چهارشنبه 30/آوریل/2025

رام اللہ کی حکومت کب ہوش کے ناخن لے گی ؟

بدھ 9-جنوری-2008

رام اللہ میں فتح کی قیادت کا خیال تھا کہ امریکہ و اسرائیل کی جانب سے حماس کے خلاف یلغار اور غزہ کی پٹی کے خلاف نازی طرز کی حصار بندی کے سبب ان کی تنظیم کو فائدہ ہوگا اور فلسطینیوں کے درمیان ان کو زیادہ پذیرائی ملے گی لیکن ایسا نہ ہوسکا ، اس غلط سوچ کی بدولت فتح تنظیم نے مغربی کنارے میں حماس کو کمزور کرنے بلکہ بخیے ادھیڑنے کے لئے ہر وہ قدم اٹھایا جو وہ اٹھا سکتی تھی اور یہ سب کچھ اس لئے کیاگیا تاکہ اسرائیل ’’رام اللہ‘‘ حکومت کو برابر کا شریک سمجھے اور اسے احترام کا مقام دے-
اس ناممکن کام کو ممکن بنانے کے لئے فتح و ملیشیا اور فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی ایجنسیوں نے کئی بار اسرائیلی فوج کے تعاون سے حماس سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگوں کو تشدد کانشانہ بنایا ،ذلیل وخوار کیا ، گرفتار کیا اور ان کا جرم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ حماس سے ہمدردی رکھتے تھے ،دیگر آزاد سوچ رکھنے والے فلسطینی جنہوں نے اسرائیل کی تابعداری اور امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے ) نے جھکنے سے انکار کردیا ،ان کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا-
حقیقت یہ ہے کہ کئی ایک فلسطینی ظالمانہ طور پر شہید کردیئے گئے تاکہ اسرائیلیوں اور امریکیوں کے سامنے یہ ثابت کیا جاسکے کہ عباس فیاض حکومت سخت گیر ہے اور اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ امن مذاکرات کو آگے بڑھا سکتی مگر یہ قیام امن سے زیادہ دروغ گوئی اور دھوکہ دہی کا سلسلہ محسوس ہوتاہے – علاوہ ازیں رام اللہ میں قائم حکومت نے حماس سے تعلق رکھنے والے اداروں اور ان خیراتی انجمنوں پر پابندی عائد کردی ہے جن پر ہزاروں خاندان سالہا سال سے روزمرہ کی گزر اوقات کے لئے انحصار کرتے تھے – اسی طرح فلسطینی اتھارٹی کے سیکورٹی اداروں اور سیاسی نمائندوں نے فلسطینی عوام کے خلاف جعل سازی ، دھوکہ دہی اور بد عنوانی کا ہر حربہ صرف اس لئے استعمال کیا ہے تاکہ اسرائیل کی رضا مندی حاصل کی جاسکے اور اسرائیل کی قربت حاصل کی جاسکے – اس قسم کے افسوسناک اقدامات کا احاطہ کرنے کے لئے ایک یا دو مضامین کافی نہیں ہیں لیکن ہر فلسطینی مرد اور عورت اس سے آگاہ ہے کہ اسرائیلی قابض حکومت فلسطینی اتھارٹی کو شیشے میں اتارنے کے بعد اس کو رسوا ضرورکرے گی-
اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو اچھے چال چلن کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا نہ ہی فلسطینی اتھارٹی کو یہ موقعہ دیا کہ وہ فلسطینی علاقوں میں اقتدار کا مزہ لو ٹ سکے – اس کے برعکس اسرائیل نے یہ ثابت کردیا کہ اس کے مستقل اتحادی بھی نہیں ہیں اور مستقل چیلے چانٹے بھی نہیں ہیں لیکن اس کے مستقل مفادات ہیں-
اس ہفتے ، ہزاروں اسرائلی فوجی دستوں نے مسلح فوجی گاڑیوں کے ہمراہ شمالی مغربی کنارے کے شہر نابلس پر حملہ کردیا اور شہر کے دو لاکھ باشندوں کو ہراساں بھی کیا اور زدوکوب بھی ، اور یہ اقدامات فلسطینیوں کو خوار کرنے کے لئے کئے گئے –
فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے نابلس کو بارہا ’’آزاد شدہ شہر‘‘قرار دیا جاتارہاہے ، فلسطینی اتھارٹی یہ سمجھنے میں ناکام ہوچکی ہے کہ فلسطینیوں کی قومی سلامتی اور خودمختاری اور اسرائیلی تسلط کسی حالت میں بھی بیک وقت برقرار نہیں رہ سکتے – یاسرعرفات کے دور میں بھی یہی کچھ ہوتا رہاہے – محمود عباس کی قیادت آج امریکہ کو زیادہ قبول ہے آج بھی حقیقی معنوں میں اسرائیلی فوج کی غیر معمولی اختیار حاصل ہے -وہی فاش غلطیاں بار بار دہرائی جا رہی ہیں ،رام اللہ حکومت کے ترجمان اور ان کے باتونی ترجمان تباہ حال فلسطینی عوام کو یہ بتا رہے ہیں کہ نازی طرز کی اسرائیلی حکومت سے آزادی کی منزل قریب ہی آپہنچی ہے –
نابلس میں قتل و غارت گری کا بازار تاحال گرم ہے، اگرچہ شہر میں امریکی اسلحے سے مسلح فلسطینی سیکورٹی اہل کار موجود ہیں ، جو فیاض حکومت کے سامنے جوابدہ ہیں ، مقامی ذرائع کا کہناہے کہ جب اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کے سیکورٹی اہلکا روں کو اطلاع دی کہ اسرائلی فوج 3 جنوری کو نابلس پر حملہ کرے گی ، فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی فورس کو ہدایت جاری کردی گئی کہ وہ اپنے سیکورٹی محکمہ کی عمارتوں میں ٹھہریں گے ، اپنے دروازے بند رکھیں گے، نیزاپنی یونیفارم اور اپنے اسلحہ کے ساتھ بازاروں میں ہونے معاملے میں مداخلت نہ کریں گے –
کسی نے بھی ان قابل رحم نوجوانوں سے یہ نہیں کہاکہ وہ اسرائیلی فوج کے دہشت گردوں کو چیلنج کرکے اپنے لئے خودکشی کا سامان مہیا کریں ، لیکن فلسطینی اتھارٹی اور رام اللہ میں موجود ان کی قیادت کو اپنے سیکورٹی محکمے کو ختم کرنے کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے- جس کے قیام کا مقصد صرف یہ رہ گیا ہے کہ فلسطینی لوگوں اور آزادی کی جنگ لڑنے والے فلسطینیوں کو ہراساں کرے ، ان کو جو ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں ، ان کامعاملہ تو درکنار رہا-
نابلس میں ہونے والے واقعے پر ردعمل کااظہار کرتے ہوئے ،رام اللہ حکومت اس شش و پنج میں مبتلا ہے کہ نابلس میں جبرو تشدد ، لوٹ کھسوٹ اور مارکٹائی کا جو بازار گرم ہے ، اس کو کیا نام دیا جائے ، بلاشک و شبہ اس قتل عام کی ذمہ داری انہیں لوگوں پر عائد ہوتی ہے کہ جو چند روز قبل محمود عباس اور سلام فیاض سے مغربی بیت المقدس میں معانقوں کا تبادلہ کررہے تھے – فلسطینی اتھارٹی کے ایک عہدیدار کا بیان اسرائیلی اخبار ’’ہارٹز ‘‘نے شائع کیا ہے جس میں اسرائیل پر الزام عائد کیاگیا ہے کہ وہ نقشہ راہ پر عمل درآمد سے پہلو تہی کررہاہے –
مایوسی پر مبنی اسی قسم کے الفاظ سلام فیاض نے کہے جس نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ فلسطین کے داخلی سلامتی کے منصوبے کو تباہ کرنا چاہتاہے – محمود عباس اور سلام فیاض بے انتہا غلطی پر ہوں گے اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی ٹینکوں کے سائے میں آزاد فلسطینی ریاست خود مختاری سے کام کرسکے گی – انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسرائیلی تسلط میں قائم ہونے والی ہر حکومت خوشامدی اور بغل بچہ حکومت ہوگی جس کے پاس اس کے علاوہ کوئی ہتھیار نہ ہوگا کہ اپنی سرزمین پر مسلط لوگوں کے احکامات بے چون و چراں تسلیم کریں ، اس کا کوئی فرق نہیں پڑتاکہ اگر قابض حکومت نازی جرمنی کی ہو یا اسرائیل کی ہو-
اسرائیل کے ساتھ ’’خیر سگالی ‘‘ کے اظہار کے لئے سلام فیاض کو جو احکامات جاری کئے گئے وہ اس نے پورے پورے سرانجام دیئے اور اس کا انعام یہ ہے کہ نابلس میں اسرائیل نے فوج کشی کردی ہے – غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جبرو تشدد اور نابلس میں خون بہا اور قتل عام ،نیز مغربی کنارے کے نزدیک نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے لیڈروں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اسرائیل کی متعابقت اور تابعداری کا کیانتیجہ نکلا ہے کیونکہ اسرائیل کا رویہ نازی جرمنی کے رویوں جیسا ہی ہے –
وقت آچکاہے کہ وہ اپنے آپ کو دھوکہ کھانے سے مزید بچائیں کیونکہ وہ جس قدر اسرائیلیوں کے احکامات پر عمل کرکے دھوکہ کھائیں گے اسی قدر ان کی آزادی کی منزل دورہوجاتی جائے گی-

مختصر لنک:

کاپی