امریکہ میں مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے ہونے والی کانفرنس اس اعلان کے ساتھ ختم ہوگئی ہے کہ فلسطینی اور اسرائیلی رہنما آج سے وائٹ ہاؤس میں نئے امن مذاکرات کا آغاز کریں گے۔اسرائیل اور فلسطین دونوں اگلے برس کے خاتمے تک مشرقِ وسطیٰ میں امن کی خاطر ایک جامع معاہدے کے لیے مذاکرات پر رضا مند ہوگئے ہیں۔
اس پیشرف کے بارے میں اخبار نویسوں کو امریکی سیکریٹری خارجہ کونڈولیزا رائس نے واشنگٹن کے قریب اناپولیس میں منعقدہ کانفرنس کے بعد آگاہ کیا۔ کانفرنس میں فلسطین کے صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیرِ اعظم ایہود اولمرت شریک تھے۔
اس سے قبل امریکی صدر جارج بش نے کہا تھا کہ دونوں فریق اگلے برس کے آخر تک امن کا ایک جامع معاہدہ کرنے کے پابند ہیں۔مشرقِ وسطیٰ امن کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے صدر جارج بش نے کہا مذاکرات کے دوران وہ تمام حل طلب مسائل جو فریقین کے درمیان موجود ہیں زیرِ بحث لائے جائیں گے۔محمود عباس نے کہا کہ مذاکرات میں مہاجرین کے مستقبل اور یروشلم کے فلسطینی ریاست کے دارالخلافے کی حیثیت پر ہر قیمت پر بات ہونی چاہیے۔اسرائیلی وزیرِ اعظم ایہود اولمرت کا کہنا تھا کہ اسرائیل امن کے لیے ’سمجھوتے‘ پر تیار ہے۔
اس کانفرنس میں چالیس سے زیادہ ممالک کے سفارت کار اورکئی بین الاقوامی اداروں کے نمائندے شامل ہیں۔ ایک موقع پر صدر بش سٹیج سے ذرا پیچھے ہوگئے تاکہ اسرائیلی اور فلسطینی رہنما ہاتھ ملائیں۔جانبین کے درمیان اتفاقِ رائے کے نتیجے میں تیار ہونے والا ایک بیان پڑھتے ہوئے صدر بش نے کہا ’ہم اگلے برس کے خاتمے سے قبل مذاکرات پر متفق ہوگئے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ مذاکرات کی ابتدا بارہ دسمبر سے ہوگی اور ہر دو ہفتے بعد اجلاس ہوا کریں گے۔
انہوں نے کہا ’میں اپنی مدتِ صدارت کا باقی حصہ (جنوری دو ہزار نو تک) ایک آزاد اور جمہوری فلسطینی ریاست کے لیے وقف کر دوں گا۔‘ انہوں نے کہا کہ ایسی فلسطینی ریاست سے اسرائیلیوں کو بھی اس خواہش کے حصول میں مدد ملے گی جس کی کوشش وہ نسل در نسل کر رہے ہیں یعنی اپنے ہمسایے کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی۔ایہود اولمرت نے کہا کہ جانبین کے درمیان تمام متنازع معاملات پر بات کی جائے گی اور اسرائیل نئی فلسطینی ریاست میں فلسطینی مہاجرین کو نیا مستقبل تلاش کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔
