پنج شنبه 01/می/2025

غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے یورپی کمیشن کے سربراہ کا انٹرویو

جمعرات 21-فروری-2008

غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے، یورپ میں بڑے پیمانے پر بیداری پیدا ہوئی ہے- اسرائیل اپنے جرائم پر اب پردہ نہیں ڈال سکے گا- ان خیالات کا اظہار یورپی کمیشن کے سربراہ امین ابو راشد نے کیا جو زائرین کی خدمت میں پیش ہے-
سوال: غزہ کی ناکہ بندی کا کیا مطلب ہے؟
جواب: ہمارے کمیشن کے خیال میں غزہ کے خلاف ناکہ بندی رہائشیوں کو آہستہ آہستہ قتل کرنے، فلسطینیوں کے حقوق کی مسلسل خلاف ورزی اور ان کے باقی ماندہ لوازمات زندگی ختم کرنے کی کارروائی ہے- اسی لیے ہم نے غزہ کے خلاف ناکہ بندی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور مذمت کرتے ہیں- ناکہ بندی سے تشدد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے- یہ غیر انسانی، غیر اخلاقی پالیسی ہے جو کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے-
سوال: ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے آپ کیا پیغام دیں گے؟
جواب: یہ بات اب پوشیدہ نہیں رہی کہ ناکہ بندی کی پالیسی جاری رکھے جانے کے باعث ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں- روز کوئی نہ کوئی مریض موت کے منہ میں جارہا ہے- حالات انسانی حادثے کی طرف بڑھ رہے ہیں- اس لیے ہمارا پیغام ان بین الاقوامی خلاف ورزیوں سے تجاوز کرنا اور مداخلت نہ کرنا ناقابل قبول ہے- آزاد دنیا کو ہاتھ باندھے نہیں بیٹھنا چاہیے- ظالمانہ ناکہ بندی انسانی زندگی نے خلاف جارحیت ہے- یورپی یونین کو مداخلت کرنی چاہیے- اس کا مشرق وسطی میں اثر و رسوخ ہے- اسے فلسطینی عوام کو انصاف دلانے کے لیے اثر و رسوخ کا استعمال کرنا چاہیے- یورپی یونین کو چاہیے کہ وہ مداخلت کرتے ہوئے اسرائیل کو ظالمانہ کارروائیوں، فلسطینیوں کی نسل کشی اور غیر انسانی کارروائیوں سے روکے- ہم یورپی یونین کے اسرائیل نواز پالیسی کی مذمت کرتے ہیں-
سوال: آپ کی طرف سے کوئی خاص مطالبات اٹھائے جاتے ہیں؟
جواب: سابقہ مطالبوں کے علاوہ ہم غزہ کے خلاف ظالمانہ اور غیر انسانی ناکہ بندی ختم کیے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ فلسطینی عوام کو اجتماعی طور پر سزا دینے کے مترادف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، ہم غزہ کی سرحدیں کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ ان مصائب و آلام کا خاتمہ ہو جو سرحدیں بند کیے جانے کی وجہ سے فلسطینی عوام جھیل رہے ہیں- سرحدیں بند کیے جانے کے باعث مریضوں کے علاج میں مشکلات ہیں- خوراک، ادویات، ایندھن اور دیگر ضروریات زندگی کا بحران ہے-
سوال: رفح کراسنگ کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
جواب: ہم اپنی اپیلوں میں رفح کراسنگ کے کھولے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں- رفح کراسنگ فلسطینیوں کے لیے بیرونی دنیا سے رابطے کا واحد راستہ ہے- اس کے بند کرنے کا مطلب فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر سزا دینا ہے- لہذا رفح کراسنگ کی بندش پر خاموشی اور تساہل ممکن نہیں ہے- ہم تمام متعلقہ فریقوں بالخصوص مصری حکومت کو توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ رفح کراسنگ کا کھولا جانا بہت ضروری ہے کیونکہ رفح کراسنگ وہ واحد پھیپھڑا جس سے غزہ کے رہائشی سانس لیتے ہیں- مہینوں سے ہزاروں فلسطینی غزہ سے نکلے اور غزہ میں داخل ہونے کے ضرورت مند ہیں جن میں سینکڑوں بیمار اور ہزاروں طلبہ و طالبات ہیں-
سوال: غزہ میں عوامی کمیٹی آپ کو پکار رہی ہے- آپ نے ان کو کیا جواب دیا؟
جواب: عوامی کمیٹی کی کوششیں قابل قدر ہیں- وہ غزہ سے حقائق دنیا کو بتاتی ہے اور اس کی اپیلوں کا وسیع اثر ہے- کمیٹی نے 23 فروری کو غزہ کے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کا دن منانے کا اعلان کیا ہے- ہم ان کی اپیل میں شریک ہیں-
سوال: آپ کے یورپی یونین کے پارلیمنٹیرینز سرکاری اداروں اور افراد سے بھی رابطے ہیں- یورپی یونین کی سرکاری سطح پر آپ کمیشن کی کارکردگی کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: حکومتی ذمہ داران سے ملاقاتوں میں ہمارا پیغام واضح ہے کہ ناکہ بندی کی پالیسی میں یورپی یونین کی شرکت کو قبول نہیں کیا جائے گا- یورپی یونین کا علاقے میں اثر و رسوخ ہے، اس کے انسانی اور اخلاقی فرائض میں ابتدائی انسانی حقوق کے حوالے سے معاہدے ہیں- لہذا ان انسانی اور اخلاقی فرائض کے تقاضے کے مطابق ہم یورپی یونین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ظالمانہ ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے اسرائیل پر ہر قسم کا دبائو ڈالیں- ہمارا خیال ہے کہ یورپ ناکہ بندی کے خاتمے کی اہلیت رکھتا ہے- ہم یورپی یونین کے پارلیمنٹیرینز اور سرکاری شخصیات کی جانب سے ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے اظہار کیے جانے والے مؤقف کی قدر کرتے ہیں- اس طرح کام کی مزید ضرورت ہے-  غزہ کی ناکہ بندی کل تو شروع نہیں ہوئی بلکہ گزشتہ دو برس سے ہے جبکہ گزشتہ موسم گرما کی ابتدا سے غزہ کے خلاف ناکہ بندی میں شدید سختی کردی گئی- غزہ کے رہائشیوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا ہے-
ان غیر اخلاقی اور غیر انسانی سختیوں پر خاموشی غیر معقول ہے- ہم یورپی یونین کے اداروں تک فلسطینیوں کے خلاف جاری ظلم و تشدد کی داستان پہنچاتے ہیں اور جو اپنی ممالک کو حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں- ہم نے متنبہ کیا ہے کہ غزہ میں پندرہ لاکھ کی آبادی ہے اور غزہ کو ایک بڑی جیل بنادیا گیا- جہاں تک مریض اپنے علاج اور طلبہ پڑھائی کے لیے غزہ سے نہیں نکل سکتے- مزدور کام کے لیے نہیں جاسکتے- مختصراً ہم نے ضمیر جگانے کی کوشش کی ہے-
سوال: یہ تو سرکاری سطح پر تھا-عوامی سطح پر یورپین عوام کی طرف سے ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے کس قدر رسپونس ملا ہے؟
جواب: میں واضح کرتا ہوں کہ ناکہ بندی کے خلاف یورپ میں عوامی لہر چلی ہے- بڑے بڑے مظاہرے کیے گئے- یورپی یونین کے دفتر کے سامنے غزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے مظاہر کیا گیا- رفح سرحد کھلتے ہی یورپی ممالک کے انسانی حقوق کے اداروں کے نمائندے غزہ پہنچ گئے- یورپی ممالک کے مسلمانوں اور سوشل اداروں کے نمائندوں نے ناکہ بندی کے خلاف مطالبے میں شرکت کے جوش و جذبے کا اندازہ 23 جنوری کو انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے جاری کردہ بیان سے لگا سکتے ہیں جس میں کہا گیا کہ غزہ کی خلاف ناکہ بندی سیاسی، غیر اخلاقی اور غزہ کے رہائشیوں کی زندگی کے لیے دھمکی ہے-
سوال: غزہ کی صرف ناکہ بندی ہی نہیں کی گئی بلکہ حالیہ دنوں میں غزہ کے خلاف وسیع پیمانے پر حملے بھی جاری ہیں کیا ناکہ بندی ان حملوں کا ایک حصہ نہیں ہے؟
جواب: آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے- ہم جس قدر ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں اسی طرح ہمیں غزہ اور مغربی کنارے کے خلاف جاری حملے کے خطرات کا بھی ادراک ہے- ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے اور جنگی جرائم میں شریک افراد کو سز دے- ہمارے خیال میں غزہ کے خلاف ناکہ اس جامع جارحیت کا عنوان ہو جو اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہے-
سوال: آخری بات کیا کہیں گے؟
جواب: ہم آزادی، انصاف اور انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے تمام اداروں سے مطالبہ کریں گے کہ وہ فلسطینی شہریوں کے خلاف جاری ظالمانہ ناکہ بندی کے خلاف آواز بلند کریں- ظالمانہ ناکہ بندی کے خلاف آواز بلند کرنا اصحاب ضمیر کا انسانی اور اخلاقی فریضہ ہے- ہم صابر فلسطینی عوام کو بھی واضح کرتے ہیں کہ ناکہ بندی کا معاملہ یورپ میں ہمہ وقت ہماری نظروں میں رہے گا اور ہم ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے- کیونکہ یہ اصحاب ضمیر انصاف، آزادی اور اصولوں کے لیے کام کرنے والوں کا فریضہ ہے-

مختصر لنک:

کاپی