فلسطین کی آزادی تک مزاحمت جاری رہے گی، بش کے دورے اسرائیل نے اسرائیلی حکومت کو فلسطینی عوام کے خلاف کارروائیوں میں شدت پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کی- بین الاقوامی برادری اسرائیلی جرائم پر خاموش ہے- غزہ کے خلاف ناکہ بندی کے ذمہ دارواشنگٹن اور تل ابیب ہیں ناکہ بندی کے خاتمے کے لئے ہمارے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ مزاحمت کا راستہ ہے- مصر کو رفح کراسنگ کھولنی چاہیے- ان خیالات کااظہار محاذ برائے آزادئ فلسطین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ابو نضال نے مرکز اطلاعات فلسطین کو انٹرویومیں کیا- زائرین کی دلچسپی کے لئے انٹرویو کامتن پیش خدمت ہے –
سوال: غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت اور ناکہ بندی کو آپ کیسے دیکھتے ہیں ؟
جواب: غزہ میں فلسطینی عوام کو اس وقت بدترین جارحیت اور دہشت گردی کاسامناہے -قابض اسرائیلی افواج دنیا کے سامنے فلسطینی عوام کا قتل عام کررہی ہیں- پوری فلسطینی عوام دشمن کی آگ کی زد میں ہے- مزید برآں اسرائیلی حکومت نے غزہ کی تمام کراسنگز بند کردی ہیں-
ضروریات زندگی کی ترسیل بند ہوگئی- غذا اور دوائیوں کا بحران ہے- بجلی کاٹ دی گئی ہے ، شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے- گلیوں میں روشنی ، اسرائیلی بموں کے پھٹنے سے ہوتی ہے- اس صورت حال پر عرب ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں- مذمتی بیانات جاری کئے جانے کے سوا کوئی عملی اقدام نہیں کیا- یہ بات صحیح ہے کہ اسرائیلی جارحیت کبھی نہیں رکی لیکن حالیہ جارحیت اور ناکہ بندی بحران کی شکل اختیار کرگئی ہے -حادثہ پیش آسکتا ہے- گزشتہ دنوں میں اسرائیلی طیاروں نے غزہ پر بمباری کی جس کے نتیجے میں انسانوں کے جسم چورا چورا ہوگئے- قتل و غارت گری اور بمباری کی کارروائیاں روزانہ کی جا رہی ہیں- رواں ماہ کے ابتداء سے اب تک متعدد بچوں سمیت ایک سو سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں-اب غذا اور دوائیوں کے بحران سے ہزاروں فلسطینیوں کی زندگیوں کوخطرہ ہے- ان تمام مشکلات اور بحرانوں کے باوجود مزاحمت جاری رہے گی-
اسرائیل کامقصد فلسطینیوں کے حوصلوں کو پست کرنااور ان کے ارادوں کو متزلزل کرناہے- لیکن وہ اپنی سازش میں کامیاب نہیں ہوگا- فلسطینی عوام نے متعدد بحرانوں کاسامنا کیا ہے- وہ اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرتے آ رہے ہیں- فلسطینی عوام نے ہر دفعہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوں گے –
سوال: غزہ کے خلاف ناکہ بندی اور جارحیت کے لئے اسرائیل نے کس کا سہارا لیا ہے ؟
جواب: اسرائیلی حکومت نے کئی ماہ قبل غزہ کو دشمن ریاست قرار دینے کااعلان کیاتھا- اس کے بعد سے غزہ میں داخلے اور ناکہ بندی کی دھمکیاں جاری ہیں- یہ سب کچھ امریکہ کے زیر انتظام انا پولیس امن کانفرنس کے انعقاد سے پہلے ہوا- انا پولیس کانفرنس کے انعقاد سے اسرائیل نے اپنے جرائم پر پردہ ڈال دیا ہے- اناپولیس کانفرنس میں عرب ممالک کی شرکت کے بعد اسرائیلی افواج نے قتل و غارت گری کی کارروائیوں میں اضافہ کردیا- صدر بش کے دورہ مشرق وسطی کے دوران ان کا فقید المثال استقبال کیاگیا- ہمارے خیال میں بش کے دورہ مقبوضہ فلسطین نے اسرائیلی حکومت کو فلسطینی عوام کے خلاف جارحیت ناکہ بندی کا تحفظ فراہم بھی کیابلکہ ایہود اولمرٹ کی حکومت کو کارروائیوں میں شدت پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کی- اس میں کوئی شک نہیں کہ جارحیت کے اسرائیلی حکومت کو حوصلہ افزائی کی ضرورت نہیں بلکہ امریکی پردے کی ضرورت ہے –
سوال: آپ کے خیال میں کیا موجودہ فلسطینی حالات نے اسرائیل کی حوصلہ افزائی نہیں کی ؟
جواب:اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینی صدر محمود عباس کی جانب سے اسرائیل سے مذاکرات جاری رکھنے اور جارحیت کے خلاف متفقہ منصوبہ بندی نہ ہونے سے اسرائیلی افواج کو فلسطینی عوام کی بیخ کنی کرنے کی کھلی چھٹی ملی- امریکی صدر نے دورہ اسرائیل کے موقع پر یہودی ریاست کی بات کی اور فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کو تسلیم نہ کرنے کی بات کی –
فلسطینی انتشار کاشکار ہیں- یہ وہ عوامل ہیں جن کے باعث اسرائیل اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے-ایک اور اہم وجہ یہ ہے جس سے اسرائیل کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے وہ اسلامی ممالک اور بین الاقوامی خاموشی ہے- بین الاقوامی برادری اسرائیلی جرائم پر خاموش ہے- میں بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتاہوں کہ وہ جارحیت کو رکوانے کے لئے اسرائیل پر دباؤ ڈالیں –
سوال: غزہ میں جو کچھ ہو رہاہے اس میں فلسطینی اتھارٹی کا کیا کردار ہے ؟
جواب: فلسطینی اتھارٹی اور عرب ممالک کی جانب سے مذمتی بیانات جاری کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہورہا ہے- اس موقع پر فلسطینی اتھارٹی کو اسرائیل سے فوری طور پر مذاکرات روک دینے چاہیں- ہمارے عوام قبضے کی چکی میں پس رہے ہیں، اہم کام ہر ذریعے سے قبضے کا خاتمہ ہے، قبضے کے خاتمے کے لئے جدوجہد جاری رکھنا ہوگی –
سوال: غزہ پر اگر ناکہ بندی جاری رہی تو آپ کے خیال میں اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
جواب: ہم متنبہ کرتے ہیں غزہ کے خلاف ناکہ بندی جاری رکھنے سے انسانی حادثہ پیش آسکتا ہے جس کے ذمہ دار امریکہ اور اسرائیل ہوں گے- عرب ممالک بھی حادثے کے ذمہ دار ہوں گے جنہوں نے غزہ کو بچانے کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے-
سوال: ایسے حالات میں فلسطینیوں کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: سب سے پہلے ناکہ بندی کے خاتمے اور جارحیت روکنے کے لیے فوری حرکت میں آنا ہوگا- فلسطینی قومی مذاکرات ضروری ہیں- مذاکرات میں جب اس بات کو سامنے رکھا جائے گا کہ مسئلہ فلسطین خطرے میں ہے، فلسطینیوں کے آپس کے اختلافات کم ہو جائیں گے- مسئلہ فلسطین کے دفاع اور اپنے حقوق کی حفاظت کے ثابت قدم رہنا ہوگا-
جارحیت اور ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے تمام ذرائع بروئے کار لائے جائیں اور سب سے بڑا ذریعہ اور ہتھیار مزاحمت ہے- ہمارے سامنے مزاحمت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے- بالخصوص جب کہ عرب ممالک اور بین الاقوامی برادری خاموش ہیں-
سوال: اسرائیلی ناکہ بندی اور جارحیت کے خلاف عرب ممالک کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: ہم عرب لیگ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو روکنے اور ناکہ بندی کو توڑنے کی خاطر ضروری اقدامات اٹھانے کے لیے کم از کم وزراء خارجہ کی سطح پر فوری اجلاس طلب کریں- تمام اسلامی تنظیموں کو بھی حرکت میں آنا چاہیے- سب سے اہم مطالبہ غزہ کے پڑوسی ملک مصر سے ہے کہ وہ رفح کی کراسنگ کھولے تاکہ فلسطینی عوام کے غذا، ادویہ، ضروریات زندگی اور بجلی کا انتظام ہوسکے- یہ مصر کی تاریخی ذمہ دار بھی ہے- میں اس موقع پر یہ بھی کہوں گا کہ عرب ممالک کو چاہیے کہ وہ ایسا انتظام کریں کہ غزہ میں بجلی کی فراہمی کے لیے اسرائیل پر انحصار نہ کرنا پڑے-
