اسرائیلی اٹارنی جنرل نے 2007ء میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں غرب اردن اور فلسطین کے دیگر علاقوں میں بے گناہ فلسطینیوں کے قتل کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے-
اسرائیلی اخبار ’’ہارٹز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ کمیٹی قتل کی ان وارداتوں کے حقائق جاننے کی کوشش کرے گی جو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوئے- رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی غرب اردن کے 35 بچوں اور خواتین کے قتل کے اسباب اور فوجی حملوں کی وجوہات اور فوج کی وحشیانہ فائرنگ کے اسباب بھی معلوم کرے گی- یہ کمیٹی مزید ذیلی تحقیقاتی کمیٹیوں پر مشتمل ہوگی- اس کے علاوہ انسانی حقوق تنظیموں کے تعاون سے فوج کے جنگی جرائم کو بے نقاب کرنے میں مدد لی جائے گی-
حال ہی میں اٹارنی جنرل اھارون باراک نے تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ فوج کی وحشیانہ فائرنگ اور بے گناہ شہریوں پر حملوں سے دنیا میں اسرائیل کو تنقید کا سامنا ہے- لہذا فوج کے جرائم کی تحقیقات ناگزیر ہیں تاکہ عالمی برادری میں اسرائیل کی ساکھ بہتر بنائی جاسکے- واضح رہے کہ اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کئی ادارے حکومت سے فوج کے جنگی جرائم کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کرچکے ہیں-
اسرائیلی اخبار ’’ہارٹز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ کمیٹی قتل کی ان وارداتوں کے حقائق جاننے کی کوشش کرے گی جو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوئے- رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی غرب اردن کے 35 بچوں اور خواتین کے قتل کے اسباب اور فوجی حملوں کی وجوہات اور فوج کی وحشیانہ فائرنگ کے اسباب بھی معلوم کرے گی- یہ کمیٹی مزید ذیلی تحقیقاتی کمیٹیوں پر مشتمل ہوگی- اس کے علاوہ انسانی حقوق تنظیموں کے تعاون سے فوج کے جنگی جرائم کو بے نقاب کرنے میں مدد لی جائے گی-
حال ہی میں اٹارنی جنرل اھارون باراک نے تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ فوج کی وحشیانہ فائرنگ اور بے گناہ شہریوں پر حملوں سے دنیا میں اسرائیل کو تنقید کا سامنا ہے- لہذا فوج کے جرائم کی تحقیقات ناگزیر ہیں تاکہ عالمی برادری میں اسرائیل کی ساکھ بہتر بنائی جاسکے- واضح رہے کہ اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کئی ادارے حکومت سے فوج کے جنگی جرائم کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کرچکے ہیں-