چهارشنبه 30/آوریل/2025

اسرائیل میں نازی طرز کے جرائم

منگل 8-جنوری-2008

اسرئیل کی موجودہ حکومت کا ساراانحصار قتل وغارت ، دورغ گوئی اور لوٹ مار پر ہے، ایک روز بھی ایسانہیں گزرتا کہ جب اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے خلاف ظالمانہ نسل پرستی پر مبنی اقدامات میں ملوث نہ ہوتی ہو- چند روز قبل اسرائیلی فوجی جو بیت حنون سرحد کراسنگ ( ایریزچیک پوائنٹ ) پر مامور ہیں، نے مکہ سے واپس  نے والے تھکے ماندے حاجیوں پر فائرنگ شروع کردی- ایک عورت فوری طور پر شہید ہوگئی، پانچ افراد زخمی ہوگئے جبکہ ایک فرد شدید زخمی ہوا-
اس واقعے کے بعد اسرائیلی فوج نے اس واقعے کے بارے میں چار جھوٹے بیانات جاری کئے، اسرائیلی فوج کے ترجمان نے پہلے یہ بیان دیا کہ اسرائیلی افواج کو اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے اور ہم اس کی تحقیق کررہے ہیں- دوگھنٹے بعد ، ایک اور ترجمان نے کہاکہ اس کا امکان موجود ہے کہ فلسطینی عورت کو کسی دوسرے فلسطینی گولی مار کر شہید کیا ہو اور یہ عورت اسرائیلی فائرنگ سے شہید نہیں ہوئی ہو-
اس قتل کے بارے میں تیسرا بیان اسرائیلی ریڈیوسے نشر ہوا اور ایک فوجی ترجمان نے کہاکہ ہماری فوج اور فلسطینی دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں غزہ کے رہنے والے ہلاک ہوگئے- اسی شام ، ایک تفصیلی بیان جاری کیاگیا کہ فوجیوں کی زندگی کو خطرہ تھا اور انہیں فلسطینی ہجوم پر فائرکھولنا پڑا-
سچی بات یہ ہے کہ کہیں بھی فلسطینیوں کے درمیان فائرنگ ہوئی نہ ہی اس علاقے میں اسرائیلی اور فلسطینی دستوں کے درمیان فائرنگ کاتبادلہ ہوا نہ ہی اسرائیلی فوجیوں کی جان کو اس علاقے میں خدشہ لاحق ہواتھا- مغرب میں رہنے والے لوگ یہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ بارڈر کراسنگ سے گزرنے والے بے دست و پا شہری کس طرح فوجیوں کا نشانہ بنتے ہیں، انسانی حقوق کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بے دردی سے ہونے والا قتل تمام اصولوں اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہے- یہی وجہ ہے کہ مغرب میں رہنے والے کئی لوگ جو مغربی ذرائع ابلاغ سے اطلاعات وصول کرتے رہیں وہ ایسے قاتلانہ واقعات کی اسرائیلی توجیہہ تسلیم کریں گے کیونکہ وہ اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے کہ اسرائیلی یہودی جو ماضی میں نازیوں کے جبر وتشدد کانشانہ رہے ہیں وہ گلی محلے کے غنڈوں اور پیشہ ور قاتلوں کا روپ بھی دھار سکتے ہیں- میں عرصہ دراز سے سوچ رہاہوں کہ اس رویے کاعقلی و منطقی سبب تلاش کرسکوں لیکن مجھے اس کا تسلی بخش جواب نہیں ملا ہے –
میرے غور و فکر کانتیجہ یہ نکلا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں جن اسرائیلی فوجیو ں کو تعینات کیاگیاہے ان کو نفسیاتی و ذہنی طور پر اس قدر مفلو ج کردیاگیا ہے کہ وہ کبھی کبھار یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے خلاف نازیوں نے نہیں فلسطینیوں نے مظالم کئے ہیں –
اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ ہر فلسطینی مرد، عورت اور بچہ ان کو نازی نظر آتا ہے جسے قتل کردیا جائے، زخمی کردیا جائے، معذور بنادیا جائے، اسے ذلیل کیا جائے اور اس سے حقارت سے پیش آیا جائے-
اس سے مراد یہ ہے کہ یہ ’’یہود دشمنی الٹ بیماری‘‘ ہے جس کی وجہ سے یہودی فوجی کم از کم ذہنی طور پر اپنے سابقہ تشدد کنندگان سے اسی طرز عمل سے پیش آتے ہیں، جس سے وہ ان سے پیش آتے رہے ہیں- کئی اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کو (نازی گستایو اور ایس ایس کی یہودیوں کے بارے میں رائے کی طرح) کمتر انسان، کیڑے، حشرات اور گندے جانور سمجھتے ہیں جن کے وجود سے دنیا کو پاک کردینا چاہیے- اس میں اختلافات پایا جاتا ہے تاہم یہ اختلاف سٹائل میں ہے- میٹریل کے بارے میں نہیں- بلاشک و شبہ مغربی ممالک کے رہنے والے قارئین، سامعین اور ناظرین کو یہ موقع نہیں ملتا کہ اسرائیلیوں سے ان کی اپنی زبان میں سنیں کہ فلسطینی کیڑے مکوڑے ہیں اور ان کو جان سے ماردینا اعلی ترین نیکی ہے- فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی جو سلوک کرتے ہیں کہ اپنی پیدائش سے وفات تک اسرائیلی یہودی جس قسم کے نسلی پروپیگنڈے کے زہر کو اپنے اندر اتار کے رہتے ہیں، اس کے نتیجے میں اسرائیلی کے تصورات میں یہ چیز جم کر بیٹھ جاتی ہے کہ فلسطینیوں کو بے حدو حساب ذلیل و خوار کیا جائے- اس کی وجہ سے اسرائیلی بآسانی فلسطینیوں کو جان سے ماردیتے ہیں اور انہیں قتل کرنے کے بعد بھی کسی قسم کی تکلیف، دکھ، رنج اور ملال کا احساس بھی نہیں ہوتا-
ایک ایسی قوم کے خلاف جرائم جو ہر لحاظ سے بے کس بے بس ہے اور تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، ایک معمول ہیں- گزشتہ ہفتے اسرائیلی فوجیوں نے رام اللہ کے مضافات میں فلسطینیوں کے ایک گروپ پر فائرنگ شروع کردی جو سیر کے لیے اپنے اہل حانہ کے ہمراہ وہاں آئے تھے-
سیر کرنے والوں میں سے ایک شخص کے معدے میں گولی لگی اور اس کو وسیع پیمانے پر اندرونی طور پر خون کے بہنے کا سامنا کرنا پڑا- اس شخص کا رام اللہ کے ہسپتال میں پانچ گھنٹے بعد انتقال ہوگیا- اس کی ایک بیوی، دو اور آٹھ سال کی دو بیٹیاں ہمیشہ کے لیے باپ کے سایے سے محروم ہوگئیں-
انتہائی افسوس ناک رویہ اختیار کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے الٹا فلسطینیوں پر الزام عائد کردیا کہ وہ پراسرار حرکتوں میں ملوث پائے گئے اور ان کے ہاتھوں میں مشتبہ اشیاء موجود تھیں- ان کا اشارہ ان کے ہاتھوں میں جانے والے کھانے کے ڈبوں کی طرف تھا- یہ سمجھنا آسان ہے کہ اسرائیلی فوجی تسلط میں پیپسی کولا کا ڈبہ فلسطینیوں کی جان لینے کا باعث بن سکتا ہے بشرطیکہ آپ پکنک منارہے ہوں اور اردگرد اسرائیلی موجود ہوں-
شمال امریکہ میں پائے جانے والے اسرائیل نواز اور یہود نواز گروپ ایسی خبروں پر توجہ کیوں دیتے ہیں جن کے ذریعے امریکہ کی مسیحی آبادی کو فلسطینیوں کے خلاف کردیا جاتا ہے جن کے بارے میں وہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ فلسطینی بچے بھی یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں- کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جن بچوں کے باپوں کو یہودیوں نے قتل کیا ہے وہ یہودیوں سے محبت کریں گے کہ کیا وہ اسرائیلی فوجیوں کے اس الزام کو قبول کرلیں گے کہ ان کے باپ اور دیگر شہید ہو جانے والوں کے اعزا و اقارب مشتبہ اور مشکوک سرگرمیوں میں مشغول تھے اسی لیے مار ڈالے گئے-
ایسے سوالات کے جوابات دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اسرائیلی نسل درنسل یہی سمجھتے چلےآرہے ہیں کہ سب سے اچھا فلسطینی وہ ہے کہ جسے مار دیا جائے نیز یہ کہ اسرائیل فلسطینیوں کو جان سے پہلے ماریں اور ہلاک بعد میں کریں کیا یہ صہیونیت کے علمبردار شیطانیت کے علمبردار نہیں ہیں؟
اسرائیل کے لیے دلیلیں تلاش کرنے والے اور پروپیگنڈہ کرنے والے وہ لوگ جو یورپ اور شمالی امریکہ میں ہیں، ان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اسرائیل کو ایسی ریاست بنا کر پیش کریں کہ جو ایک جمہوری ریاست ہے اور جہاں قانون کی عمل داری رہتی ہے- سچی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل کو جمہوری ملک قرار دینا روز روشن میں جھوٹ بولنے اور لفظ کی عصمت دری کے مترادف ہے- جمہوری ملک اور جمہوری لوگ معصوم لوگوں کو سرد مہری سے قتل کرنے کے بعد یہ دعوی نہیں کرتے کہ ان لوگوں کو اس لیے مار دیا گیا کیونکہ ان کی حرکات و سکنات مشتبہ تھیں- اسرائیل نے یہ کام ایک یا دو بار نہیں سینکڑوں بار کیا ہے اور یہ کام وہ ریاست کے وجود میں آنے کے روز سے کررہا ہے-
اسرائیل نسل پرستی سے جو فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں ان پر اس دنیا میں کوئی تعزیت یا اظہار افسوس بھی نہیں کرتا کیونکہ دنیا کے پیمانے دہرے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مالی و اقتصادی مفادات بھی لاحق ہیں- اگر غزہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد جن کے بچے چند میٹر کے فاصلے پر ان کا انتظار کررہے تھے، کی بجائے برطانوی یا امریکی شہری ہوتے تو کیا فوری طور پر تحقیقاتی کمیشن مقرر نہ کردیا جاتا اور ساری دنیا میں اس پر واویلا نہ برپا کردیا جاتا- یہ واضح ہے کہ یہ فلسطینی ایک ایسے خدا کی اولاد ہیں کہ جس کا اپنا درجہ کم تر ہے- جن کی زندگیوں کی قیمت نہیں ہے- جن کا خون انتہائی سستا ہے- بالکل اس طرح کہ جس طرح ساٹھ برس قبل یہودیوں کے ساتھ کیا گیا تھا- 1938ء کے جرمنی اور 2007ء کے اسرائیل میں کوئی فرق نہیں ہے-

مختصر لنک:

کاپی