مسئلہ فلسطین خطرناک موڑ پر پہنچ چکاہے- فلسطینیوں کی جانب سے مذاکرات کرنے والی ٹیم قابل اعتماد نہیں ہے- وہ سیاسی لچک کے نام پر امریکی اور اسرائیلی شرائط اور ڈکٹیشن قبول کرنے میں کسی حد تک بھی جاسکتی ہیں- ان خیالات کااظہار سابق فلسطینی وزیرداخلہ اور حماس کے رکن اسمبلی سعید صیام نے مرکز اطلاعات فلسطین کو انٹرویو میں کیا- انہوں نے غزہ میں امن و امان کی صورت حال کو قابل اطمینان قرار دیتے ہوئے کہاکہ اسرائیلی دم چھلے حماس کی حکومت کے خلاف عوام کو بھڑکانے کے لئے مختلف سازشوں میں مصروف عمل ہیں- غزہ کی پٹی کے خلاف جاری حصار بندی کا مقابلہ ثابت قدمی اور حسن کارکردگی سے کیا جائے گا- سعید صیام کے انٹرویو کا متن زائرین کے پیش خدمت ہے-
سوال: سب سے پہلے آپ کی رائے میں موجودہ حالات کس رخ پر جا رہے ہیں-؟
جواب: یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ مشرق وسطی کے علاقے میں جوہری تنازعہ مسئلہ فلسطین ہے- مسئلہ فلسطین کے خلاف اطراف سے سازشیں کی جا رہی ہیں- فلسطینی اراضی پر یہودی آبادی قائم کرنے اور متنازعہ باڑ کی تعمیر کا عمل جاری ہے- مسئلہ فلسطین اس وقت ایک خطرناک موڑ پر ہے- فلسطین کی طرف سے جس فریق نے مذاکرات شروع کئے وہ قابل اعتماد نہیں ہے- سیاسی لچک کے نام پر وہ امریکی اور صہیونی شرائط اور ڈکٹیشن قبول کرنے میں کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں-
سوال: کیا اسلامی تحریک مزاحمت (حماس ) مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ابھی تک اپنے موقف پر قائم ہے ؟
جواب: جی ہاں اس کی سب سے بڑی دلیل اسرائیل کی جانب سے حماس کے خلاف اعلانیہ جنگ ہے- حماس کے خلاف اسرائیلی جنگ کی سب سے بڑی وجہ حماس کا اصولوں پر قائم رہنا اور ایسی کوششوں کو ناکام بنانا ہے جس میں فلسطینی عوام کے حقوق اور اصولوں سے دستبرداری اختیار کی جا رہی ہو- حماس کو موقف پر قائم رہنے کی قیمت اٹھانا پڑ رہی ہے- غزہ کی پٹی کی حصار بندی جاری ہے- حماس کو دہشت گرد تنظیم اور غزہ کی پٹی کو اسرائیل کی جانب سے دشمن ریاست قرار دیا گیا ہے- یہ تمام امور اس بات کی دلیل ہیں کہ حماس فلسطینی اراضی کی حفاظت، اور اصولوں کی پاسداری کے وعدے پر قائم ہے-
سوال: حماس کا بیسواں یوم تاسیس قریب آچکاہے، کیا حماس کی پالیسیوں اور طرز تکلم میں کوئی تبدیلی آئی ہے ؟
جواب: ہماری تحریک کی کارکردگی میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہاہے اور اس کے سامنے نئے نئے میدان لگے جس کے لئے وقت کی مناسبت سے سیاسی لچک ضروری تھی لیکن اصولوں کے حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں- حماس اپنے اصولوں پر قائم ہے- حماس نے مقامی علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مقبولیت حاصل کی ہے- درحقیقت حماس نے بڑی تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں- قانون ساز اسمبلی کے انتخابات جیت کر وہ فلسطینی سیاسی نظام میں پہلے نمبر پر آگئی ہے-
سوال: حماس کے اندر اختلافات کے سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور کیا ان لوگوں کی بات سچ ہے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ حماس کے اندر اختلافات موجود ہیں اور یہ اختلافات اسلحہ کے استعمال تک پہنچ سکتے ہیں ؟
جواب: بڑے افسوس کی بات ہے کہ فتح کی قریبی ویب سائٹس اس طرح کی افواہیں پھیلا رہی ہیں- حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے- ان افواہوں کا مقصد حماس کی ساکھ خراب کرنا ہے- حقیقت یہ ہے کہ حماس ایک ادارہ ہے- اس کے فیصلے شخصی نہیں ہوتے، چند اشخاص فیصلے نہیں کرتے، البتہ داخلی طور پر ہر شخص کو رائے دینے کا حق حاصل ہے اور یہ قدرتی بات ہے کہ اختلاف رائے ہوتاہے لیکن جب حماس کا آفیشل مؤقف سامنے آتا ہے تو پھر اس سے کوئی اختلاف نہیں کرتا- وہ تحریک کے تمام افراد کا موقف ہوتاہے- حماس میں اختلافات کے حوالے سے جو کچھ شائع کیا جا رہاہے وہ بے بنیاد ہے- اس میں کوئی صداقت نہیں- عوام کو گمراہ کرنے کے لئے افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں- ہماری تحریک نے وطن کے لئے قربانیاں پیش کی ہیں- اس کے قائدین شہادتیں پیش کرتے ہیں- نام نہاد میڈیا جو افواہیں پھیلا رہاہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے-
سوال: لیکن حال ہی میں جو بیانات سامنے آئے ہیں، ان بیانات کو پڑھنے والوں کا خیال ہے کہ تحریک میں اختلافات موجود ہیں- خواہ وہ غزہ سے جاری ہوئے ہوں یا مغربی کنارے سے ؟
جواب: پہلے تو یہ بیانات حماس کی پالیسی کی نمائندگی نہیں کرتے- یہ بیانات ذاتی نوعیت کے ہیں- حماس کے موقف سے ان کاکوئی تعلق نہیں ہے- پھر بھی ہم نے ان بھائیوں سے رجوع کیا جن کی طرف سے یہ بیانات دیے گئے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ یہ بیانات ان کا انفرادی اجتہاد ہے- انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ آئندہ وہ تحریک کے صحیح موقف کو مد نظر رکھتے ہوئے بیانات دیں گے-
سوال: غزہ کی پٹی پر جاری حصار بندی کے خاتمے کے لئے حماس کیا طریقہ اپنا رہی ہے ؟
جواب: یہ بات واضح ہے کہ غزہ پر حصار بندی کا مقصد حماس کو پریشانی میں مبتلا کرنا ہے- اسے دیوار کے ساتھ لگانا ہے- فلسطینی عوام کو غزہ میں حماس کی حکومت کے خلاف بھڑکاناہے- غزہ کی اقتصادی ناکہ بندی کردی گئی ہے- مریضوں کو علاج کے لئے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے- غزہ میں خور و نوش کی اشیاء کی درآمد روک دی گئی ہے- ایسے کٹھن حالات میں حماس کا موٹو ثابت قدمی اور حسن کارکردگی دکھاناہے- پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے- ناکہ بندی کرنے والے خواہ امریکی ہوں، صہیونی ہوں یا اپنے بھائی فلسطینی ہوں اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکے ہیں- حماس فلسطینی عوام کی مشکلات کو کم کرنے اور حصار بندی کا توڑ کرنے کے لئے بین الاقوامی، علاقائی اور اسلامی ممالک سے رابطے کئے ہوئے ہے- ڈرامائی صورت حال کے حوالے سے بات قبل از وقت ہے لیکن جب بھی اس حصار بندی کے باعث فلسطینی عوام کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگا اور دھماکہ ہوگا تو اس کی قیمت حصار بندی کرنے والو ں کو چکانا ہوگی- فلسطینی عوام کے غم وغصے کا رخ داخلی نہیں ہوگا بلکہ محاصرین کی طرف ہوگا-
سوال: کیا ثابت قدمی کی بات کرنا کافی ہے، عوام پوچھتی ہے کہ یہ ثابت قدمی کب تک رہے گی ؟
جواب: ہم نے کہا ہے ثابت قدمی اور حسن کارکردگی، حماس اور اس کی حکومت شہریوں کو زندگی کی ضروریات مہیا کرنے کے لئے حتی الامکان کوشاں ہے کیونکہ اصل مسئلہ کھانے اور اس کی کوالٹی کی مقدار کا نہیں ہے بلکہ قابض اور اس کی کٹھ پتلیوں کے خلاف حقیقی جنگ ہے- ہم اصحاب حق ہیں، حق میں ہم اپنے آپ کو حصار بندی کے سپرد نہیں کرسکتے- میں نے کہا کہ حصار بندی کے نقصانات کو کم کرنے کے لئے حماس اقدامات کررہی ہے- جیساکہ اپنے ہزاروں ملازمین کو تنخواہیں مہیا کرنا جن کی تنخواہیں روک دی گئی ہیں- فلسطینی ہوتے ہوئے ہمارا تجربہ ہے کہ ہمارا صبر اور ثابت قدمی کامیابی کی طرف لے جائے گی- ہم نے ثابت قدمی اختیار کی اور غزہ کی پٹی سے قابض کو ماربھگایا-
سوال: بہت سے عوامی سروے کے نتائج اس رائے کی حمایت و تائید کرتے ہیں کہ غزہ کی پٹی کی حصار بندی کے خاتمے کے لئے حماس کو قابض صہیونی کے خلاف زور دار کارروائیاں کرنی چاہیے–
جواب: بنیادی طور پر حماس مزاحمت پر یقین رکھتی ہے- میں ان لوگوں کے جذبات کی قدر کرتاہوں جنہوں نے محاصرین کے خلاف کارروائیوں کی حمایت کی ہے- لیکن تنازعہ کے آلات صرف فدائی کارروائیاں ہی نہیں ہے- حماس دوسری مزاحمتی قوتوں کے ساتھ ہر دن شہادتیں زخمی اور گرفتاریاں پیش کررہی ہے-
قابض اسرائیل کے خلاف بالخصوص غزہ میں زبردست ضربیں لگائی گئی ہیں- حماس کے عسکری بازو القسام بریگیڈ کی کارروائیوں میں متعدد صہیونی مارے گئے ہیں- لیکن جب ہم ثابت قدمی اور حسن کارکردگی کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ داخلی سطح پر قابض حکومت کے خلاف مقابلے میں حکمت و تدبر سے کام لینا ہے-
سوال: عرب ممالک سے روابط کے حوالے سے کیا ابھی بھی عرب حکومتیں حماس اور اس کی حکومت سے تعاون کررہی ہیں ؟
جواب: جی ہاں، متعدد عرب ممالک سے ہمارے تعلقات اور روابط قائم نہیں ہوئے لیکن ان ممالک کے مخصوص حالات اور سیاسی فیصلے ہیں- ہم ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے- ہم ان ممالک کی سیاسی یا مالی امداد کا خیر مقدم کرتے ہیں-
سوال: آپ سابق وزیرداخلہ رہے ہیں، غزہ کی پٹی میں امن وامان کی صورت حال کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: میں فلسطین کی حکومت میں وزیرداخلہ رہاہوں- وزارت سے پہلے میں نے ایک عام شہری کی حیثیت سے زندگی گزاری ہے- میں واضح کرتاہوں کہ ماضی اور موجودہ حالات میں بہت فرق ہے- ماضی کی بہ نسبت صورت حال بہت بہتر ہے- سیکورٹی اہلکاروں نے بڑے کارنامے سرانجام دیئے ہیں- ان جرائم کا خاتمہ ہوا جو سالہا سال سے رونما ہورہے تھے- خاندانی مسائل حل کئے گئے ہیں- چوری کے واقعات میں بہت کمی واقع ہوئی ہے- غزہ میں منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام میں بہت کامیابی حاصل ہوئی ہے- لیکن فتح کے بعض شرپسند مسائل پیدا کرکے اور دھماکے کرکے اس صورت حال کو مسخ کرنے کی سازش میں مصروف ہیں- ان شرپسندوں کا مقصد فلسطینی پولیس کے اہلکاروں کو نقصان پہنچانا اور یہ تاثر پیدا کرنا ہے کہ غزہ میں امن و امان کی صورت حال خراب ہے- متعدد شرپسندوں کو گرفتار کرلیا گیاہے- غزہ میں رہنے والے غیر ملکی محفوظ زندگی کے احساس کا اقرار کرتے ہیں- بد امنی پھیلانے والوں کے خلاف بڑی ذمہ داری کے ساتھ کارروائی کی جارہی ہے- لہذا ماضی اور موجودہ حالات میں بہت فرق ہے-
سوال: دھماکے کرنے والوں اور بد امنی پھیلانے والوں کو گرفتار کرنے کے بعد وزارت داخلہ ان سے کیا سلوک کرتی ہے ؟
جواب: تفتیش کے بعد مجرم کے جرم کے مطابق اسے انہیں سول یا فوجی عدالت میں منتقل کردیا جاتا ہے- حال ہی میں ایک گروہ کے خلاف عدالتی کارروائی مکمل ہوئی ہے- مجرموں کے مزید گروہوں کو فوجی عدالت میں منتقل کیا جا رہاہے-
سوال: غزہ میں سابق فلسطینی صدر مرحوم یاسرعرفات کی برسی کے موقع پر ہونے والے نا خوشگوار واقعات کے حوالے سے بات کریں جس میں متعدد شہری جاں بحق ہوئے اور بیسیوں زخمی ہوئے، پولیس پر الزام ہے کہ اس نے یاسرعرفات کی برسی کی تقریب پر گولی چلائی تھی، آپ کا کیا ردعمل ہے ؟
جواب: سب سے پہلے تو ہم بڑے فخر سے یہ بات کہتے ہیں کہ آج سے پہلے غزہ میں فتح نے اتنی سہولتوں اور کامیابی سے کبھی تقریب کا انعقاد نہیں کیا- پولیس نے انہیں مکمل سہولتیں فراہم کیں- بعد میں فائرنگ کے واقعے نے فضا مکدر کردی- ہم نے پوری ذمہ داری کے ساتھ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے- کمیٹی نے کام شروع کردیا ہے- کمیٹی کی رپورٹ آنے سے پہلے میں کچھ کہنا نہیں چاہتا- تقریب میں فتح کے افراد کے پاس اسلحہ تھا وہ تقریب کے اندر اور باہر موجود تھے- کمیٹی کی حتمی رپورٹ آنے تک کچھ نہیں کہا جاسکتا- ہم دلیری سے کمیٹی کی رپورٹ کا اعلان کریں گے- اگر واقعہ کی ذمہ داری پولیس ہوئی تو اس کا اعلان بھی کریں گے اور ذمہ داران کا محاسبہ بھی کریں گے- اگر پولیس کے علاوہ کوئی اور ذمہ دار ہوا تو اس کا بھی وضاحت سے اعلان کریں گے- حقائق تک پہنچنے کے لئے جلسے کی ویڈیو کا غور سے مشاہدہ کیا جارہاہے-
سوال: فلسطینی صدر محمود عباس نے حماس سے مذاکرات کے لئے سیکورٹی فورسز کو پرانی پوزیشن پر لانے کی شرط عائد کی ہے- کیا آپ نے ان سے وضاحت طلب کی ہے-؟
جواب: سب سے پہلے تو ہم غیر مشروط مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں- سیکورٹی فورسز کو پہلی پوزیشن پر لانے والی بات کو کوئی فلسطینی شہری قبول نہیں کرتا- سیکورٹی فورسز کو پہلی پوزیشن پر لانے کا کیا مطلب ہے- کیا سیکورٹی فورسز کے دفاتر اور عمارتیں ہیں اور وہ کس کے سپرد کی جائیں گی- ہم ہوا میں کوئی اقدام قبول نہیں کریں گے- ہم سیکورٹی فورسز اور اس کی قیادت کو دفاتر سپرد کرنے کے حق میں ہیں- یہ سیکورٹی فورسز فلسطینی قومی اتفاق سے تشکیل دی جائیں-
مذاکرات کے آغاز کا فیصلہ امریکیوں اور صہیونیوں کے ہاتھ میں ہے- محمود عباس تو بعض شرائط عائد کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش میں ہے کہ وہ فیصلے کا اختیار رکھتے ہیں- لیکن حماس مذاکرات سے انکاری ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے- ہمیں ادراک ہے کہ شرائط تو ایک دکھاوا ہیں- فیصلے کا اصل اختیار امریکہ اور اسرائیل کے پاس ہے- ایک عرب ملک نے محمود عباس سے کہاکہ حماس تو مذاکرات کے لئے ہاتھ کھولے ہوئے ہے، آپ مذاکرات سے کیوں انکار کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ امریکیوں کو قائل کریں-
سوال: آپ کا کیا خیال ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس مشرق وسطی امن کانفرنس کے بعد اب حماس سے مذاکرات کریں گے ؟
جواب ہم مذاکرات کی بھیک نہیں مانگتے- ہم جلدی میں نہیں ہیں- فلسطینیوں کے آپس میں مذاکرات فلسطینیوں کے صہیونیوں سے مذاکرات سے زیادہ ضر وری ہیں- اس کے باوجود فلسطینی قومی مفاد کی خاطر ہر موضوع پر بات ہوسکتی ہے- جس بات میں فلسطینی عوام کا فائدہ ہو ہم اس معاملے میں کسی حد تک لچک پیداکرنے کے لئے تیار ہیں
سوال: حماس کے کنٹرول اور اس کے خلاف اسرائیلی جنگ کے تناظر میں غزہ کے مستقبل کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: خواہش ہے کہ غزہ میں حالات خراب کئے جائیں- اسرائیل اپنے حواریوں کے ذریعے غزہ میں انتشار پھیلانے میں کامیاب بھی ہوا ہے اور حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ غزہ کو مغربی کنارے سے الگ ہونا پڑا- لیکن ہم مغربی کنارے کو غزہ سے علیحدہ کرنے کی بات نہیں کرتے- ہم جغرافیائی وحدت کی بات کرتے ہیں- ہم اس تقسیم کو مسترد کرتے ہیں- لیکن ہر حال میں فلسطینی عوام نے غزہ کو قابض صہیونی اور اس کے دم چھلوں سے پاک کیا ہے- فلسطینی عوام چیلنجز اور مشکلات کا سامنا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے- ہمیں اللہ پر یقین ہے کہ وہ ہماری قوم کے لئے مشکل کے بعد آسانی پیدا کرے گا اور حصار بندی کرنے والوں اور ان کا ساتھ دینے والوں پر غلبہ نصیب فرمائے گا-
