دنیا کے لوگوں کو امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر سے جو اطلاعات فراہم کی جا رہی تھیں وہ سراسر فوبیانی پر مبنی تھیں-
وائٹ ہاؤس میں براجمان جارج بش جس نے دو قومی ریاستوں کو تباہ کردیا ہے اور دس لاکھ انسانوں کو ہلاک کرڈالا ہے اور پھر یہ اعلان بھی کرڈالا ہے کہ خدا نے اسے یہ کرنے کا حکم دیاتھا – اب وہ فلسطینیوں کے ساتھ کھیل کھیل رہاہے – اس نے پچاس ممالک سے لوگوں کو اکٹھا کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو دیکھیں ، ایک ریاست جس کے ضمیر ہی میں قتل و غارت ،لوٹ مار اور تباہی لکھ دی گئی ہے – اسرائیلی اتھارٹی کا دعوی ہے کہ وہ دنیا کے سب سے مجبور و مقہور لوگوں کی نمائندہ ہے اور اس کا اعلان ہے کہ ایک ایسا معاہدہ عمل میں جائے گا کہ جس سے دسیوں برسوں کا خون بہااور تشدد انجام کو پہنچ جائے گا-
ایک پہلی سے لکھی ہوئی تقریر پڑھتے ہوئے بش نے اصرار کیا کہ اسرائیل اور فلسطین ایک دوسرے کے شانہ بشانہ امن کے ساتھ رہ سکتے ہیں، انہوں نے یہ یاددہانی فراموش نہ کی کہ فلسطینی ریاست انصاف سے معاملات کرے اور دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کو برباد کردے-
جارج ڈبلیو بش نے یہ کہہ کر امید کی مصنوعی لہر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ دونوں فریقین اسرائیلی وزیراعظم ایہوداولمرٹ اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس آخر کار اس پر رضا مند ہوگئے ہیں کہ وہ ’’امن ‘‘ کا راستہ اختیار کرلیں-
جارج بش جن باتوں پر یقین رکھتے ہیں ،عملی طور پر وہ احمقانہ محسوس ہوتی ہیں- اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ محمود عباس اپنے ان محکوم لوگوں کے لئے امن کی تلاش میں ہیں جو مسلسل ظلم وستم ، جبر و تشدد اور اسرائیل کی جارحانہ عسکری کاروائیوں کا اسی طرح شکار ہیں جس طرح نازی جرمنی کے دور میں یہودی رہے تھے- لیکن اب یہودیوں کی تعذیب کا شکار فلسطینی ہیں اور فلسطینیوں سے ان کی زمین مسلسل چھینی جا رہی !
کتنی ہی امن کانفرنسوں کا انعقاد ہوجائے اور کتنے ہی غیر ملکی نمائندے ان کانفرنسوں میں شرکت کرلیں لیکن فلسطینیوں کو عملی آزادی اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان نہیں کیاجاسکتا، دریائے اردن کے مغربی کنارے میں رہنے والے فلسطینیوں کو جس طرح ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ سست رفتار نسل کشی سے کسی طور کم نہیں- یہی وجہ ہے کہ جب ایہود اولمرٹ اعلان کرتا ہے کہ وہ قیام امن کی جدوجہد میں مخلص ہے تو اس میں سچ کی ایک رمق بھی محسوس نہیں ہوتی-
سچی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ امن کے قیام پر رضا مندہی نہیں ، اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ قیام امن کے لئے کوئی اسٹرٹیجی طے ہی نہیں کی ہے -اسرائیل نے جن علاقوں پر 1967ء میں قبضہ کیاتھا ان کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہے نہ ہی وہ مشرقی بیت المقدس کا قبضہ چھوڑنے کے لئے تیار ہے – اسرائیل فلسطینی مہاجرین کو بھی واپسی کا حق دینے کے لئے تیار نہیں ہے – جن کو ساٹھ برس قبل اپنے گھروں سے نکال دیاگیاتھا،اب اسرائیل کا اصرار ہے کہ اسے یہودی ریاست تسلیم کرلیا جائے اور وہاں کی 25فیصد ،غیر یہودی آبادی کم تر درجے کے شہری کے طور پر زندگی بسر کرنے پر مجبور کرکے اس نسل پرستی کی فضا میں اسرائیل کے ساتھ کسی طرح کوئی معاہدہ کیاجا سکتاہے –
علاوہ ازیں یہ بھی واضح ہے کہ جارج بش ، ایماندار اور منصف مصالحت کنندہ نہیں ہے اور اس سے یہ امید نہیں کہ وہ حقیقی طور پر قیام امن کے لئے کام کرے گا-حقیقی قیام امن کے لئے ایمانداری اور لگن چاہے اور اس چیز سے جارج بش اور اس کے ساتھی محروم ہیں ، سچی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل ، فلسطین میں امن دیکھنا ہی نہیں چاہتا – اسرائیل کااصرار ہے کہ مذاکرات ’’دو طرفہ ‘‘ہونا ضروری ہیں وہ فلسطینی اتھارٹی کو اس لئے مذاکرات میں شریک کرنا چاہتاہے تاکہ ایک کمزور انتظامیہ کو اور اچھی طرح دبایا جاسکے تاکہ وہ مزید رعایتیں دینے پر تیار ہوجائے –
بظاہر تو اسرائیل اقوام متحدہ کی قرار داد کو تسلیم کرتا دکھائی دیتاہے ، لیکن اسرائیل کی ان کے نفاذ کی اپنی ہی تعبیرات ہیں- جب اسرائیلیوں کو عالمی عدالت انصاف میں بلایا جاتاہے تو وہ کسی تیسرے فریق کی مداخلت پر رضا مندنہیں ہوتے ہیں کہ غیر یہودیوں سے انصاف کی توقع نہیں ہے- ان حالات میں یہ تجزیہ کرنا اجنبی نہیں ہے کہ ماضی میں قیام امن کی کوششیں جس طرح ناکام ہوئی تھیں اب بھی ہوں گی اگرچہ امریکی ریاست نے ’’فریقین ‘‘کو مدعوکیا ہے اور جھوٹے گواہوں کی طویل قطار کو بھی طلب کررکھا ہے لیکن سچی نیت اور مصمم ارادے کے بغیر کوئی حل نہیں نکل سکتا-
وائٹ ہاؤس میں براجمان جارج بش جس نے دو قومی ریاستوں کو تباہ کردیا ہے اور دس لاکھ انسانوں کو ہلاک کرڈالا ہے اور پھر یہ اعلان بھی کرڈالا ہے کہ خدا نے اسے یہ کرنے کا حکم دیاتھا – اب وہ فلسطینیوں کے ساتھ کھیل کھیل رہاہے – اس نے پچاس ممالک سے لوگوں کو اکٹھا کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو دیکھیں ، ایک ریاست جس کے ضمیر ہی میں قتل و غارت ،لوٹ مار اور تباہی لکھ دی گئی ہے – اسرائیلی اتھارٹی کا دعوی ہے کہ وہ دنیا کے سب سے مجبور و مقہور لوگوں کی نمائندہ ہے اور اس کا اعلان ہے کہ ایک ایسا معاہدہ عمل میں جائے گا کہ جس سے دسیوں برسوں کا خون بہااور تشدد انجام کو پہنچ جائے گا-
ایک پہلی سے لکھی ہوئی تقریر پڑھتے ہوئے بش نے اصرار کیا کہ اسرائیل اور فلسطین ایک دوسرے کے شانہ بشانہ امن کے ساتھ رہ سکتے ہیں، انہوں نے یہ یاددہانی فراموش نہ کی کہ فلسطینی ریاست انصاف سے معاملات کرے اور دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کو برباد کردے-
جارج ڈبلیو بش نے یہ کہہ کر امید کی مصنوعی لہر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ دونوں فریقین اسرائیلی وزیراعظم ایہوداولمرٹ اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس آخر کار اس پر رضا مند ہوگئے ہیں کہ وہ ’’امن ‘‘ کا راستہ اختیار کرلیں-
جارج بش جن باتوں پر یقین رکھتے ہیں ،عملی طور پر وہ احمقانہ محسوس ہوتی ہیں- اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ محمود عباس اپنے ان محکوم لوگوں کے لئے امن کی تلاش میں ہیں جو مسلسل ظلم وستم ، جبر و تشدد اور اسرائیل کی جارحانہ عسکری کاروائیوں کا اسی طرح شکار ہیں جس طرح نازی جرمنی کے دور میں یہودی رہے تھے- لیکن اب یہودیوں کی تعذیب کا شکار فلسطینی ہیں اور فلسطینیوں سے ان کی زمین مسلسل چھینی جا رہی !
کتنی ہی امن کانفرنسوں کا انعقاد ہوجائے اور کتنے ہی غیر ملکی نمائندے ان کانفرنسوں میں شرکت کرلیں لیکن فلسطینیوں کو عملی آزادی اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان نہیں کیاجاسکتا، دریائے اردن کے مغربی کنارے میں رہنے والے فلسطینیوں کو جس طرح ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ سست رفتار نسل کشی سے کسی طور کم نہیں- یہی وجہ ہے کہ جب ایہود اولمرٹ اعلان کرتا ہے کہ وہ قیام امن کی جدوجہد میں مخلص ہے تو اس میں سچ کی ایک رمق بھی محسوس نہیں ہوتی-
سچی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ امن کے قیام پر رضا مندہی نہیں ، اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ قیام امن کے لئے کوئی اسٹرٹیجی طے ہی نہیں کی ہے -اسرائیل نے جن علاقوں پر 1967ء میں قبضہ کیاتھا ان کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہے نہ ہی وہ مشرقی بیت المقدس کا قبضہ چھوڑنے کے لئے تیار ہے – اسرائیل فلسطینی مہاجرین کو بھی واپسی کا حق دینے کے لئے تیار نہیں ہے – جن کو ساٹھ برس قبل اپنے گھروں سے نکال دیاگیاتھا،اب اسرائیل کا اصرار ہے کہ اسے یہودی ریاست تسلیم کرلیا جائے اور وہاں کی 25فیصد ،غیر یہودی آبادی کم تر درجے کے شہری کے طور پر زندگی بسر کرنے پر مجبور کرکے اس نسل پرستی کی فضا میں اسرائیل کے ساتھ کسی طرح کوئی معاہدہ کیاجا سکتاہے –
علاوہ ازیں یہ بھی واضح ہے کہ جارج بش ، ایماندار اور منصف مصالحت کنندہ نہیں ہے اور اس سے یہ امید نہیں کہ وہ حقیقی طور پر قیام امن کے لئے کام کرے گا-حقیقی قیام امن کے لئے ایمانداری اور لگن چاہے اور اس چیز سے جارج بش اور اس کے ساتھی محروم ہیں ، سچی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل ، فلسطین میں امن دیکھنا ہی نہیں چاہتا – اسرائیل کااصرار ہے کہ مذاکرات ’’دو طرفہ ‘‘ہونا ضروری ہیں وہ فلسطینی اتھارٹی کو اس لئے مذاکرات میں شریک کرنا چاہتاہے تاکہ ایک کمزور انتظامیہ کو اور اچھی طرح دبایا جاسکے تاکہ وہ مزید رعایتیں دینے پر تیار ہوجائے –
بظاہر تو اسرائیل اقوام متحدہ کی قرار داد کو تسلیم کرتا دکھائی دیتاہے ، لیکن اسرائیل کی ان کے نفاذ کی اپنی ہی تعبیرات ہیں- جب اسرائیلیوں کو عالمی عدالت انصاف میں بلایا جاتاہے تو وہ کسی تیسرے فریق کی مداخلت پر رضا مندنہیں ہوتے ہیں کہ غیر یہودیوں سے انصاف کی توقع نہیں ہے- ان حالات میں یہ تجزیہ کرنا اجنبی نہیں ہے کہ ماضی میں قیام امن کی کوششیں جس طرح ناکام ہوئی تھیں اب بھی ہوں گی اگرچہ امریکی ریاست نے ’’فریقین ‘‘کو مدعوکیا ہے اور جھوٹے گواہوں کی طویل قطار کو بھی طلب کررکھا ہے لیکن سچی نیت اور مصمم ارادے کے بغیر کوئی حل نہیں نکل سکتا-