چهارشنبه 30/آوریل/2025

مغربی کنارے سے حماس کی منتخب رکن پارلیمنٹ منی منصور کا انٹرویو

اتوار 18-نومبر-2007

دنیا میں کسی بھی ملک کی پارلیمنٹ کا رکن بننا اس ملک کے شہری کا خواب ہوتا ہے – رکن پارلیمنٹ کو وہ مراعات اور خصوصیات حاصل ہوجاتی ہیں جس کا اس نے سوچا بھی نہیں ہوتا-
 اسے ہر طرح کا تحفظ حاصل ہوجاتا ہے لیکن اگر رکنیت فلسطینی قانون ساز اسمبلی کی ہے،  رکن اسمبلی کا تعلق اسلامی تحریک مزاحمت حماس سے ہے اور اس کا حلقہ انتخاب مغربی کنارہ ہے جہاں پر اسرائیلی افواج شہری حقوق تہہ و بالا کررہی ہے اور فلسطینی صدر محمو دعباس کو براہ راست جواب دہ سیکورٹی فورسز ان کی ممد و معاون بنی ہوئی ہے تو اس رکن پارلیمنٹ کو مراعات حاصل نہیں ہوتیں بلکہ فلسطینی عوام کے نمائندہ ہونے کی سزا دی جاتی ہے –
منی منصور مغربی کنارے سے فلسطینی قانون ساز اسمبلی کی رکن ہیں – وہ حماس کے شہید رہنما جمال منصور کی بیوہ ہیں – جمال منصور کو چھ سال قبل اسرائیلی حکومت نے شہید کردیاتھا – فلسطینی اتھارٹی کی مخالفانہ پالیسیوں اور اسرائیلی دباؤ کے باوجو منی منصور نے اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائے – وہ حماس کے ان بیسیوں ارکان پارلیمنٹ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے کوشاں ہیں جنہیں اسرائیل نے پس دیوار زنداں کر رکھا ہے- وہ فلسطینی عوام میں سرگرم عمل ہیں- مرکز اطلاعات فلسطین نے اسرائیلی اور فلسطینی سیکورٹی فورسز کی ہم  آہنگی سے مسئلہ فلسطین اور فلسطینی قومی وحدت کو پہنچنے والے نقصانات اور حماس کی حکومت کے خلاف کی جانے والی مشترکہ اسرائیل امریکی فلسطینی سازشوں کے حوالے سے انٹرویو کیا ہے – انٹرویو کا متن زائرین کے پیش خدمت ہے – واضح رہے کہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے حماس کی حکومت کو ناکام بنانے کی سازش کے بعد غزہ کی پٹی میں مکمل طور پر حماس کا کنٹرول ہے – مغربی کنارے میں فلسطینی صدر محمود عباس کی حکومت ہے جبکہ عملی طور پر اسرائیلی افواج کا قبضہ ہے –
سوال : آپ کو فلسطینی عوام نے منتخب کیا ہے- فلسطینی قانو ن ساز اسمبلی کی رکن کی حیثیت سے  آپ کا تجربہ کیسا رہاہے
جواب: میں پہلی دفعہ پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئی ہوں – میری زندگی میں یہ ایک نیا تجربہ ہے جو محنت ، کاوش ، تفریح اور جدوجہد سے بھرپور ہے – اس دوران مجھے ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کا میں نے زندگی میں سوچا تک نہ تھا- اسمبلی میں پہلے دن سے لے کر  آج تک ہمیں غیر متوقع واقعات کا سامنا ہے – بد قسمتی سے ان میں سے اکثر ناخوشگوار واقعات ہیں-
شروع میں انتہائی جذبے، محنت، سرگرمی اور سنجیدگی سے کام کیا- پارلیمنٹ کے ذریعے ہم فلسطینی عوام کی  آواز دنیا تک پہنچانے کے لئے کام کرتے لیکن ابھی ہم نے کام شروع کیا ہی تھا کہ فتح والوں نے ناک چڑھانا شروع کردیا- انھوں نے اسمبلی کے اجلاس کابائیکاٹ کردیا- ہمارے لئے یہ ایک غیر متوقع اقدام تھا- ہم پر طرح طرح کے دباؤڈالے گئے- پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران فتح کی طرف سے اسمبلی کی عمارت کو جلانے کی کوشش کی گئی – مسلح فلسطینیوں نے ارکان اسمبلی کو اغوا کیا – ہمیں رام اللہ میں بعض مسلح افراد کی جانب سے ایک عمارت میں محاصرے میں رکھاگیا – ہمیں سب سے بڑا مشکل مرحلہ 42ارکان پارلیمنٹ کی گرفتاری کا پیش  آیا – فتح کے ارکان نے پارلیمنٹ کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہواتھا- ہمارے ارکان گرفتار کرلئے گئے – اسمبلی کے اجلاس کے لئے کورم پورا نہیں ہوتاتھا- یہ وہ سب سے بڑا مسئلہ تھا جو پارلیمنٹ کے کام میں رکاوٹ بنا-
ہم نے ضلعوں میں قائم اپنے دفاتر میں پوری طاقت سے کام شروع کردیا- میری ذمہ داری شمال مغربی کنارے کے علاقے میں تھی – شمال مغربی کنارے کے حماس کے تمام ارکان اسرائیلی جیلوں میں بند تھے – اتنی بڑی ذمہداری، مشقت اور کاوش کے باوجود میں اپنے کام میں تفریح محسوس کرتی تھی- لیکن اب جب سے فتح کے مسلح افراد نے مغربی کنارے میں حماس کے تمام دفاتر جلا دیئے ہیں اور تباہ کردیئے ہیں – ہمارے لئے کام میں بہت مشکلات پیدا ہوگئی ہیں –
مغربی کنارے میں فلسطینی صدر محمود عباس نے سلام فیاض کی وزارت عظمی میں ایمرجنسی حکومت تشکیل دی ہے- حکومت کی پارلیمنٹ سے منظوری کے لئے فلسطینی صدر نے اسمبلی کا اجلاس بلایا- حماس کے تمام ارکان اجلاس میں شرکت کے لئے  آئے لیکن جنہوں نے اجلاس بلایاتھا وہ خود نہیں  آئے – اب ہم مغربی کنارہ میں ایک ایسی حکومت کے ساتھ کام کررہے ہیں جسے پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل نہیں ہے اور یہی بات شہریوں کے مسائل حل کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے –
میرا خیال نہیں ہے کہ جو مشکلات ہمیں پارلیمنٹ چلانے میں پیش  آئی ہیں دنیا کی کسی بھی پارلیمنٹ پہ ایسے حالات  آئے ہوں – بحیثیت خاتون میں اپنی زندگی کی بڑی کٹھن  آزمائشوں اور مشکلات سے گزررہی ہوں – میرے شوہر نے اسرائیلی اور فلسطینی اتھارٹی کی جیلیں کاٹیں، ہمیشہ ان کا پیچھا کیا جاتا رہا- بالآخر وہ شہید کردیئے گئے – لیکن گزشتہ ایک سال جو میں نے رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے گزارا ہے – اس میں مجھے جن  آزمائشوں اور مصیبتوں سے گزرنا پڑا ہے وہ بیس سال پر بھاری ہے – اس میں کوئی شک نہیں ہے رکن پارلیمنٹ کا تجربہ انتہائی مشکل تجربہ تھا-
سوال: ان تکلیف دہ اور شوارگزار حالات میں بحیثیت رکن پارلیمنٹ اب  آپ کے کام کی کیا نوعیت ہے؟
جواب: میں ذاتی طور پر لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے کوشاں ہوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور بیرونی میڈیا سے رابطے کرتی ہوں- ہماری کوشش ہے کہ اپنے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے زمینی حقائق اور فلسطینیوں کی حالت زار دنیا تک پہنچائی جائے- میں خیراتی تنظیموں، اداروں سے رابطے کرتی ہوں-معذوروں، نابیناؤں اور محتاجوں سے ملتی ہوں اور ان کی مدد کرنے کی کوشش کرتی ہوں – لوگوں کی خوشی اور غمی میں شریک ہوتی ہوں – ہم سیاسی قیدیوں سے ملاقاتوں کے لئے جاتے تھے لیکن اب مجھے قیدیوں سے ملاقات کرنے نہیں دی جاتی-
مجھے ذاتی طور پر یورپی یونین میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے – یہ پہلا موقع ہے کہ فتح کے علاوہ کسی اور فلسطینی گروپ کو دعوت دی گئی ہو – لیکن میرا پاسپورٹ حکومت نے ضبط کیا ہوا ہے – میں سفر نہیں کرسکتی – ترکی میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت ہے لیکن شریک نہیں ہوسکوں گی –
سوال: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حماس سیاسی ناتجربہ کاری کا شکار ہوئی ہے،  آپ اس بارے میں کیا کہیں گی ؟
جواب :حماس سیاسی طور پر ناتجربہ کار نہیں ہے – لیکن اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ سیاسی مہارت کا مطلب حقوق اور اصولوں سے دستبرداری ہے تو حماس فلسطینی عوام کے حقوق اور اصولوں کا کبھی سودا نہیں کرے گی- حماس کی حکومت کو ناکام بنانے کے لئے اول دن سے ہی سازشیں شروع کردی گئیں تھیں- امریکی اسرائیلی سازش تھی کہ حماس کی حکومت چلنے نہ پائے – اس سازش میں ہمارے بھائی شریک تھے – ملازموں کی تنخواہیں روک لی گئیں – محصولات بند کردیئے گئے ، زندگی مفلوج کردی گئی – حماس کا یہ حال تھا کہ گویا ہر طرف سے اس کا گلا گھوٹنے کی کوشش کی گئی –
سوال: فلسطینی اراضی میں جو کچھ ہو رہاہے  آپ اس بارے میں کیا کہیں گی، مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے درمیان ہم  ہنگی اور غزہ کی ناکہ بندی جار ی ہے ؟
جواب: مغربی کنارے میں خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے بالخصوص فلسطینی سیکورٹی فورسز اور اسرائیلی افواج کے درمیان ہم  ہنگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی – سیاسی قیدیوں کو فلسطینی سیکورٹی فورسز کی گاڑیوں میں اسرائیلی رکاوٹوں کے ذریعے منتقل کیا جاتا ہے- اسرائیل فلسطینیوں کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ طاقت سے فلسطینی عوام کے خلاف جارحانہ کارروائیاں کررہا ہے – ایک طرف اسرائیلی افواج گرفتاریاں کررہی ہے تو دوسری طرف فلسطینی سیکورٹی فورسز شہریوں کو جیلوں میں بند کررہی ہے – فلسطینی خود اسرائیل کے ہاتھ میں کھلونا بن گئے ہیں – قبل ازیں 1996ء میں بھی ایک فوجی ہم  آہنگی ہوئی تھی – حماس ابھی تک زخموں پر مرہم لگانے میں مصروف ہے تاکہ قومی وحدت کی حفاظت کی جاسکے –
فلسطینی صدر محمود عباس فلسطینیوں کے عدم اتفاق سے مجوزہ مشرق وسطی امن کانفرنس میں جائیں گے اور وہ اسرائیل کے شکنجے میں  جائیں گے – اسرائیل سے مذاکرات کرنے میں طاقت کا عنصر ہونا بہت ضروری ہے- داخلی اختلافات کے باوجود کانفرنس میں شرکت محمود عباس کی بہت بڑی کمزوری ہوگی –
سوال:گزشتہ دنوں میں  آپ کو بہت دھمکیاں ملی ہیں – کیا آپ نے کوئی قانونی اقدامات کئے ہیں؟ رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے سرکاری طور پر آپ کوکوئی تحفظ فراہم کیاگیا ہے؟
جواب :جامعہ نجاح کی اسلامی جمعیت طالبات کی حمایت، حق بات کہنے، حقیقت سامنے لانے اور درست موقف اختیار کرنے کی وجہ سے مجھے دھمکیاں دی گئی ہیں- میں نے دھمکیاں اور گالیاں دینے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی ہے لیکن مغربی کنارے کے موجودہ حالات کے باعث کوئی وکیل میری وکالت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے- جو کوئی بھی میرا وکیل بنے گا اسے بھی دھمکیاں دی جائیں گی- البتہ فلسطینی عوام کی جانب سے میری بڑی حوصلہ افزائی کی گئی ہے- تعاون کے لئے مجھے بے بہا کالیں موصول ہوئی ہیں- لوگوں نے فون کرکے دھمکیوں کی مذمت کی ہے اور ہر قسم کی مدد کی پیشکش کی ہے – عوامی محاذ کے رکن پارلیمنٹ خالد جرار نے فون کرکے دھمکی کے واقعات کی مذمت کی، اسلامی جہاد کی جانب سے جلوس پر لاٹھی چارج کئے جانے اور  آنسو گیس پھینکے جانے کی مذمت کی گئی ہے جس میں شریک تھی –
سوال: موجودہ داخلی بحران کے ہوتے ہوئے آپ کا کیا اندازہ ہے کہ حماس اور فتح کے درمیان مذاکرات ہوسکتے ہیں؟
جواب: یقیناً! ہماری زمین پر اسرائیل قابض ہے، وہ فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کررہا ہے – پناہ گزینوں کا حق واپسی تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہے- اپنے اہداف کے حصول اور حقوق کی واپسی کے لئے صرف اور صرف مذاکرات کا راستہ باقی ہے تاکہ متحد ہو کر قابض کے خلاف مزاحمت کی جائے – موسم خزاں  آرہاہے – پتے گرنے شروع ہوگئے ہیں – فلسطینی مفادات کے خلاف سیاست کرنے والے کا ستر کھل کر سامنے  آجائے گا – شام کے دارالحکومت میں فلسطینی گروپوں کی مجوزہ کانفرنس کے انعقاد کے بعد معلوم ہوجائے گا کہ کون مذاکرات کا حامی ہے اور کون فلسطینی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے قومی وحدت سے فرار اختیار کرتا ہے –

مختصر لنک:

کاپی