اسرائیل میں بسنے والے عربوں کے خلاف نسلی تعصب میں بے انتہا اضافہ ہو چکا ہے- اسرائیلی حکومت بھی نسل پرستی کے جذبات کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی چلی آرہی ہے-
روزنامہ ’’ہارٹز‘‘ کے مطابق اسرائیل کی انجمن برائے شہری حقوق (اے سی آر آئی) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ اسرائیلی معاشرہ نسلی امتیاز کی نئی انتہاؤں کو چھو رہا ہے جس سے آزادئ اظہار اور نجی زندگی تباہ و برباد ہو کر رہ گئے ہیں- انجمن کے صدر سامی مائیکل نے اس رپورٹ کی اشاعت کے موقع پر کہا کہ نسلی تعصب کے بے انتہاء عروج پانے کے بعد اسرائیل کے مشرق وسطی میں واحد جمہوریت کے فاش دعوے کی نفی ہو چکی ہے- ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی معاشرے میں جمہوریت کا اعلان کرنے والی حکومت کے ادارے مسلسل تباہ ہو رہے ہیں- اس مملکت کے وسط میں جو لوگ رہتے ہیں ان کو خصوصی حقوق ملے ہوئے ہیں اور جو مضافات میں رہتے ہیں وہ اس سے بالکل محروم ہیں-
انجمن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2006ء میں اسرائیلی عربوں کے خلاف نسلی تعصب کے واقعات میں 26 فیصد اضافہ ہوا، جو یہودی کھلے عام عربوں کے خلاف نسلی تعصب کا اظہار کرتے ہیں ان کی تعداد دوگنا ہو چکی ہے- رپورٹ کے مطابق اسرائیلی نوجوانوں کی دو تہائی تعداد کا اس پر مکمل یقین ہے – عرب کند ذہن، غیر مہذب اور متشدد ہوتے ہیں- اسرائیلی نوجوانوں کی ایک تہائی تعداد عربوں سے خوفزدہ رہتی ہے-
مارچ میں اس انجمن نے ایک رائے عامہ کا سروے کرایاجس سے معلوم ہوا کہ پچاس فیصد عرب اس عمارت میں رہنا پسند نہیں کرتے جس میں عرب بھی رہتے ہوں- وہ عربوں کو دوست نہیں بناتے نہ ہی یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے بچے عرب بچوں سے دوستی کریں- جن لوگوں کو سروے میں شامل کیا گیا ان کا کہنا ہے کہ وہ عربوں کو اپنے گھروں میں نہیں آنے دیتے- سروے کے مطابق اسرائیلی اپنی حکومت سے چاہتے ہیں کہ وہ ایسے حالات ترتیب دے جس سے عرب کہیں اور نقل مکانی کر جائیں-
رپورٹ میں اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے جون 2007ء میں ڈیموکریسی انڈیکس رپورٹ کا حوالہ بھی دیا گیا جس کے مطابق نصف اسرائیلی عوام چاہتے ہیں کہ عربوں اور یہودیوں کو برابر کے حقوق ملیں جبکہ 78 فیصد عوام کاروبار حکومت میں عرب سیاسی جماعتوں کی شمولیت کے مخالف ہیں- رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حیفہ یونیورسٹی کے زیر انتظام سروے سے معلوم ہوا کہ 74 فیصد یہودی نوجوان عربوں کو ’’گندہ‘‘ اور ’’غلیظ‘‘ سمجھتے ہیں-
اسرائیل کے مرکزی ادارۂ شماریات نے 2006ء میں یہ رپورٹ جاری کی تھی کہ اسرائیل میں عربوں کی تعداد چودہ لاکھ تیرہ ہزار پانچ سو ہے اور وہ اسرائیل کی 65 لاکھ آبادی کا 19.8فیصد ہیں-
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی عربوں کے خلاف نسلی امتیاز کا برتاؤ سرکاری سرپرستی میں منظم طریقے پر کیا جاتا ہے، جو زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے- عرب شہریوں کو نسلی طور پر الگ تھلگ کردیا گیا ہے کیونکہ انہیں سیکورٹی کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے-
حکومت نے عرب صحافیوں کی آزادئ صحافت پر بھی شدید بندشیں عائد کررکھی ہیں- ان کے سر پر اقتصادی بائیکاٹ کی تلوار ہر وقت لٹکتی رہی ہے اور جو اخبارات اسرائیل کی پالیسی پر تنقید کرتے ہیں ان کے سرکاری اشتہارات روک لیے جاتے ہیں- ائیرپورٹ پر عرب شہریوں کو ہراساں کیا جاتا ہے- رپورٹ کے مطابق عرب شہریوں کو ائیرپورٹ پربھی نشانۂ تضحیک بنایا جاتا ہے-
گزشتہ برس اسرائیل اور لبنان کے درمیان ہونے والی جنگ میں مارے جانے والے شہریوں میں سے چالیس فیصد اسرائیلی عرب تھے اور ان کے جاں بحق ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اسرائیل کے عرب علاقوں میں عربوں کے لیے رہائش کا معقول بندوبست نہیں ہے-
رپورٹ میں کنیست کے کئی قوانین یا مسودات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جن میں اسرائیلی عربوں کے ساتھ امتیاز برتا گیا ہے- ان میں عربوں کے لیے ووٹ کا حق یا ملٹری اور قومی خدمت کے بعد سرکاری مراعات کے حصول کا مرحلہ شامل ہے- اسرائیلی سسٹم کے مطابق عربوں کو فوج میں ملازمت کرنے کی اجازت نہیں ہے- اسرائیلی پارلیمان کنیست میں جو بل پیش کیے گئے ہیں ان میں وزراء اور کنیست کے اراکین کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ یہودی ریاست کے ساتھ وفاداری کا اظہار کریں-
گزشتہ ماہ اسرائیلی وزیر اعظم ایہوداولمرٹ نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کے آغاز ہی میں یہ بات اٹھائی جائے گی کہ وہ ’’اسرائیل کو یہودیوں کے قومی ملک‘‘ کے طور پر تسلیم کریں-
اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کرنے اور یہودیوں کے قومی وطن ہونے کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ان فلسطینیوں کی واپسی کا راستہ حتمی طور پر مسدود کردیا جائے کہ جو اپنے گھر آج کے اسرائیل میں واپسی کی امید لگائے بیٹھے ہیں-
اگرچہ ان لوگوں کو قانونی طور پر اسرائیل کے شہری سمجھا جاتا ہے تاہم بہت سے اسرائیلی عرب کہتے ہیں کہ ان سے تمام شعبہ ہائے زندگی میں امتیاز برتا جاتا ہے- یہودی آبادی میں غربت کا جو تناسب ہے عرب آبادی میں وہ دوگنا ہے-
اسرائیلی پارلیمان کنیست کے عرب ارکان کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں اسرائیلی عربوں کے خلاف نسل پرستی کی گہری جڑیں ہیں- اسرائیلی اخبار ’’یدیعوت احرانوت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بائیں بازو کی ’’حادث پارٹی‘‘ کے چیئرمین محمد براکہ کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں کوئی بات بھی حیران کن نہیں ہے- رپورٹ میں جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ اسرائیل کے سیاسی لیڈروں اور نسل پرستی کی پالیسی کی کیچڑ کا لازمی نتیجہ ہیں کہ جو عربوں کی جانب اچھالی جارہی ہے- ایک اور عرب نمائندے احمدتیسی کا کہنا ہے کہ نسل پرستی اسرائیل کے معاشرے میں ایک معمول بن چکی ہے- اسرائیل میں نسلی امتیاز کا رویہ سوچے سمجھے طریقے سے روبۂ عمل چلاآ رہا ہے- براکہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت کو نسل پرستی ختم کرنے کے لیے عرب دشمن ذہنیت ختم کرنا چاہئے-
روزنامہ ’’ہارٹز‘‘ کے مطابق اسرائیل کی انجمن برائے شہری حقوق (اے سی آر آئی) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ اسرائیلی معاشرہ نسلی امتیاز کی نئی انتہاؤں کو چھو رہا ہے جس سے آزادئ اظہار اور نجی زندگی تباہ و برباد ہو کر رہ گئے ہیں- انجمن کے صدر سامی مائیکل نے اس رپورٹ کی اشاعت کے موقع پر کہا کہ نسلی تعصب کے بے انتہاء عروج پانے کے بعد اسرائیل کے مشرق وسطی میں واحد جمہوریت کے فاش دعوے کی نفی ہو چکی ہے- ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی معاشرے میں جمہوریت کا اعلان کرنے والی حکومت کے ادارے مسلسل تباہ ہو رہے ہیں- اس مملکت کے وسط میں جو لوگ رہتے ہیں ان کو خصوصی حقوق ملے ہوئے ہیں اور جو مضافات میں رہتے ہیں وہ اس سے بالکل محروم ہیں-
انجمن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2006ء میں اسرائیلی عربوں کے خلاف نسلی تعصب کے واقعات میں 26 فیصد اضافہ ہوا، جو یہودی کھلے عام عربوں کے خلاف نسلی تعصب کا اظہار کرتے ہیں ان کی تعداد دوگنا ہو چکی ہے- رپورٹ کے مطابق اسرائیلی نوجوانوں کی دو تہائی تعداد کا اس پر مکمل یقین ہے – عرب کند ذہن، غیر مہذب اور متشدد ہوتے ہیں- اسرائیلی نوجوانوں کی ایک تہائی تعداد عربوں سے خوفزدہ رہتی ہے-
مارچ میں اس انجمن نے ایک رائے عامہ کا سروے کرایاجس سے معلوم ہوا کہ پچاس فیصد عرب اس عمارت میں رہنا پسند نہیں کرتے جس میں عرب بھی رہتے ہوں- وہ عربوں کو دوست نہیں بناتے نہ ہی یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے بچے عرب بچوں سے دوستی کریں- جن لوگوں کو سروے میں شامل کیا گیا ان کا کہنا ہے کہ وہ عربوں کو اپنے گھروں میں نہیں آنے دیتے- سروے کے مطابق اسرائیلی اپنی حکومت سے چاہتے ہیں کہ وہ ایسے حالات ترتیب دے جس سے عرب کہیں اور نقل مکانی کر جائیں-
رپورٹ میں اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے جون 2007ء میں ڈیموکریسی انڈیکس رپورٹ کا حوالہ بھی دیا گیا جس کے مطابق نصف اسرائیلی عوام چاہتے ہیں کہ عربوں اور یہودیوں کو برابر کے حقوق ملیں جبکہ 78 فیصد عوام کاروبار حکومت میں عرب سیاسی جماعتوں کی شمولیت کے مخالف ہیں- رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حیفہ یونیورسٹی کے زیر انتظام سروے سے معلوم ہوا کہ 74 فیصد یہودی نوجوان عربوں کو ’’گندہ‘‘ اور ’’غلیظ‘‘ سمجھتے ہیں-
اسرائیل کے مرکزی ادارۂ شماریات نے 2006ء میں یہ رپورٹ جاری کی تھی کہ اسرائیل میں عربوں کی تعداد چودہ لاکھ تیرہ ہزار پانچ سو ہے اور وہ اسرائیل کی 65 لاکھ آبادی کا 19.8فیصد ہیں-
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی عربوں کے خلاف نسلی امتیاز کا برتاؤ سرکاری سرپرستی میں منظم طریقے پر کیا جاتا ہے، جو زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے- عرب شہریوں کو نسلی طور پر الگ تھلگ کردیا گیا ہے کیونکہ انہیں سیکورٹی کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے-
حکومت نے عرب صحافیوں کی آزادئ صحافت پر بھی شدید بندشیں عائد کررکھی ہیں- ان کے سر پر اقتصادی بائیکاٹ کی تلوار ہر وقت لٹکتی رہی ہے اور جو اخبارات اسرائیل کی پالیسی پر تنقید کرتے ہیں ان کے سرکاری اشتہارات روک لیے جاتے ہیں- ائیرپورٹ پر عرب شہریوں کو ہراساں کیا جاتا ہے- رپورٹ کے مطابق عرب شہریوں کو ائیرپورٹ پربھی نشانۂ تضحیک بنایا جاتا ہے-
گزشتہ برس اسرائیل اور لبنان کے درمیان ہونے والی جنگ میں مارے جانے والے شہریوں میں سے چالیس فیصد اسرائیلی عرب تھے اور ان کے جاں بحق ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اسرائیل کے عرب علاقوں میں عربوں کے لیے رہائش کا معقول بندوبست نہیں ہے-
رپورٹ میں کنیست کے کئی قوانین یا مسودات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جن میں اسرائیلی عربوں کے ساتھ امتیاز برتا گیا ہے- ان میں عربوں کے لیے ووٹ کا حق یا ملٹری اور قومی خدمت کے بعد سرکاری مراعات کے حصول کا مرحلہ شامل ہے- اسرائیلی سسٹم کے مطابق عربوں کو فوج میں ملازمت کرنے کی اجازت نہیں ہے- اسرائیلی پارلیمان کنیست میں جو بل پیش کیے گئے ہیں ان میں وزراء اور کنیست کے اراکین کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ یہودی ریاست کے ساتھ وفاداری کا اظہار کریں-
گزشتہ ماہ اسرائیلی وزیر اعظم ایہوداولمرٹ نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کے آغاز ہی میں یہ بات اٹھائی جائے گی کہ وہ ’’اسرائیل کو یہودیوں کے قومی ملک‘‘ کے طور پر تسلیم کریں-
اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کرنے اور یہودیوں کے قومی وطن ہونے کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ان فلسطینیوں کی واپسی کا راستہ حتمی طور پر مسدود کردیا جائے کہ جو اپنے گھر آج کے اسرائیل میں واپسی کی امید لگائے بیٹھے ہیں-
اگرچہ ان لوگوں کو قانونی طور پر اسرائیل کے شہری سمجھا جاتا ہے تاہم بہت سے اسرائیلی عرب کہتے ہیں کہ ان سے تمام شعبہ ہائے زندگی میں امتیاز برتا جاتا ہے- یہودی آبادی میں غربت کا جو تناسب ہے عرب آبادی میں وہ دوگنا ہے-
اسرائیلی پارلیمان کنیست کے عرب ارکان کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں اسرائیلی عربوں کے خلاف نسل پرستی کی گہری جڑیں ہیں- اسرائیلی اخبار ’’یدیعوت احرانوت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بائیں بازو کی ’’حادث پارٹی‘‘ کے چیئرمین محمد براکہ کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں کوئی بات بھی حیران کن نہیں ہے- رپورٹ میں جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ اسرائیل کے سیاسی لیڈروں اور نسل پرستی کی پالیسی کی کیچڑ کا لازمی نتیجہ ہیں کہ جو عربوں کی جانب اچھالی جارہی ہے- ایک اور عرب نمائندے احمدتیسی کا کہنا ہے کہ نسل پرستی اسرائیل کے معاشرے میں ایک معمول بن چکی ہے- اسرائیل میں نسلی امتیاز کا رویہ سوچے سمجھے طریقے سے روبۂ عمل چلاآ رہا ہے- براکہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت کو نسل پرستی ختم کرنے کے لیے عرب دشمن ذہنیت ختم کرنا چاہئے-