چهارشنبه 30/آوریل/2025

رفح راہداری کا وارث کون ؟

ہفتہ 2-فروری-2008

فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین محمود عباس نے حماس کے اس مطالبے کو رد کردیا ہے کہ فلسطینی اور مصری انتظامیہ کو رفح راہداری کے انتظامات منتقل کئے جائیں‘ محمود عباس نے کہاکہ ہم نئی شرائط قبول نہ کریں گے- حماس کے لئے ضروری ہے کہ رفح راہداری کے بارے میں حماس کے مطالبوں کو نہ مانا جائے اگر حماس کو عوام کی پرواہ ہے تو اسے عوام کے مفاد کا بھی خیال رکھنا چاہیے-
رفح راہداری کے بارے میں پرانے معاہدے کے ذریعے اسرائیل کو حق مل جاتاہے کہ وہ انتظامات سنبھالے‘ وہی اسرائیل جس کی کوشش ہے کہ پندرہ لاکھ فلسطینیوں کو قحط میں مبتلا کرکے موت کے حوالے کردے- اس کو یہ معاملہ بھی سونپ دیا جائے کہ راہداری کو کب کھولا جائے اور کب بند کیاجائے- ہزاروں فلسطینی شہری طالب علم ‘ حاجی اور مسافر رفح کی مصری طرف کئی ماہ تک رکے رہے اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ایک اسرائیلی افسر چاہتاتھاکہ اتنی بڑی تعداد میں سرحد پر موجود فلسطینیوں کو سزا دی جاسکے‘ محمود عباس جس موقف کی حمایت کررہے ہیں‘ اس کی بدولت ہی درجنوں فلسطینی صحرا میں موت کا شکار ہوئے گویا کہ وہ انسان نہیں جانور تھے-
موجودہ حالات کا سامنا کرتے رہے ہیں‘ ان کی تفصیلات پڑھتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسرائیل راہداری کو سال کے دروان طویل عرصے تک بند رکھتاتھا- محمود عباس جس معاہدے کی حمایت کررہے ہیں‘ اس کی ایک شق یہ بھی ہے کہ رفح راہداری کو یورپی یونین کے مبصروں کی موجودگی میں کھولا جائے گا-  لیکن یورپی یونین کے مبصرین میں جوافراد شامل ہیں‘ ان کی اکثریت یورپی ممالک کی رہنے والی ہے اور اس کا امکان ہے کہ وہ اسرائیلی انٹیلی جنس کے لئے کام کرتے ہوں اور وہ لوگ کرم شالوم کی اسرائیلی نو آبادی میں رہتے ہیں جوکہ سرحدی علاقے سے کچھ فاصلے پر ہے- اس معاہدے کے مطابق وہ سرحد تک آزادی کے ساتھ اس وقت تک آجا نہیں سکتے کہ جب تک وہ اسرائیلی فوج سے قبل ازوقت اجازت نامہ‘ روزانہ حاصل نہ کریں-
اسرائیلی فوج کے لئے ممکن ہے کہ وہ کرم شالوم سے سرحد تک علاقے کو فوجی علاقہ قرار دے دے تاکہ کوئی بھی وہاں سے آجا نہ سکے- اس علاقے کو بند رکھنے کے لئے اسرائیلی فوج نئے نئے بہانے تراش سکتی ہے- سب لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اسرائیلی فوج جوپابندیاں عائد کرتی ہے اس کا اصل نشانہ صرف اور صرف فلسطینی ہوتے ہیں- یہ ایک یا دو یا دس دن کی بات نہیں ہے بلکہ یہ روز مرہ کا معمول ہے اور یہ راہداری مہینے میں 25 دن یا 26 دن بلکہ 29 دن بھی بند رہتی ہے اور اس سے فلسطینیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے- رفح کی راہداری اسرائیل کے حوالے کرنا فلسطینیوں کے لئے ذلت ‘حقارت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے-

مختصر لنک:

کاپی