محمود عباس کا خیال ہے کہ امریکہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے سنجیدہ ہے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے تل ابیب پر دباؤ ڈالے گا- امریکہ کے زیر انتظام میری لینڈ ریاست کے شہر اناپولیس میں منعقدہ مشرق وسطی امن کانفرنس کے بعد محمود عباس آس لگائے بیٹھے ہیں کہ آئندہ آٹھ ماہ کے دوران اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات حتمی نتائج پر پہنچ جائیں گے- مشرق وسطی میں امن کانفرنس امریکی صدر کی انتخابی مہم کا حصہ ہے- فلسطینی صدر کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے- ان کی سوچ تصوراتی ہے- امریکہ ہر حال میں اسرائیلی مفادات کا محافظ ہے- ان خیالات کااظہار حماس کے پولٹ بیوروکے نائب سربراہ ڈاکٹر موسی ابو مرزوق نے اسلامی جماعتوں کی کانفرنس میں شرکت کے لئے ایران کے دارالحکومت تہران کے دورے پرکیا- مرکزاطلاعات نے ان سے موجودہ حالات پر انٹرویو کیا – انٹرویو کا متن زائرین کے پیش خدمت ہے –
سوال: اس موقع پر آپ کے دورہ ایران کا کیا مقصد ہے؟
جواب: میں یہاں پر کانفرنس میں شرکت کے لیے آیا ہوں جس میں وسطی ایشیا اور ایران کی بعض اسلامی جماعتیں اور بعض عرب پارٹیاں شریک ہیں- دورہ ایران کا مقصد صرف یہی ہے-
سوال: اگر ہم امریکی سربراہان مملکت کی تاریخ کا جائزہ لیں تو وہ اپنے دور حکومت کے آخری لمحوں ایسی کامیابیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا نام امریکی تاریخ میں رقم ہو جائے- آپ کے خیال میں کیا اناپولیس میں منعقدہ مشرق وسطی امن کانفرنس جارج بش کی طرف سے اسی طرح کی کوشش ہے یا پھر اس کے کوئی اور مقاصد ہیں؟
جواب: درحقیقت امریکی صدور اپنی دوسری ٹرم کے آخری وقت میں یا پھر پہلی ٹرم کے دوران کوشش کرتے ہیں کہ اپنی پارٹی کے لیے زیادہ سے زیادہ ووٹروں کا اعتماد حاصل کرسکیں- یہ مسلمہ بات ہے کہ اسرائیل کی خدمت بالخصوص دوسری ٹرم میں امریکی صدور کی پہلی ترجیح ہوتی ہے- دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اور صہیونی لابی امریکی انتخابات میں ایک مؤثر قوت بن چکی ہے- امریکی صدور ووٹ حاصل کرنے کے لیے صہیونی لابی کا رخ کرتے ہیں- سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے اپنے دور حکومت کے آخری مرحلے میں ڈیوڈ کیمپ معاہدہ کرایا- اس معاہدے کا مقصد مصر کو اسرائیل کے خلاف صف آراء عرب ممالک کی صف سے نکالنا تھا- یعنی اصل مقصد مسئلہ فلسطین کو نقصان پہنچانا تھا- جارج بش اور کلنٹن کے دور حکومت کے آخری وقت میں بڑی سیاسی ہل چل رہی تھی-
موجودہ حالات میں حماس جیسی متحرک جماعتوں سے امریکی انتظامیہ کا رابطہ قانوناً منع ہے کیونکہ حماس کو دہشت گرد تنظیموں کی صف میں رکھا گیا ہے- امریکی انتظامیہ اس قانون میں جکڑی ہوئی ہے- امریکی انتظامیہ کے لیے فلسطین کی تمام جماعتوں سے رابطے اور فلسطین میں ہر سطح پر متحرک ہونا ممکن نہیں ہے- اس کے برعکس وہ اسرائیل میں تمام جماعتوں اور شخصیات سے رابطے کرسکتی ہے- واشنگٹن کا ایک اور مسئلہ صہیونی ریاست کی سلامتی اور علاقے میں اسرائیلی برتری ہے- جب بھی واشنگٹن کوئی پالیسی بناتا ہے تو اسرائیل کی سلامتی ایجنڈے میں سرفہرست ہوتی ہے- جب امریکہ اسرائیلی سلامتی کو سرفہرست رکھے گا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ دوسرے فریق سے مذاکرات کے دوران صہیونی مفادات کی مخالفت نہیں کرسکتا- علاقے میں اسرائیلی برتری امریکہ کے لیے ایک اور اہم ترین مسئلہ ہے- جس کی پابندی وہ بہت عرصے سے کرتا چلا آرہا ہے- امریکہ جب فوجی برتری کے لیے اسرائیل کا ساتھ دے گا تو اس کا مطلب ہے کہ علاقے میں فوجی طاقت کا توازن اسرائیلی پلڑے میں ہوگا- ان حالات میں اسرائیل کے لیے کسی قسم کی سیاسی دستبرداری اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے سیاسی مقاصد میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے- امریکی پالیسی شفاف نہیں ہے، خواہ فلسطینیوں کو تقسیم کر کے ایک گروہ کو دہشت گرد قرار دینے اور ایک گروہ کو اعتدال پسند قرار دینے کا معاملہ ہو، اسرائیلی سلامتی کی فکر ہو، تل ابیب پر دباؤ نہ ڈالنا ہو یا اسرائیلی برتری کی ضمانت ہو- امریکی صدر اپنے دور حکومت کے آخری وقت میں مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے جس قدربھی کوششیں کریں گے وہ واشنگٹن ان تمام مسائل میں جانبدار ہوگا منصف نہیں ہوگا-
امریکی وزیر خارجہ کونڈالیزا رائس نے فلسطینیوں پر دباؤ ڈالا ہے اسرائیل پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا- صدر بش کی صدارتی ٹرم کے آخری مراحل اور انتخابی مہم کے دوران سیاسی حرکت ہے لیکن میرے خیال میں اس سیاسی حرکت سے کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے؟
سوال: اسرائیل کی حکومتی اورغیر حکومتی جماعتوں اور شخصیات نے بار بار واضح کیا ہے کہ تل ابیب فلسطینیوں کے لیے کوئی دستبرداری اختیار نہیں کرے گا- اسرائیلی حکومتی عہدیداران کا کہنا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو جو کچھ دے رہا ہے وہ اس کا نصف بھی نہیں ہے جو باراک نے یاسر عرفات کو کیمپ ڈیوڈ میں دیا تھا- اس کے باوجود فلسطینی مذاکرات کار بڑی خوش فہمی کا شکار ہیں- آپ کی رائے میں فلسطینیوں کے اتنی خوش فہمی کی کیا وجہ ہے؟
جواب: کچھ عرصہ قبل وہ بہت بڑی خوش فہمی کا شکار تھے اور کہہ رہے تھے کہ مشرق وسطی امن کانفرنس مسئلہ فلسطین کے حل اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا نقطہ آغاز ہے- لیکن جب وہ مذاکرات میں داخل ہوئے تو انہیں علم ہوگیا ہے کہ وہ کتنی بڑی خوش فہمی کا شکار ہیں-
سوال: فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ آٹھ ماہ کے دوران اندر دونوں فریق قیام امن کے معاہدے تک پہنچ جائیں گے؟
جواب: محمود عباس مذاکرات اور مفاہمت کی بات کرتے رہیں گے- وہ خیالی پلائی پکا رہے ہیں کہ صہیونی ان کو کچھ دے گا اللہ تعالی کا فرمان ہے- کیا ان کو اللہ کی حکومت میں کچھ حصہ حاصل ہے ؟گر ایسا ہے تو وہ کسی کو کچھ نہ دیتے-
جب تک ان کے پاس طاقت ہے، منصب ہے اور حکومت ہے وہ محمود عباس اور نہ کسی اور کو کچھ دینے والے ہیں-وہ اس وقت تک کسی کو کچھ نہیں دیں گے- جب تک کوئی طاقت سے ان سے چھین نہ لے- وہ اس وقت تک جنوبی لبنان سے نہیں نکلے جب تک حزب اللہ نے انہیں شکست نہ دے دی- انہوں نے غزہ کی پٹی سے اس وقت انخلاء کیا جب حماس نے انہیں بھاگنے پر مجبور کردیا اور غزہ کی پٹی پر قبضہ برقرار رکھنا اسرائیل کے لیے ناممکن ہوگیا تھا- وہ 1973ء میں صحراء سیناء سے بھی شکست کے بعد نکلے- محمود عباس بہت ہی خوش فہم اور تصوراتی ہیں- انہیں کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے- وقت ان کی تمناؤں پر پانی پھیر دے گا-
سوال: عرب ممالک کی مشرق وسطی امن کانفرنس میں شرکت کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: میرے خیال میں عرب ممالک کی اصل مشکل امریکہ کے زیر انتظام کانفرنس میں شرکت نہیں تھی بلکہ ان کا مسئلہ تھا کہ کانفرنس میں کیا پیش کریں اور اس کے نتائج کیا ہوں گے- امریکہ نے انہیں جھوٹی تسلیاں دیں کہ سیاسی مفاہمت سامنے آئے گی لیکن یہ صرف لوریاں اور تسلیاں ہیں-
سوال: آپ کے خیال میں کیا کانفرنس میں شام کی شرکت سے مزاحمتی ارکان میں ایک رکن کی کمی نہیں ہوگئی ہے؟
جواب: میرا خیال نہیں ہے کہ صرف کانفرنس میں شرکت سے مزاحمتی محاذ کو نقصان پہنچا ہے- میرے خیال میں شام مزاحمتی محاذ سے دور نہیں ہٹے گا- بالخصوص جبکہ اس کی زمین قبضہ ہے-
سوال: فلسطینی اتھارٹی حماس سے مذاکرات کرنے سے انکار کرتی ہے جبکہ وہ اسرائیل سے مذاکرات کے لیے اس کے پیچھے بھاگ رہی ہے- فلسطینی اتھارٹی کے حماس سے مذاکرات مسترد کرنے کے آپ کیا معنی لیتے ہیں؟
جواب: یہ سوال آپ کو فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے کرنا چاہیے- وہ کس جواز کے تحت حماس سے مذاکرات سے انکار کرتے ہیں اور قومی وحدت کو مسترد کرتے ہیں- ایہود اولمرٹ سے مذاکرات کے لیے وہ مارے مارے پھرتے ہیں- اولمرٹ سے ملاقات کے دوران ان کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے- اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر مسلسل جارحیت کررہا ہے- دن رات مزاحمت کاروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے- معاملہ بہت عجیب و غریب ہے- آپ کا سوال برمحل ہے-
سوال: رام اللہ میں حماس کے راہنماؤں کی محمود عباس سے ملاقات کو فتح اور حماس کے درمیان مذاکرات کا نقطہ آغاز قرار دیا جارہا تھا لیکن اس ملاقات کے بعد کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی- آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
جواب: ہم نے محمود عباس سے کبھی بھی ملاقات سے انکار نہیں کیا- فتح سے حماس کے راہنماؤں کی ملاقات اسی پالیسی کا حصہ ہے- لیکن محمود عباس ملاقاتوں کے باوجود ہمیشہ مذاکرات کو مسترد کردیتے ہیں بلکہ وہ مذاکرات سے انکاری ہیں- ہمارے ساتھیوں نے غزہ کی پٹی میں فتح کے راہنماؤں رفیق نشتہ اور جبریل رجوب سے متعدد ملاقاتیں کیں- ان ملاقاتوں کا محمود عباس کو علم تھا اوران کی اجازت سے فتح کے راہنماؤں نے حماس سے بات چیت کی ہے- فلسطینی صدر امریکی اور اسرائیلی دباؤ کے باعث حماس سے مذاکرات نہیں کرسکتے-
سوال: مغربی کنارے میں فلسطینی صدر محمود عباس کو براہ راست جوابدہ سیکورٹی فورسز اور اسرائیلی افواج کی جانب سے حماس کے کارکنان کی گرفتاریاں اور ان پر تشدد جاری ہے- آپ ان گرفتاریوں اور تشدد کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: جارحیت تو صہیونی ریاست کی فطرت ہے اس کے نزدیک مردہ دل فلسطینی اچھا شہری ہے اور مزاحمت کرنے والے زندہ رہنے کا حقدار نہیں ہے- حماس کو براہ راست نشانہ بنایا جارہا ہے- حماس فلسطینی عوام کے اہداف کے حصول کو کبھی ترک نہیں کرے گی- وہ ثابت قدم رہے گی- جب تک قبضہ ختم نہیں ہو جاتا وہ قابض اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھے گی- ہم ارض فلسطین میں آزادی اور فتح کے جھنڈے گاڑیں گے- بالآخر فلسطین نے آزاد ہونا ہے-
رہا معاملہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے گرفتاریوں کا تو وہ غزہ میں ہونے والے واقعات کے بعد سے مسلسل جاری ہیں- جب سے غزہ پرحماس کا مکمل کنٹرول ہوا ہے- مغربی کنارے میں حماس کے کارکنان کو گرفتار کیے جانے کا عمل جاری ہے- ان گرزفتاریوں کا مقصد فلسطینی اتھارٹی کی جانب نقشہ راہ کی پہلی شق پر عمل کرنا ہے جو کہ تمام مزاحمتی طاقتوں کے خاتمہ کی ہے- فتح میں جن لوگوں نے مزاحمت کی ان کے خلاف کارروائیں کی گئیں- اسلامی جہاد کے کارکنان کو نشانہ بنایا گیا- ان سب کارروائیوں کا مقصد مزاحمت کا خاتمہ ہے کیونکہ اسرائیل فلسطینی عوام کو اپنی مرضی اور مزاج کے مطابق چلانا چاہتا ہے-
سوال: بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ موسم گرما بڑا گرم رہے گا- اسرائیل غزہ کے خلاف فوجی آپریشن کرے گا- لیکن موسم گرما گزر گیا کچھ نہیں ہوا- اب موسم سرما کے بارے کہا جارہا ہے کہ اس موسم سرما میں اسرائیل نئے حملے کرے گا- آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: میرا نہیں خیال کہ اسرائیل یا امریکہ کی جانب سے کہیں پر نئی فوج کشی ہوگی- اسرائیل لبنان میں اور امریکہ عراق میں سبق حاصل کرچکا ہے- اگر وہ سابقہ تجربے سے استفادہ نہیں کریں گے تو دوبارہ بہت بڑی غلطی کریں گے- میرا خیال نہیں ہے کہ رواں موسم سرما میں اسرائیل علاقے میں فوج کشی کی جرات کرے گا-
