یہودیوں کی جانب سے اسرائیل کو بطور ’’یہودی ریاست‘‘ تسلیم کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے- دوسری جانب 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں مقیم فلسطینیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے-
مقبوضہ فلسطین میں عوامی نمائندوں اور سماجی و سیاسی جماعتوں نے یہودی ریاست کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے- مقبوضہ علاقوں میں ایک سماجی تنظیم ’’ابناء البلد‘‘ کے سیکرٹری جنرل رجاشحادہ نے عرب خبر رساں ادارے ’’قدس پریس‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ عرب ممالک اور فلسطینی حکومت کی کمزوریوں کے باعث اسرائیل کو یہودی ریاست بنانے کا نظریہ زور پکڑتا جارہا ہے- عالمی برادری عرب ممالک اور تنظیم آزادئ فلسطین اسرائیل کو تسلیم کرچکی ہے تاہم اسے بطور یہودی ریاست فی الحال تسلیم نہیں کیا گیا- انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کی جانب سے اسرائیل کو یہودی ریاست قرار دینے کے دو مقاصد ہیں- ایک مقصد فلسطینیوں کو حق واپسی سے محروم کرنا اور دوسرا 1948ء کے فلسطین میں مقیم فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کرنا ہے-
اسرائیل اپنے ان دونوں مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے فلسطینی اتھارٹی اور صدر عباس کو استعمال کرتے ہوئے قانون جواز فراہم کرنا چاہتا ہے- ڈاکٹر شحادہ نے کہا کہ انہوں نے مقبوضہ فلسطین کی دیگر جماعتوں سے مل کر اسرائیل کو بطور یہودی ریاست تسلیم کرانے کا راستہ روکنے کے لیے متفقہ لائحہ عمل تیار کیا ہے- اس سلسلے میں وہ اسرائیلی، حکومت فلسطینی اتھارٹی، عرب لیگ، اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے دیگر اداروں سے بھی رابطہ کر کے یہودی ریاست کے نقصانات سے آگاہ کریں گے-
اسرائیل کے 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں موجود فلسطینی کل آبادی کا 20 فیصد ہیں- اسرائیل اگر خود کو ایک یہودی ریاست تسلیم کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ فلسطینی اقلیت کے خلاف نسلی امتیاز کی ایک طویل جنگ کا آغاز کرے گا جو خطے میں مزید بدامنی کا باعث بنے گی- اولمرٹ اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کرا کر فلسطین سے انتقام لینا چاہتے ہیں-
1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں قائم عربوں کی سپریم کمیٹی کے سربراہ اور اسرائیلی کنیسٹ کے رکن محمد برکہ نے کہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اسرائیل کو یہودی ریاست بنانے کے منصوبے پر کام کررہے ہیں- ایک پریس بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ خطے میں قیام امن کی کوششوں باہمی مذاکرات فلسطینی ریاست کے قیام اور دیگر متنازعہ معاملات کے حل کو اسرائیلی ریاست کے تسلیم کرنے سے مشروط کرنا فلسطینیوں کے خلاف خطرناک سازش ہے- اسرائیل اس سازش کے ذریعے نہ صرف فلسطینیوں کے حق واپسی کو ختم کرنا چاہتا ہے بلکہ وہاں موجود بیس فیصد فلسطینیوں کو بے گھر کرنا چاہتا ہے- یہودیوں کے مطالبے میں اب امریکہ بھی اس کا ہمنوا بن گیا ہے-
حال ہی میں امریکہ میں منعقدہ مشرق وسطی امن کانفرنس میں بھی صدر بش نے اسرائیل کو بطور یہودی ریاست تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا-مقبوضہ فلسطین میں فلسطینیوں کی تنظیم ’’پیس اینڈ ڈیموکریٹک فرنٹ‘‘ کے چیئرمین محمد نفاع نے کہا کہ یہودی ریاست کو تسلیم کرنا اسرائیل میں یہودی نسل پرستی کو فروغ دینا ہے- انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کرنا فلسطینی عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے-
مقبوضہ فلسطین میں عوامی نمائندوں اور سماجی و سیاسی جماعتوں نے یہودی ریاست کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے- مقبوضہ علاقوں میں ایک سماجی تنظیم ’’ابناء البلد‘‘ کے سیکرٹری جنرل رجاشحادہ نے عرب خبر رساں ادارے ’’قدس پریس‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ عرب ممالک اور فلسطینی حکومت کی کمزوریوں کے باعث اسرائیل کو یہودی ریاست بنانے کا نظریہ زور پکڑتا جارہا ہے- عالمی برادری عرب ممالک اور تنظیم آزادئ فلسطین اسرائیل کو تسلیم کرچکی ہے تاہم اسے بطور یہودی ریاست فی الحال تسلیم نہیں کیا گیا- انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کی جانب سے اسرائیل کو یہودی ریاست قرار دینے کے دو مقاصد ہیں- ایک مقصد فلسطینیوں کو حق واپسی سے محروم کرنا اور دوسرا 1948ء کے فلسطین میں مقیم فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کرنا ہے-
اسرائیل اپنے ان دونوں مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے فلسطینی اتھارٹی اور صدر عباس کو استعمال کرتے ہوئے قانون جواز فراہم کرنا چاہتا ہے- ڈاکٹر شحادہ نے کہا کہ انہوں نے مقبوضہ فلسطین کی دیگر جماعتوں سے مل کر اسرائیل کو بطور یہودی ریاست تسلیم کرانے کا راستہ روکنے کے لیے متفقہ لائحہ عمل تیار کیا ہے- اس سلسلے میں وہ اسرائیلی، حکومت فلسطینی اتھارٹی، عرب لیگ، اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے دیگر اداروں سے بھی رابطہ کر کے یہودی ریاست کے نقصانات سے آگاہ کریں گے-
اسرائیل کے 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں موجود فلسطینی کل آبادی کا 20 فیصد ہیں- اسرائیل اگر خود کو ایک یہودی ریاست تسلیم کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ فلسطینی اقلیت کے خلاف نسلی امتیاز کی ایک طویل جنگ کا آغاز کرے گا جو خطے میں مزید بدامنی کا باعث بنے گی- اولمرٹ اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کرا کر فلسطین سے انتقام لینا چاہتے ہیں-
1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں قائم عربوں کی سپریم کمیٹی کے سربراہ اور اسرائیلی کنیسٹ کے رکن محمد برکہ نے کہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اسرائیل کو یہودی ریاست بنانے کے منصوبے پر کام کررہے ہیں- ایک پریس بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ خطے میں قیام امن کی کوششوں باہمی مذاکرات فلسطینی ریاست کے قیام اور دیگر متنازعہ معاملات کے حل کو اسرائیلی ریاست کے تسلیم کرنے سے مشروط کرنا فلسطینیوں کے خلاف خطرناک سازش ہے- اسرائیل اس سازش کے ذریعے نہ صرف فلسطینیوں کے حق واپسی کو ختم کرنا چاہتا ہے بلکہ وہاں موجود بیس فیصد فلسطینیوں کو بے گھر کرنا چاہتا ہے- یہودیوں کے مطالبے میں اب امریکہ بھی اس کا ہمنوا بن گیا ہے-
حال ہی میں امریکہ میں منعقدہ مشرق وسطی امن کانفرنس میں بھی صدر بش نے اسرائیل کو بطور یہودی ریاست تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا-مقبوضہ فلسطین میں فلسطینیوں کی تنظیم ’’پیس اینڈ ڈیموکریٹک فرنٹ‘‘ کے چیئرمین محمد نفاع نے کہا کہ یہودی ریاست کو تسلیم کرنا اسرائیل میں یہودی نسل پرستی کو فروغ دینا ہے- انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کرنا فلسطینی عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے-