چهارشنبه 30/آوریل/2025

فلسطینی سفارت کار

بدھ 5-دسمبر-2007

فلسطینی سفارتکار صائب اریکات ،اناپولیس کانفرنس کے حوالے سے کئی بار دلچسپ بیانات جاری کرچکے ہیں- صائب ارکات جنہیں یاسرعرفات  ’’اریحاکا شیطان ‘‘کہا کرتے تھے،انہوں نے فلسطینی ذرائع ابلاغ کو مختلف انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ فلسطینی سفارت کار، فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے حقیقتاً اسرائیل سے جنگ لڑ رہے ہیں – دیگر سفارتکار جو اوسلو معاہدے کے دوران بھی سرگرم عمل تھے ، وہ بھی ایسے ہی بیانات دے رہے ہیں ان کی بھرپور کوشش ہے کہ اناپولیس کانفرنس کو کسی نہ کسی طور پر کامیاب کانفرنس قرار دے دیا جائے –
یہ واضح ہے کہ فلسطینی مذاکراتی ٹیم ایک ایسی جنگ میں کو دپڑی ہے جس کی اس نے کوئی تیاری نہیں کی ہے اگرچہ امور مذاکرات کا شعبہ /این اے ڈی ) موجود ہے جو پی ایل او کو جواب دہ ہے اس کے علاوہ مذاکرات امداد یونٹ (این ایس یو)بھی موجود ہے جس پر بد عنوانی اور اقرباء پروری کے الزامات کئی بار عائد کئے گئے ہیں- مذاکرات امداد یونٹ کی باضابطہ امداد  دم سمتھ انسٹی ٹیوٹ کرتاہے جو کہ لندن میں قائم دائیں بازو کا اسرائیل نواز تھنک ٹینک ہے-  آدم سمتھ انسٹی ٹیوٹ ،این ایس یو کی امداد انڈریو کوہن کے ذریعے کرتاہے کہ جس کے پاس ’’سینئر پالیسی اڈوائیز ‘‘کا سرکاری عہدہ موجود ہے –
آدم سمتھ انسٹی ٹیوٹ اپنے بارے میں کہتاہے کہ وہ مارکیٹ معیشت کے عملی اقدامات کے بارے میں تحقیق کرتاہے – پچیس برسوں میں آزاد مارکیٹوں ،پبلک سیکٹر اور آزاد تجارت کے بارے میں اس نے تحریک چلائی ہے، یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آخر اس ادارے کا فلسطینی سفارتکاروں ، مذاکرات کاروں اور حتمی حل کی تلاش کرنے والوں سے کیا تکلیف ہے –
1999ء سے این ایس یو نے یورپین عطیہ کنندگان سے کروڑوں ڈالر حاصل کئے ہیں، یہ رقم ناروے، نیدرلینڈ اور ڈنمارک نے فراہم کی ہے – این ایس یو کے عہدیداران اعلی تنخواہیں وصول کرتے ہیں اور یہ تنخواہیں پندرہ ہزار ڈالر ماہانہ تک پہنچتی ہے -این ایس یو کی کارکردگی کی آدم سمتھ انسٹی ٹیوٹ نگرانی کرتا ہے، اس کو ہدایت کی گئی ہے کہ فلسطینیوں سے کوئی رابطہ نہ رکھیں کیونکہ وہ اوسلو معاہدے کو رد کرتی ہے نیز ان لوگوں سے کوئی رابطہ نہ رکھے کہ جو اسرائیل کے بارے میں سخت رائے رکھتے ہیں –
این ایس یو نے سفارش کی کہ فلسطینی اتھارٹی مذاکرات کا غاز اس نکتے سے کرے کہ اسرئیل 4جون 1967ء کی پوزیشن پر واپس آجائے اس سے مغربی کنارے کے پانچ فیصد علاقے کا تبادلہ ہوسکے گا-یہ معاملہ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر فلسطینی اتھارٹی غیر ملکی فنڈ سے چلنے والے ادارے کے زیر اثر کیوں ہے جبکہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات جیسا اہم معاملہ درپیش ہے ، کیا فلسطین کے پاس ایسے افراد موجود نہیں ہیں کہ جو مذاکرات کرسکیں ، کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے پاس اپنا این ایس یونٹ ہو –
میں نے بیئر زیت یونیورسٹی میں پولٹیکل سائنس کے پروفیسر علی جبراوی سے اس بارے میں بات کی کہ  خر کیوں فلسطینی مذاکراتی افسروں نے اسرائیل سے 1967ء کی حدود میں واپسی کی بات سے آغاز کیا اور مہاجرین کی حالت کے بارے میں اقوم متحدہ کی قرار داد نمبر194یہ بات چیت کی اور اس کے علاوہ کوئی اور مسئلہ نہیں اٹھایا- جبراوی نے ہنستے ہوئے جواب دیا کیونکہ یہ لوگ مذاکرات کی الجبر سے بھی واقف نہیں ہیں اور بالکل نا اہل ہیں-ایک بوڑھی عورت بھی جانتی ہے کہ اپنی کسی چیز کو فروخت کرتے ہوئے کسی بھی فرد کو زیادہ سے زیادہ قیمت طلب کرنا چاہیے تب ہی ممکن ہے کہ اسے اصل قیمت مل سکے -‘‘
ان کا کہناتھا کہ مذاکرات میں انہیں 1947ء کی تقسیم کی قرار دادکو بنیاد بنانا چاہیے تھا ، اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر242اور 338 کو نہیں ، اصل مسئلے کا حل تو 1947ء میں شروع ہواتھا،امگر مسئلے کا حل بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کرنا ہے تو فلسطینی مذاکرات کاروں کو چاہیے کہ وہ اسرائیل اور دنیا کو بتادیں کے 1967ء کی سرحدیں جنگ بندی کی حدود ہیں اور مستقل سرحد نہیں ہیں – جبراوی کا نقطہ نظربالکل درست ہے – 1949ء کے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد اسرائیل کو فلسطین کے رقبے کا ستر فی صد مل گیا ، ان معاہدوں نے اسرائیل کو یہ حق دے دیا کہ 1947ء کی قرار داد نمبر 181 کے اسرائیل کو جو رقبہ دیا گیاتھا اس سے 22 فیصد زیادہ رقبہ اسے مل گیا یہ بھی واضح ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے خالصتاً فوجی نقطہ نگاہ سے کئے گئے اور اس میں سیاسی ضروریات کو مد نظر نہیں رکھا گیا تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کو کوئی حق حاصل نہیں تھا کہ جن علاقوں پر اس نے 1948ء میں تقسیم کی قرار داد کے علاوہ قبضہ کیاتھا ، قبضہ کرے-
اس سلسلے میں جنگ بندی کے معاہدہ کے  آرٹیکل 2،پیرا نمبر2میں تحریر ہے کہ اس معاہدے سے کسی بھی پارٹی کے حقوق ، دعوے اورموقف پر فرق نہیں پڑے گا- اسی طرح آرٹیکل چار پیرا گراف 9 میں کہاگیاہے کہ  ئندہ سرحد وں کے تعین یا جغرافیائی حل کے دوران یہ معاہدہ کسی صورت اثر انداز نہ ہوگا- مذکورہ بالا حوالوں کی روشنی میں یہ فلسطینی مذاکرات کاروں کے لئے ناقابل قبول نہیں ہونا چاہیے کہ اسرائیل 1947ء کے خطوط میں واپس چلا جائے –
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ فلسطینی مذاکراتی ٹیم نے ایک تباہ کن موقف اختیار کررکھاہے، اگر فلسطینی اتھارٹی موجودہ موقف برقرار رکھتی ہے تو وہ غیر معمولی دباؤ کے اندر آ جائے گی یعنی مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مشرقی بیت المدس سے اسرائیل کے مکمل انخلاء کی بجائے جزوی انخلاء پر رضا مندہوجائے گی –
اس طرح فلسطینی اتھارٹی ، فلسطینی عوام کی امنگوں پر پورا اترنے کی بجائے اسرائیل کے  گے سرتسلیم خم کرلے گی اور یہ تسلیم کرلے گی کہ 1967ء میں جن علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کیا ہے مقبوضہ علاقے نہیں ، متنازعہ علاقے میں اس اہم معاملے پر فوری طور پر زور دیا جاناچاہیے تھا لیکن فلسطینی اتھارٹی داخلی بد عنوانی کی اتنی طویل شاہراہ طے کرچکی ہے کہ اسے کسی اور معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے- مجھے یقین ہے کہ ایسے معاملات میں فوجی کمانڈروں کو ضرور شامل کرنا چاہیے کیونکہ روایتی فلسطینی سفارتکار کوئی کردار ادا کرتے نظر نہیں  ئے-اوسلو معاہدے کے بعد فلسطینیوں نے جس قدر دھوکے کھائے ہیں اس کے بعد ضروری ہوگیا ہے کہ فلسطینی اسرائیل کی سفارتکار ی سے دھوکہ نہ کھائیں-

مختصر لنک:

کاپی