چهارشنبه 30/آوریل/2025

اسرائیل: یہودی ضمیر کے لیے سرطان

جمعہ 1-فروری-2008

یوکرائن کے آزاد کسانوں کو سوشلزم کا مطیع بنانے کے لیے سوویت ڈکٹیٹر جوزف سٹالن نے ریڈ آرمی کو حکم دیا تھا کہ یوکرائن کو ساری دنیا سے کاٹ ڈالا جائے- تمام راستے بند کردیے گئے- تمام سرحدیں بند کردی گئیں- کسی بھی چیز کو شہر میں آنے یا باہر جانے کی اجازت نہ تھی- کسانوں کی تلاشی لی جاتی، ان کی خوراک اور دیگر ضروری اشیاء چھین لی جائیں- آہستہ آہستہ بھوک، سردی اور بیماری سے یوکرائن کے رہنے والے آہستہ آہستہ مرنا شروع ہوگئے-
33-1932ء کے سالوں میں سردی اپنے عروج کو پہنچ گئی، سٹالن کے یہودی مددگار لازرکسگانووچ جیسے اجتماعی قتل کرنے کی شہرت حاصل ہے، کویوکرائن بھیجا گیا تاکہ لاکھوں کسانوں، متوسط طبقہ کے تاجروں اور دانشوروں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے عمل کی نگرانی کرسکے- اس وقت تک تاریخ میں انسانوں کے پیدا کردہ بدترین قحط میں اہل یوکرائن مجبور ہوگئے کہ وہ پالتو جانور کتے، جوتے، درختوں کی چھال، جڑیں اور چمڑے کی بلٹیں کھا جائیں- یہ خبریں بھی آئیں کہ کچھ مقامات پر والدین شیر خوار بچوں کو کھا گئے-
غزہ میں جو حالات ہیں وہ یوکرائن کے تاریخی قحط جیسے نہیں ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ غزہ کو جو صورتحال درپیش ہے وہ ہر لمحے خراب ہو رہی ہے اور اگر دنیا نے اسرائیل کی لیڈر شپ کو ان اقدامات سے نہ روکا تو غزہ میں بھی یوکرائن جیسی صورتحال پیدا ہو جائے گی-
ایہود باراک اور ایہود اولمرٹ اور اسرائیل کا برسر اقتدار طبقہ کوشش کررہے ہیں کہ کسگانووچ اور گین رچ گریگور وچ یاگودا کے طریقے پر چلیں- گریگوروچ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے اجتماعی قتل عام میں سوویت یونین میں ہٹلر سے زیادہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا-
لیکن کسگانووچ اور ریاگودہ نے نسل کشی کی جو مہمات چلائی تھیں ان کو چھپایا نہیں- اسرائیل نے پندرہ لاکھ محاصرہ زدہ فلسطینیوں کے خلاف جو مہم چلا رکھی ہے ان کے بارے میں ایہود اولمرٹ صاف صاف جھوٹ بولتے ہیں- اس کا یہ کہنا کہ غزہ کی پٹی میں انسانی المیہ رونما نہ ہونے دیا جائے گا- ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی بدکار عورت اپنے پاک دامن ہونے کا اعلان کرے- اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ اسرائیل غزہ میں آہستہ رو قتل عام چلا رہا ہے غزہ کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ یہ سارا علاقہ آسمان کے نیچے کھلے قید خانے کا منظر پیش کررہا ہے-
انروا کے کمشنر جنرل کیرن ابو زید کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کا جس طرح محاصرہ کیا ہے اس کی کہیں اور مثال نہیں چلتی- ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے بے دست و پا کر دیا گیا ہے- فلسطینیوں کی اکثریت نہ غزہ میں داخل ہوسکتی ہے نہ باہر جاسکتی ہے- ایندھن اور سپئیر پارٹس اور ادویات کی عدم دستیابی کے ساتھ ساتھ پینے کا پانی کم ہو رہا ہے- بجلی کی فراہمی جو کم تھی اب بالکل ختم ہو رہی ہے- یونیسف کی رپورٹ ہے کہ چھ لاکھ لوگوں پر پمپنگ سٹیشن کے کام نہ کرنے کی وجہ سے اثرات مرتب ہو رہے ہیں- ہسپتالوں میں برقی رو دستیاب نہ ہونے کے سبب جنریٹر کام کرنا چھوڑ چکے ہیں اور مریضوں کے آپریشن نہیں ہو پارہے- ضروری آلات اور فاضل پرزہ جات کی کمی کی وجہ سے مشینری کام نہیں کررہی- سیمنٹ اس قدر کم ہو چکی ہے کہ لوگ مردوں کے لیے قبریں تیار نہیں کرپارہے- مردوں کو کفن پہنانے کی بجائے چادروں میں لپیٹا جارہا ہے- ابو زید ایک باہمت خاتون ہے- انہوں نے عالمی برادری کو غزہ کے المیے سے متعارف کرانے کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کی ہے تاکہ غزہ میں کسی قسم کا حادثہ رونما نہ ہوسکے- غزہ کے تمام مسائل کا سبب یہ ہے کہ اس کا محاصرہ کیا گیا ہے- یہ محاصرہ ان یہودیوں نے کیا ہے کہ جو صبح شام ہٹلر کے مظالم کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے- 23 جنوری کو ہزاروں غزہ کے شہری مصر کی سرحد پر جمع ہوگئے یہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسرائیل کی مجوزہ دیوار رفح کے مصری اور اسرائیل حصوں کو الگ کرتی ہے-
’’ون ٹی وی سٹیشن‘‘ نے اس منظر کو یوں بیان کیا یوں لگتا تھا کہ یہ دنیا کی جیلوں میں قیدیوں کا سب سے بڑا فرار تھا- عورتیں، مرد اور بچے پیدل، کاروں اور گدھا گاڑیوں پر خوراک خریدنے اور ضروریات اشیاء حاصل کرنے کے لیے امڈ پڑے- اس کو دیکھ کر اندازہ لگانا آسان تھا کہ غزہ کے رہنے والے کسی قدر ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کررہے ہیں- صرف جارج بش کو اس پر حیرت ہوئی- جب آپ پندرہ لاکھ انسانوں کو قید جیسے حالات میں مبتلا کردیں گے ان کی خوراک بند کردیں گے- ان کی بجلی بند کردیں گے اور پھر اعلان کریں گے کہ ’’غزہ میں انسانی المیہ نہ رونماء ہونے دیا جائے گا-‘‘
غزہ اور مصر کے درمیان سرحدی دیوار کو جب گرایا جارہا تھا اس وقت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے فلسطینی اور ان کے ہمدرد ان میں وہ باضمیر یہودی بھی شامل ہیں کہ جو آزادی اور انصاف کی حمایت کرتے ہیں اور وہ غزہ کی صورتحال پر اسرائیلی حکومت کے بدترین اقدامات کی مخالفت کرتے رہے ہیں نے کوئی چیز عجیب و غریب محسوس نہیں کی-
اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے کہ جس پر بدترین لوگ حکمرانی کررہے ہیں- یہ لوگ اخلاقیات اور انسانیت کی کوئی قدر نہیں کرتے- یہ ریاست کبھی بھی سکون سے نہ بیٹھے گی اور نہ ہی فلسطینیوں کو سکون سے کسی مقام پر بیٹھنے دے گی- باراک اور اولمرٹ اس قدر شیطانی صفت ہیں کہ وہ غزہ کے بچوں کے چہرے پر کھلنے والی کوئی مسکراہٹ برداشت نہیں کرسکتے- یہ بالکل ممکن ہے کہ ایہود باراک جو بدفطرتی میں اڈولف ہٹلر اور ظلم و جبر میں جوزف سٹالن کے ہم پلہ ہے فلسطینیوں کے قتل عام کے لیے نئی مہم کا آغاز کردے کہ غزہ کے بے بس لوگوں کو تشدد اور قحط کا نشانہ بناسکتے- اسرائیل صرف یہ چاہتا ہے کہ جس طرح فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہو اتار دے اور اس دوران یہ بھی چاہتا ہے کہ عالمی ضمیر بھی سویا رہے-

مختصر لنک:

کاپی