نسل پرست اسرائیلی ریاست اپنے غیر یہودی شہریوں کے خلاف امتیازی اور جابرانہ سلوک روا رکھے ہوئے ہے اور یہودیوں کی بھرپور کوشش ہے کہ محمود عباس کی کمزور حکومت کو مجبور کردیا جائے کہ وہ اسرائیلی ریاست کو ’’خالصتاً یہودی ریاست ‘‘ کے طور پر تسلیم کرلے-
چند اسرائیلی حکام نے یہودیوں کی ریاست ، یہودیوں کے لئے، یہودیوں کے ذریعے کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے- اسرائیلی وزیراعظم ایہو د اولمرٹ کایہ بیان اخبارات میں آچکا ہے کہ اسرائیل اس وقت تک مغربی کنارے میں ممکنہ فلسطینی ریاست کو تسلیم نہ کرے گا جب تک فلسطین’’اسرائیل کو یہودی ریاست ‘‘ کے طور پر تسلیم نہ کریں-
اسرائیلی میڈیا عالمی برادری کو یہ نہیں بتاپایا کہ ان کے نزدیک ’’یہودی ریاست سے کیا مراد ہے- ‘‘شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ وہ اس تصور کے ساتھ ملحق قوم پرستی اور نسل پرستی کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں- لیکن اس اصطلاح کا معنی ان لوگوں پر خوب اچھی طرح واضح ہے کہ جو اسرائیلی ذہن سے آگاہی رکھتے ہیں-
’’یہودی ریاست ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کو یہ پیدائشی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے غیر یہودی شہریوں کے خلاف امتیازی سلوک کرسکے خصوصاً فلسطینی اقلیت کے ساتھ اور اگر ضرورت پڑے تو انہیں اسرائیل سے نکال باہر کیا جائے تاکہ اسرائیل کی ’’یہودیت والی شناخت برقرار رہے- ‘‘
دیگر الزام میں اسرائیل صرف یہ چاہتاہے کہ فلسطینی قیادت کے ذریعے تسلیم کرلیا جائے اور اس کے بعد اپنی مسلم اور مسیحی آبادی کے خلاف نسل کشی (Ethnic Ckansing) شروع کردے تاکہ اسرائیل صرف اور صرف یہودی ریاست کے طور پر رہ سکے-
اسرائیل اپنی غیر یہودی آبادی کے حقوق سے سراسر نا آشنا ہیں- اسرائیلی قائدین بارہا اعلان کرچکے ہیں کہ اسرائیل یہودی ملک بھی ہے اور جمہوری ملک بھی ہے لیکن یہ کہنا ایسا ہی کہ جیسے کوئی کہے کہ نسل پرستی جمہوریت کے برابرہے-
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل بیک وقت تالمود پر اور جمہوریت پر عمل پیرا نہیں ہوسکتا یہودیت، تالمود، ایک دوسرے سے یکساں مختلف ہیں اور کسی شائستہ تقریب میں اس کو حاضرین کے سامنے پیش نہیں کیا جاسکتا- اس کی وجہ واضح ہے، اسرائیل یا اسرائیل سے باہر رہنے والے کسی یہودی سے دریافت کریں کہ وہ پہلے ’’جمہوری ‘‘ بننا پسند کرے گا یا پہلے ’’یہودی ‘‘ آپ کو واضح جواب مل جائے گا کہ ’’یہودی ‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت کا راستہ صرف اس لئے اختیار کیاگیا ہے تاکہ ’’یہودی ریاست ‘‘ کے فاشسٹ چہرے کی بدنمائی کو چھپایا جاسکے- اس مسئلے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اسرائیل کا مسلسل اصرار ہے کہ اسے صرف اور صرف یہودی ریاست کے طور پر اس سے معاملہ کیا جائے یہ اس لئے ضروری ہے تاکہ لاکھوں کے حساب سے دوسرے ملکوں میں پھیلے ہوئے یہودیوں کی وطن واپسی کا مسئلہ کبھی بھی سر نہ اٹھاسکے- اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل، نسلی تطہیر کو فروغ دینا چاہتاہے اور تاریخ کی سب سے بڑی بد عنوانی کامرتکب ہونا چاہتاہے- اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ فلسطینی عوام کے دہرے قتل عام کے لئے قانونی جواز فراہم کردیا جائے-
سب سے پہلے بات یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسرائیل کا یہ حق تسلیم کررہے ہیں کہ وہ اپنے تمام یا کثیر عرب شہریوں کو جلا وطن کرسکتاہے یا ایسے اقدامات کرسکتاہے جن سے عربوں کی آبادی کم رہے اور اسرائیل بطور ایک یہودی ریاست آبادی کا توازن برقرار رکھ سکے-
اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ جن فلسطینیوں کو اپنے گھر بار سے نکال باہر کیاگیاہے انہیں اپنے گھروں، دیہاتوں اور شہروں میں واپس آنے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ وہ تو اب اسرائیل ہے- دیگر الفاظ میں اسرائیل کی منشا یہ ہے کہ اسرائیل میں لسانی و نسلی تطہیر کا عمل مکمل ہوجائے- اسی بنا پر یہ سوال پیدا ہوسکتاہے کہ کیا فلسطینیوں کے لئے اس سے بڑا بھی کوئی حادثہ ہوسکتاہے ؟
اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کے دیگر نتائج حسب ذیل ہوسکتے ہیں-
1- صرف ’’یہودیوں‘‘ کو اسرائیل کے مکمل شہری سمجھا جائے اور اگر کوئی غیر یہودی اسرائیل کا مکمل شہری بننا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہوجائے گا کہ وہ یہودیت کو تسلیم کرلے- یہ وہی صورت حال ہے جس کا قرون وسطی کے کے یورپ میں یہودی سامنا کرتے رہے ہیں، ان کو عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کیا جاجاتا رہا، انہوں نے برابری کا مقام اور معاشرے میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے کیا-
2- اسرائیلی شہریت اس کا مطلب ہے کہ تمام شہریوں کے لئے یکساں حقوق کی علمبردار نہیں ہے چونکہ اسرائیل کو ’’یہودی ریاست‘‘ قرار دیا گیا ہے، اس لئے اس کے شہری ہونے کے تمام فوائد کو تسلیم کرنے کے لئے ضرو ری ہے کہ وہ یہودی بن جائے-
3- جب بھی یہودیوں اور اسرائیل کے جمہوری پہلوؤں کے بارے میں بات چیت ہوگی- یہودی عنصر غالب آجائے گا اور جمہوری عنصر پیچھے رہ جائے گا-
4- دنیا بھر کے یہودی نیز، یہودیت قبول کرنے والے ممکنہ افراد اسرائیلی شہری ہیں جنہیں قومی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے، خصوصاً اس وقت غیر یہودی سیاست میں غالب آجائیں- اسرائیل کویہودی ریاست تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کی مجرمانہ تاریخ کو اخلاقی جواز دے دیا جائے خصوصاً ان فلسطینیوں کے قتل عام کا جن کو اپنے آبائی وطن سے نکال دیا گیا ہے-
ان تمام دلائل سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی موثر انداز میں صہیونی بالادستی اور حکمرانی کو تسلیم کرنے کا اعلان کررہی ہے- اس کا ایک اور مطلب یہ ہوگا کہ صہیونی بالادستی اورصہیونی نسل پرستی کو تسلیم کرلیا جائے تاکہ فلسطینی، صہیونی عربوں میں اسی طرح تبدیل ہوجائیں جس طرح مسیحی صہیونی پائے جاتے ہیں-
انہی وجوہات کی بنا پر سورج کی روشنی میں کوئی بھی شخص یہ نہ چاہے گا کہ اسرائیل کو یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کرے- یہ بنیادی اخلاقیات اور بنیادی انسانی شرافت کی سراسر خلاف ورزی ہوگا- اگر بلیک میل اور جبر و تشدد کے ذریعے اس کو تسلیم بھی کرلیا جائے تب بھی فلسطینیوں کی اکثریت اسے جبری شادی ہی قرار دیا جائے گا جوکہ صرف ’’عصمت دری ‘‘ کے متراد ف ہی ہوتاہے-
