مقبوضہ بیت المقدس کے وسط میں جبل مکبر کے علاقے کو شہر مقدس کے ’’صرف یہودیوں کے لئے ‘‘ علاقے کی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے – واشنگٹن ٹائمز نے 15جنوری کی اشاعت میں تحریر کیا ہے کہ نئی تعمیرات کرنے والی کمپنی ڈیجیٹل انویسٹمنٹ کے چیف ایگزیکٹو کا کہناہے کہ اس علاقے سے شہرداؤد، جبل زیتون، مغربی دیوار اور دیگرمقامات کا نظاہرہ بآسانی کیاجاسکتاہے-
نئی یہودی بستی ’’نظاہرہ صہیون‘‘ سے مسجد اقصی اور کلیسائے مسیح کا بآسانی نظارہ کیاجاسکتاہے- اس منصوبے کے پہلے مرحلے کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے، امریکہ میں رہنے والے امیر یہودیوں نے اس منصوبے میں رقم لگائی ہے اور اس کی چابیاں جلدہی ان کے حوالے کردی جائیں گی، اس یہودی علاقے میں داخلے کے لئے ایک مرکزی دروازے کے علاوہ، ایک یہودی معبد، ایک ہوٹل، عوامی پارک اور ایک کلب شامل ہیں- اخبار کی رپورٹ کے مطابق جب اس کی تعمیر مکمل ہوگی تو چارسو رہائشی یونٹ وجود میں آ جائیں گے-
اسرائیل نے 1967ء کی مشرق وسطی جنگ میں غزہ پر قبضہ کیاتھا، بعد میں اسرائیل نے اس شہر کاالحاق کرلیا لیکن عالمی برادری نے اسے تسلیم نہیں کیاتھا-
بیت المقدس شہر اب غرب اور یہودی حصوں میں تقسیم ہے- عرب علاقوں میں شوفات، بیت ھنیہ، السوانا، جبل مکبر، راس العمود اور ابو طور کا نچلا حصہ شامل ہے -گزشتہ سالوں میں اسرائیل اس کی بھرپور کوشش کرتارہاہے کہ اس شہر کو یہودی شہر میں تبدیل کردے- اس کے لئے یہودی بستیاں تعمیر کی جاتی ہیں اور مسجد اقصی کے قرب وجوار میں کھدائی کی جاتی ہے- ماہرین آثار قدیمہ کاکہناہے کہ کھدائیوں کی وجہ سے مسجد اقصی کو نقصان پہنچ سکتاہے کہ جو مسلمانوں کے نزدیک سب سے مقدس مقام ہے- روزنامہ ’’ہارٹس‘‘کی رپورٹ کے مطابق القدس کے ایک اور علاقے میں اسرائیل نے ساٹھ نئے رہائشی یونٹ تعمیر کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے اس میں شاٹھ مکانات تعمیر ہوں گے-
روزنامے کی اطلاع کے مطابق یہ بستی ، راس العمود کے علاقے معاملے ہازنزم میں تعمیر کی جائے گی- اس بستی کو 1997ء میں تعمیر کیاگیاتھا، امریکی حکومت کی طرف سے اس وقت وزیراعظم نتین یاہو پر دباؤ ڈالا گیاتھا اور ایہوداولمرٹ اس وقت بیت المقدس کے مئیر تھے- اس یہودی بستی میں اکاون یہودی خاندان رہائش پذیرہیں- اسرائیلی قانون دان ڈینی سیڈمین نے واشنگٹن ٹائمز کو بتایا کہ القدس میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر اور پہلے سے موجود بستیوں کو وسعت دینے کے ذریعے اسرائیلی حکومت چاہتی ہے کہ القدس کو مغربی کنارے سے کاٹ دیا جائے اور اس پر اسرائیل کے کنٹرول میں اضافہ کردیا جائے- مغربی کنارے میں متنازعہ دیوار کی تعمیر کے ذریعے بھی القدس کو الگ تھلگ کیا جا رہاہے-
فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے واشنگٹن ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے آرکیٹیکٹ عفرت کوہن بار نے کہاکہ القدس کو الگ تھلگ کرنے میں دیوار کا اہم کردارہے، یاد رہے کہ حال ہی میں امریکی صدر جارج بش مشرق وسطی کا دورہ کرکے گئے ہیں، ان کی بھرپور کوشش ہے کہ جنوری2009ء میں ان کی مدت کے خاتمے سے قبل ہی مسئلہ فلسطین کا حل نکل آئے- اس سب کے باوجود اسرائیل نے تعمیرات کا سلسلہ بند نہیں کیا-
نئی یہودی بستی ’’نظاہرہ صہیون‘‘ سے مسجد اقصی اور کلیسائے مسیح کا بآسانی نظارہ کیاجاسکتاہے- اس منصوبے کے پہلے مرحلے کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے، امریکہ میں رہنے والے امیر یہودیوں نے اس منصوبے میں رقم لگائی ہے اور اس کی چابیاں جلدہی ان کے حوالے کردی جائیں گی، اس یہودی علاقے میں داخلے کے لئے ایک مرکزی دروازے کے علاوہ، ایک یہودی معبد، ایک ہوٹل، عوامی پارک اور ایک کلب شامل ہیں- اخبار کی رپورٹ کے مطابق جب اس کی تعمیر مکمل ہوگی تو چارسو رہائشی یونٹ وجود میں آ جائیں گے-
اسرائیل نے 1967ء کی مشرق وسطی جنگ میں غزہ پر قبضہ کیاتھا، بعد میں اسرائیل نے اس شہر کاالحاق کرلیا لیکن عالمی برادری نے اسے تسلیم نہیں کیاتھا-
بیت المقدس شہر اب غرب اور یہودی حصوں میں تقسیم ہے- عرب علاقوں میں شوفات، بیت ھنیہ، السوانا، جبل مکبر، راس العمود اور ابو طور کا نچلا حصہ شامل ہے -گزشتہ سالوں میں اسرائیل اس کی بھرپور کوشش کرتارہاہے کہ اس شہر کو یہودی شہر میں تبدیل کردے- اس کے لئے یہودی بستیاں تعمیر کی جاتی ہیں اور مسجد اقصی کے قرب وجوار میں کھدائی کی جاتی ہے- ماہرین آثار قدیمہ کاکہناہے کہ کھدائیوں کی وجہ سے مسجد اقصی کو نقصان پہنچ سکتاہے کہ جو مسلمانوں کے نزدیک سب سے مقدس مقام ہے- روزنامہ ’’ہارٹس‘‘کی رپورٹ کے مطابق القدس کے ایک اور علاقے میں اسرائیل نے ساٹھ نئے رہائشی یونٹ تعمیر کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے اس میں شاٹھ مکانات تعمیر ہوں گے-
روزنامے کی اطلاع کے مطابق یہ بستی ، راس العمود کے علاقے معاملے ہازنزم میں تعمیر کی جائے گی- اس بستی کو 1997ء میں تعمیر کیاگیاتھا، امریکی حکومت کی طرف سے اس وقت وزیراعظم نتین یاہو پر دباؤ ڈالا گیاتھا اور ایہوداولمرٹ اس وقت بیت المقدس کے مئیر تھے- اس یہودی بستی میں اکاون یہودی خاندان رہائش پذیرہیں- اسرائیلی قانون دان ڈینی سیڈمین نے واشنگٹن ٹائمز کو بتایا کہ القدس میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر اور پہلے سے موجود بستیوں کو وسعت دینے کے ذریعے اسرائیلی حکومت چاہتی ہے کہ القدس کو مغربی کنارے سے کاٹ دیا جائے اور اس پر اسرائیل کے کنٹرول میں اضافہ کردیا جائے- مغربی کنارے میں متنازعہ دیوار کی تعمیر کے ذریعے بھی القدس کو الگ تھلگ کیا جا رہاہے-
فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے واشنگٹن ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے آرکیٹیکٹ عفرت کوہن بار نے کہاکہ القدس کو الگ تھلگ کرنے میں دیوار کا اہم کردارہے، یاد رہے کہ حال ہی میں امریکی صدر جارج بش مشرق وسطی کا دورہ کرکے گئے ہیں، ان کی بھرپور کوشش ہے کہ جنوری2009ء میں ان کی مدت کے خاتمے سے قبل ہی مسئلہ فلسطین کا حل نکل آئے- اس سب کے باوجود اسرائیل نے تعمیرات کا سلسلہ بند نہیں کیا-