ایران سے چالیس سے زیادہ افراد یہودی ایجنسی (jeihAec) تنظیم کے تعاون سے منگل کے روز اسرائیل پہنچ گئے- یہ افراد ایک نامعلوم تیسرے ملک کے ذریعے اسرائیل پہنچے ہیں- اس گروپ میں دس خاندان شامل ہیں- تین افراد الگ سے آئے ہیں- اس گروپ کو جنوبی اسرائیل میں بھیجا جائے گا تاکہ ان کو مقامی آبادی میں جذب کیا جاسکے- جے اے ایف آئی تنظیم کا کہنا ہے کہ سال 2007ء میں دو سو سے زائد ایرانی اسرائیل میں آکر سکونت اختیار کر چکے ہیں- ایران سے آنے والے ساسن زرگری نے اسرائیل پہنچنے کے بعد اپنی بہن سے پندرہ سال بعد ملاقات کی ہے- وائی نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے ساسن نے بتایا کہ خاندان کو یکجا دیکھنے کے لیے ہم نے طویل عرصہ انتظار کیا ہے- میری بہن پہلی بار میری بیٹیوں سے ملاقات کرے گی-
زرگری کے والدین ابھی تک ایران میں ہیں اور اسے امید ہے کہ وہ بھی جلد ہی اسرائیل پہنچ جائیں گے کیونکہ وہ بچوں کے بغیر اداس ہو جاتے ہیں- ایران میں وہ اچھی زندگی گزار رہے ہیں- ایرانی حکومت ان کی حفاظت کرتی ہے- مجھے خدشہ ہے کہ وہ اسرائیل میں ایڈجسٹ نہ ہوسکیں گے- ارئیل نے بتایا کہ جب اس نے چھ برس قبل اسرائیل آنے کا فیصلہ کیا تو اسے شدید مشکل پیش آئی تھی ریاست کی امداد کافی نہیں ہے ہم چاہتے تھے کہ ہمارے والدین بھی ہمارے ساتھ رہیں لیکن ہمیں بتایا گیا کہ انہیں بیرشبہ بھیجا جائے گا- وہ عبرانی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے اس لیے خدشہ ہے کہ وہ وہاں پریشانی محسوس کریں گے-
گروپ کے ڈائریکٹر ربی یے خیل ایک سٹائن نے کہا کہ میرے نزدیک ایران کے پچیس ہزار یہودیوں کو ایران کی سخت گیر حکومت سے شدید خطرہ لاحق ہے- ایران کے سخت گیر صدر احمدی نژاد نے کئی بار اسرائیل کو تباہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور جرمنی میں یہودیوں کی ہلاکت ’’ھولوکاسٹ‘‘ کو وہ جھوٹی کہانی قرار دیتے ہیں-
ایک سٹائن کا کہنا ہے کہ ایران میں رہنے والے یہودیوں کا خیال ہے کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا- لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ ان کی صورتحال ایسی ہی ہے جیسی کہ یہودیوں کی 1930ء کے عشرے میں جرمنی میں تھی- جب وہ خطرناک صورتحال کا سامنا کریں گے- اس وقت معاملہ بہت آگے بڑھ چکا ہوگا-
