وہ دن قریب آرہے ہیں کہ جب بیرونی اشاروں پر رقص کرنے والی عرب حکومتیں حماس کے بارے میں اپنے موقف پر اظہار افسوس کریں گی –
اسرائیل اور اس کے سرپرست اعلی امریکہ نے عرب حکومتوں کے ہمراہ یہ اندازہ لگایا کہ غزہ کی پٹی کے پندرہ لاکھ نفوس کا وحشیانہ محاصرہ کر کے حماس کو تابعداری پر مجبور کردے گا اور بہت سے فلسطینی اس تحریک سے لا تعلقی کا اظہار کردیں گے – لیکن کئی سالوں میں جمع ہونے والے شواہد سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ حماس کے کمزور ہونے سے القاعدہ مضبوط ہوجائے گی ، بطور تنظیم بھی اور بطور نظریہ بھی غزہ کے باسیوں کے خلاف بے انتہاتشدد جاری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ امن مذاکرات بھی جاری ہیں – مزید رہائشی بستیاں تعمیر کررہاہے اور اس کا نتیجہ اس کے علاوہ کیانکلے گا کہ القاعدہ مضبوط ہوجائے – حال ہی میں اسامہ بن لادن کے اس بیان کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کہ القاعدہ فلسطین میں اپنی کاروائیوں میں تیز ی لائے گی –
بن لادن جو کچھ کہہ رہاہے اس سے خوب آگاہ ہے – فلسطین کے قابل اعتماد ذرائع کے مطابق القاعدہ نے سینکڑوں رضا کاروں کو اپنی صفوں میں جگہ دے دی ہے ، ان میں سے کئی ایک حماس اور فتح کے مخلصین کارکنان رہے ہیں- غزہ کے ایک صحافی نے القاعدہ کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ یہ ’’مسلسل لوگوں کے دل اور دماغ جیت رہی ہے ‘‘القاعدہ ان لوگوں کو بتا رہی ہے کہ نجات کا اس دنیا اور اگلے جہاں میں ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ القاعدہ کے اختیار کردہ راستے کو اختیار کیا جائے نیز یہ حماس نے مغربی ممالک کی جانب سے جمہوریت کو مان کر شدید غلطی کی اور اپنی اس غلطی کی بناء پر اسے شدید سزا بھگتنا پڑ رہی ہے – غزہ میں عوام الناس جن حالات کا سامنا کررہے ہیں وہ القاعدہ کی نشوو نما کے لئے کافی ہیں – چند ہفتے قبل میں نے فلسطین کے سیاسی تجزیہ نگار حانی المصری سے سوال کیا کہ کیا حماس کے کمزور ہونے سے فتح کو فائدہ ملے گی ، ان کا جواب دلچسپ تھا –
مصری کا کہناتھا کہ جلد ہی فلسطینی سرزمین ریڈیکل تنظیموں کی آماجگاہ بن جائے گی چونکہ کئی فلسطینی مذہبی تنظیمیں ، چاہے وہ مذہبی ہوں یا سیاسی ، محسوس کرتی ہیں کہ سیاسی پروگرام میں ملوث ہونے کی وجہ سے کسی نقصان کا احتمال نہیں ہے، حماس سے الگ ہونے اور حماس کے کمزور ہونے سے تباہ کن نتائج مرتب ہوں گے ، سینکڑوں نہیں ہزاروں افراد حماس سے القاعدہ میں منتقل ہوجائیں گے –
نابلس کی نجا ح یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس کے پروفیسر عبدالستار قاسم کاکہناہے کہ حماس سے جولوگ الگ ہوں گے ، وہ فتح اس سے ملتی جلتی تنظیموں میں شمولیت اختیار کریں گے – ان کا کہناہے کہ مٹھی بھر لوگ فتح میں شمولت کرسکیں گے لیکن اکثریت فتح میں نہیں جائیگی لیکن فتح کے طور طریقے انہیں پسند نہیں ہیں – یہ لوگ مذہبی ہیں اور مذہبی طورطریقے میں رچے بسے ہیں اس لئے ان کے لئے مشکل ہوگا کہ وہ فتح میں شمولیت اختیار کریں اور اپنے مذہبی طورطریقے بھی برقرار رکھیں – القاعدہ ہی ان کے لئے فطری پناہ گاہ ہوگی –
اسرائیل ،مغربی ممالک اور کئی عرب حکومتیں یہ خیال کرتی ہیں کہ حماس کے گھر کو تباہ کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین محمود عباس کو یہ موقعہ فراہم کردیا جائے کہ اسرائیل کے اقتدار کو تسلیم کرلیا جائے اور اسرائیل کو کسی سمت سے بھی اختلاف کا خدشہ نہ ہو ، تاہم یہ خیال کرنا گمراہ ہوگا – آج فلسطینی معاشرہ بدترین غم و غصے کا شکار ہے اور آج بھی وہی حالات میں کہ جو سال 2000ء میں تھے اور جب اقصی انتفاضہ کا آغاز ہوا تھا ، حقیقت میں فلسطینی معاشرے میں غالب تر رائے یہی ہے کہ بہت جلد ایک نئی بیدار ی کی تحری کا آغاز ہو رہاہے-جما ہوا غصہ کسی بھی وقت لاوے کی طرح پھٹ سکتاہے – محسوس ہوتاہے کہ فلسطینی صبر اپنی انتہا تک پہنچ چکاہے -تاہم انتفاضہ کی سابقہ تحریکوں کے برعکس انتفاضہ جدید کی صورت میں ایک ایسے گروپ کے منظر عام پر آنے کے امکانات ہیں کہ جو قدامت پرست نہ ہو،مثلاً القاعدہ تنظیم ہے جو مرنے مارنے میں یقین رکھتی ہے اور بے انتہا ریڈیکل جذبات ہی جس کی شناخت میں مختصر الفاظ میں القاعدہ کی موجودگی ، اسرائیل کے لئے غیر معمولی قد ر و قیمت کی حامل ہوگی ، خصوصاً ذرائع ابلاغ کے حوالے سے صہیونی ریاست کو ایک اور موقع مل جائے گا کہ وہ مزید سخت اقدامات کریں-
ممکن ہے اسرائیل ، القاعدہ کی موجودگی کو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں اپنے پائوں مضبوط کرنے میں استعمال کرے لیکن طویل دورانیے کے منظر میں اسرائیل کو نقصان اٹھانا پڑے گا – اسرائیل جس طریقے سے حماس کے خلاف کارروائیاں کرتارہاہے ایسی کارروائیاں القاعدہ کے خلاف نہ کرسکے گا – القاعدہ رائے عامہ اور گلی محلے کے لوگوں کی رائے کا زیادہ احترام نہیں کرتی اور اس کو اپنے شہری ڈھانچے کے تباہ ہونے کا خدشہ بھی نہ ہوگا کیونکہ اس کا کوئی شہری ڈھانچہ موجود ہی نہیں ہے –
القاعدہ کے ارکین قانون ساز کونسل بھی نہیں ہیں نہ اس کے خیراتی ادارے ہیں جن کو اسرائیلی حکومت بند کردے- القاعدہ ایک خفیہ اور پر اسرار تنظیم ہے اور وہ حماس کی نسبت اسرائیلی مظالم پر زیادہ ردعمل ظاہر کرے گی- یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتی ہے اور اسرائیل کے ساتھ جھڑپوں میں سرخ لکیروں کو پار کرنے میں کوئی تردد محسوس کرے گی اس کا مطلب یہ ہے کہ القاعدہ زیادہ جی دار اور زیادہ آزادی سے اسرائیل کے شہری ٹھکانوں کو نشانہ بنائے گی اور خود کش حملہ آوروں کو استعمال کرے گی –
چند فلسطینی لیڈروں کا کہناہے کہ اگر مقبوضہ فلسطین میں القاعدہ کو جڑیں پختہ کرنے کا موقعہ مل جائے تو نہ صرف اسرائیل کو اور اسرائیلیوں کو نشانہ بنائے گی بلکہ حماس کے لوگوں کو نشانہ بنانے میں بھی کوئی پریشانی محسوس نہ کرے گی – حماس کے راہنما نے مجھ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ القاعدہ ایک ایسی تنظیم ہے کہ جو دشمن کو مٹا دینے میں دلچسپی رکھتی ہے اور وہ کھلم کھلا مقابلے میں دلچسپی رکھتی ہے اور وہ قیامت کے دن تک اس راستے پر چلے گی – القاعدہ ان تمام لوگوں کو جو اس سے اختلاف رکھتے ہیں دشمن سمجھتی ہے ایسے دشمن جن کو فوری طور پر ختم کردینا چاہیے ، بالکل ممکن ہے کہ جو لوگ القاعدہ سے اختلاف کریں ، القاعدہ ان کو دبانے کے لئے اور ان کے دلوں میں دہشت بٹھانے کے لئے فلسطینی شہروں میں کار بم نصب کرنے سے بھی دریغ نہ کرے گی –
اردن میں فلسطینیوں کی بڑی تعداد موجود ہے – اس کو بھی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں القاعدہ کی تعداد بڑھنے سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا – کئی ایک فلسطینی جو دریائے اردن کے اس پار ، اپنے بھائیوں کو اسرائیل، امریکہ اور امریکہ کے کاسہ لیس امریکی حکومتوں کی موجوددگی میں فناہوتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہیں گے – اس لئے ممکن ہے کہ بم باری اور دہشت گردی کے دیگر واقعات سے ممکن ہے کہ اردن کی موجودہ سیاسی صورت حال بھی منفی ہوجائے –
مصر پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے اور پختہ عزم رکھنے والے القاعدہ کے کارکنان کو کوئی بھی نہ روک سکے گا کہ وہ مصری اقتصادیات یعنی مصری ذرائع ابلاغ کو نشانہ نہ بنائیں-یہ منظر نامہ مستقبل کی تباہی کی طرف اشارے کررہاہے – جو لوگ مستقبل نولیسی کرنا چاہتے ہیں وہ دیوار پر لکھی ہوئی تحریر پڑھ لیں – اس ہفتے فلسطینیوں کی اجتماعی مایوسی اپنے عروج کو پہنچ گئی جب ہزاروں فلسطینی حاجی جو مکہ سے واپس آ رہے تھے انہوں نے سعودی عرب میں حج ادا کیا تھا ، ان کو مصری بندر گاہ نویب میں محصور کردیا گیاہے-مصری انتظامیہ انہیں ابھی تک اس بات کی اجازت نہیں دے رہی ہے کہ وہ غزہ ، رفح کراسنگ کے ذریعے واپس جاسکیں – حاجی اس چیز سے انکارکررہے ہیں کہ وہ اسرائیلی کنٹرولڈ کراسنگ سے گزریں ، انہیں تشدد اور گرفتاری کاخدشہ ہے اور اس کا بھی خدشہ ہے کہ حماس سے دیرینہ تعلق کی بناء پر انہیں طویل دورانیے کی سزائیں ملیں – اسی اثناء میں اسرائیل نے فلسطینیوں کے قتل کا سلسلہ اور نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جبکہ فلسطینی اتھارٹی کے قائدین بے بسی سے اس سارے منظر کو دیکھ رہے ہیں – انہیں معلوم نہیں ہے کہ کیا کیا جائے ، ان کو ایک ہی راستہ سوجھتا ہے کہ کنڈولیزا رائس سے التجا کریں کہ اناپولیس کی روح کا احترا م کریں ، اب جان لینا چاہیے کہ کون فلسطینیو ں کو القاعدہ میں دھکیل رہاہے –
