن کر رہیں-
سرکوزی نے حال ہی میں بیان دیاتھا کہ و جنوبی افریقہ میں ہونے والی نسلی امتیاز مخالف کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے اگر اس کانفرنس میں نسلی امتیاز کی بناء پر اسرائیل پر تنقید کی جانی ہے- جناب سارکوزی کو اس کا جواب فراہم کرنا چاہیے کہ ان کے خیال میں اسرائیل کی نسل پرستی کو دنیا والوں کو کس نگاہ سے دیکھناچاہیے- کیا فلسطینیوں کو نسلی امتیاز پر مبنی ان تمام اقدامات کو تسلیم کرلینا چاہیے جو اس نے ساٹھ برس قبل اپنے قیام کے روز سے لے کر  آج تک کئے ہیں، سرکوزی یہی کہیں گے کہ اسرائیل میں کوئی نسل پرستی نہیں ہے لیکن اس اعلان کا مطلب یہ ہوگاکہ وہ اسرائیل کی جانب سے کئے جانے والے نسل پرستی کے اقدامات سے  آگاہی نہیں رکھتے-
اخبارات کو دیکھ لیجئے فرانس کے ذرائع ابلاغ اور میڈیا چینلز کو دیکھ لیجئے، فرانس کا سفارتخانہ یقیناً اپنی حکومت کو اسرائیل کے اقدامات سے آگاہ رکھتاہوگا- دنیا کے کئی دانشور، قلم کار اور ادیب ، اسرائیلی مظالم پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرچکے ہیں ان میں اسرائیلی کابینہ (کنیسٹ) کے سابق سپیکر ابراہام برگ بھی شامل ہیں، انہوں نے گہری تفصیلات کے ذریعے یہ بتایا ہے کہ اسرائیلی مظالم کس قدر ہیں ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف فرانس کے صدر ،اسرائیل کی ساٹھویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کے لئے  آنے کے عزم کا اعلان کرچکے ہیں- فرانس کے صدر کا یہ اعلان ، نسل پرستی اور نسلی امتیاز کو قوت فراہم کرنے کے مترادف ہوگا- یہ تو ایسا ہی ہے کہ جرمنی میں نازیوں کے برسراقتدار  آنے کی خوشی منائی جائے –
نازی جرمن میں برسراقتدار گروپ کو یہ غلط فہمی تھی کہ وہ ’’ آقاقوم ‘‘ ہیں اور اسرائیل کے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ ’’منتخب قوم ‘‘ہیں- نازی جرمنی کو زعم تھاکہ ہمیں کامیاب رہنا چاہیے اور اسرائیل کا نظریہ یہ ہے کہ یہاں ایک مجبور قوم موجود ہے اور ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ اس کو دبا کر رکھیں- نازی جرمن کی طرح ،اسرائیلیوں کا نقطہ ء نظر یہ رہاہے کہ اپنا وطن ان کی ضرورت ہے اور انہیں یہ حق حاصل ہے کہ مقامی آ بادی کو کان پکڑ کر نکال باہر کریں،  آج کے اسرائیل کی حکومت کے اقدامات توریت کی تعلیمات کی نسبت ،جرمنی کے ہٹلر کے زیادہ قریب ہیں-

مختصر لنک:

کاپی