مصر کے وزیر خارجہ ابوالغیط نے فلسطین کے خلاف اسرائیل کے نازی طرز کے اقدامات اور مصر کے خلاف اسرائیلی اقدامات کی مذمت کرنے کی بجائے فلسطینیوں پر تنقید کی ہے اور کہاہے کہ ’’جو فلسطینی مصر کی سرحد کی خلاف ورزی کریں گے ان کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی ‘‘یہ جملے بلا شک و شبہہ ناقابل برداشت ہیں اور ایک طاقتور عرب ملک کے وزیرخارجہ کو یہ بیان نہیں دینا چاہیے تھا ، مصریوں اور فلسطینیوں کو ایک دوسرے کے بارے میں اس انداز میں بات نہیں کرنی چاہیے – اس قسم کے اختلافی بیانات ، صہیونیوں کے کانوں کو موسیقی محسوس ہوتے ہیں لیکن ان بیانات سے لاکھوں عربوں اور مسلمانوں کو شدید تکلیف پہنچی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ اسرائیل عرب اختلافات کی جگہ عربوں کے باہمی اختلافات کو خبروں میں نمایاں مقام حاصل ہو –
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ قحط جیسی حالت کا شکار پندرہ لاکھ فلسطینی ،مصر کی جغرافیائی وحدت کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہیں ،مصر کی آبادی ساڑھے سات کروڑ ہے اسے غزہ کے شہریوں سے کیا نقصان پہنچ سکتاہے – اصل خطرہ اسرائیل سے لاحق ہے ، جس کے لیڈر مصری حکومت کو بار بار دھمکی دے چکے ہیں – تمام فلسطینیوں کی طرح ، غزہ کے لوگ بھی مصری لوگوں سے محبت کرتے ہیں ، مصریوں اور فلسطینیوں کا ایک ماضی ، حال اور مستقبل ہے – ان کی امید ایک ہے ، ان کا دکھ درد ایک ہے اور ان کی منزل ایک ہے – مصر کی سیکورٹی فلسطینیوں کی سیکورٹی ہے اور فلسطینیوں کی آزادی ، مصر کے قومی اہداف میں شامل ہونا چاہیے – صحرائے سینا کی مشرقی پٹی میں پندرہ لاکھ عربوں کی موجودگی ، مصر کی سرحدوں کے دفاع کے مترادف ہے اور اس دفاع کو مستحکم تر ہونا چاہیے – بہت سے عرب اس اہم حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں – مصری وزیر خارجہ کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے مصر کے ذرائع ابلاغ میں ایک قسم کی فلسطین مخالف مہم کا آغاز ہوگیا ہے – مصر کسی خیالی یا کٹھ پتلی ریاست کا نام نہیں ہے اور اسے کسی صورت میں اسرائیل امریکہ کی کٹھ پتلی ریاست میں تبدیل نہیں ہوناچاہیے-
کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہتا کہ وہ مصر کی سرحدی حدود کو پامال کر کے مصر میں داخل ہو اگر مصری حکومت امریکہ کے زیر اثر نہ ہوتی تو اس کو عالم عرب کے جنوبی کوریا کی حیثیت حاصل ہوچکی ہوتی- لیکن دیکھنا چاہیے کہ اگر ایران یہ کرسکتا ہے تو مصر کیوں نہیں-
امریکہ کی طرف سے امداد وصول کرنے کی وجہ سے مصر اپنی صلاحیتوں سے محروم ہو رہا ہے- امریکہ ہی کی طرف دیکھتے رہنے کی وجہ سے مصر جوھری صلاحیت کو پروان نہ چڑھا سکا حالانکہ اسے اسرائیل کی طرف سے مستقل خطرہ لاحق ہے- آج کا اسرائیل وہی مستبدانہ اقدامات کررہا ہے کہ جو 1938ء کی جرمن حکومت کرلی تھی- مصری حکومت ہر برس امریکہ سے دو ارب ڈالر کی امداد قرض کے طور پر حاصل کرتی ہے لیکن اس کے بدلے اس کو قومی افتخار، آزادانہ فیصلے اور سر اٹھا کر چلنے کی روش سے دستبردار ہونا پڑتا ہے-
مصر ایک غریب ملک نہیں ہے- مصر کے پاس ایسی ذہنی صلاحیت رکھنے والے لوگ موجود ہیں کہ اگر انہیں آزاد روی سے کام کرنے کا موقع دے دیا جائے تو وہ مصر کا نصیب بدل دیں- لیکن ایسے ذہن لوگوں کا تعاون اسی وقت حاصل ہوگا کہ جب مصر میں جمہوریت موجود ہو- یہ بات درست ہے کہ اگر کوئی مصریوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کرے تو اسے وہ ناپسند کرتے ہیں اور ہمیں مصریوں کے اس حق سے کوئی اختلاف نہیں ہے- ہم لوگ مصر سے محبت کرتے ہیں اس لیے اس کا اظہار کررہے ہیں کہ جب مصریوں کو تنی ہوئی رسی پر چلنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو ہمیں یہ بات پسند نہیں آئی- مصریوں کے پہنچنے والے نقصان تو فلسطینی اپنا نقصان سمجھتے ہیں-
ابو الغیظ نے یہ کہا کہ ’’دوبارہ سرحد عبور کرنے والوں کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی تو ان کے اس بیان نے مصریوں کے سرجھکا دیے ہیں- ابو الغیظ کو سوچنا چاہیے کہ وہ جن افراد کی ٹانگیں توڑ دینے کا اعلان کررہے ہیں وہ تو ان کے اپنے بھائی بند اور رشتہ دار ہیں، کیا کوئی شخص اپنے خاندان اور اپنے اہل خانہ اور عزیز و اقارت کے ساتھ یہ سلوک کرتا ہے؟ کیا بڑے بڑے بھائی چھوٹے بھائیوں کی ٹانگیں توڑتے ہیں؟ کیا ابو الغیظ کو عرب شاعر کا یہ شعر یاد نہیں ہے کہ ’’اپنے عزیزوں کا ایک جملہ دشمنوں کی تلوار سے زیادہ کاٹتا ہے‘‘ اس بات کو بہرحال نہیں بھولنا چاہیے کہ مصر اسرائیل عدم موافقت کا فائدہ صرف اسرائیل کو پہنچے گا-
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارا اصل دشمن کون ہے؟ یہ اسرائیل ہے کہ جو ہمارے وجود ہی کے مخالف ہے- یہ اسرائیل ہے جس نے بھوک پیس سے بلکتے ہوئے بچوں کے والدین کو مجبور کیا کہ وہ مصر کے اندر جا کر دال چاول اور کھانے پینے کی اشیاء حاصل کرسکیں- مصر کے صدر حسنی مبارک نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا- یہ بات آخر احمد الغیظ کو سمجھ کیوں نہیں آتی؟
