اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر نے اپنے ایک حالیہ بیان میں اقوام متحدہ سے فلسطین کی تمام مزاحمتی تنظیموں بالخصوص اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کو غیر آئینی قراردینے کی تجویز دی ہے- نیو یارک میں اقوم متحدہ کے ایک اجلاس میں ریاض منصور نے کہا کہ فلسطین کی عسکری تنظیمیں غیر آئینی ہیں- اقوام متحدہ بھی ان تنظیموں کو غیر آئینی قراردینے کے لیے قرارداد پاس کرے-
دوسری جانب اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) اور اس کے ملٹری ونگ القسام بریگیڈ کے علاوہ فلسطین کے عسکری گروپوں اور دیگر غیر ملٹری تنظیموں نے بھی اس پر سخت تنقید کی اور ریاض منصور سے اپنا بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے- عسکری تنظیموں کے علاوہ فلسطین کے تجزیہ نگار بھی ریاض منصور کے بیان کو ایک خاص زاویے سے دیکھتے ہیں- رام اللہ میں منعقدہ ایک سیمینار میں فلسطین بھر کے سیاسی، عسکری اور سماجی ماہرین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور ریاض منصور کے بیان پر بڑی شدومد سے بحث کی گئی- ماہرین کے تجزیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ریاض منصور کا یہ بیان دراصل فلسطین میں عسکریت پسندی کے خاتمے کے بہانے فتح اور اسرائیل مخالف محاذ کا خاتما ہے- اس بیان کے ذریعے اقوام متحدہ کی جانب سے مزاحمتی گروپوں کے خلاف مدد حاصل کرنا اور ان کے خلاف فوجی کارروائی کی راہ ہموار کرنا ہے-
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا بلکہ ماضی میں بھی اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر اس قسم کی ناپسندیدہ بیانات دے چکے ہیں- جولائی میں صدر محمود عباس کی ہدایت پر ریاض منصور نے اقوام متحدہ سے فلسطین میں عالمی امن فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی سیکورٹی ادارے مزاحمت کاروں کو ختم کرنے میں ناکام ہیں اور یہ کام صرف عالمی امن فوج سے ہی لیا جاسکتا ہے-
ان تمام کوششوں کا مقصد غزہ میں قائم حماس کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد وہاں الفتح کا کنٹرول قائم کرنا ہے- اس بہانے الفتح راہنماء صدر عباس، سلام فیاض اور ریاض منصور وغیرہ اقوام متحدہ کی فوج کی آڑ میں حماس کے خلاف کارروائی کا ادارہ رکھتے ہیں- ظاہر ہے اس قسم کی کسی بھی کارروائی سے عرب ممالک کی جانب سے فلسطین کے داخلی امور سلجھانے اور حماس اور فتح کے اختلافات دور کرنے کی تمام کوششیں بھی غارت جائیں گی- اس نوع کے کسی بھی اقدام سے فلسطین کے داخلی انتشار کو مزید ہوا ملے گی- البتہ اسرائیل کو یہ فائدہ ہوگا کہ جو کام اس کی فوج ایک عرصے سے کرتی آرہی ہے وہ اقوام متحدہ کے زیر کمانڈ عالمی امن فوج اپنے ذمے لے لے گی- غزہ اور فلسطین بھر سے مزاحمتی گروپوں کے خلاف کسی بھی قسم کا بڑا کریک ڈائون خطے میں اسرائیلی اور امریکی مفادات کے لیے معاون ثابت ہوگا- امریکہ اور اسرائیل صدر عباس سے دراصل یہی کام کرانا چاہتے ہیں-
ایک عربی روزنامے ’’القدس العربی‘‘ کی تازہ رپورٹ کے مطابق ریاض منصور نے یہ بیان یورپی یونین کے مندوبین سے مشورے کے بعد جاری کیا اور انہوں نے اس ضمن میں عرب سفراء سے بھی مشاورت کی جبکہ عرب سفیروں نے اسے یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے ہر لحاظ سے ناقابل عمل قرار دیا- رپورٹ کے مطابق عرب دنیا کا نکتہ نظر یہ ہے کہ اس طرح کی کوششوں سے غزہ ایک نیا میدان جنگ ہوگا اور اس سے خطے میں مزید عدم استحکام کی فضاء پیدا ہوگی- اسرائیل غزہ کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کرے گا اور اس کے نتائج خطرناک ہوں گے-
دوسری جانب اسرائیل اور صدر محمود عباس کے درمیان جاری مذاکرات میں اسرائیل مسلسل صدر عباس پر مزاحمت کاروں کے خلاف کارروائی پر مصر ہیں- اب تک صدر عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم اولمرٹ کے درمیان مذاکرات کے آٹھ ادوار ہو چکے ہیں- مذاکرات کے ان تمام ادوار میں اسرائیل صرف ایک ایجنڈے پر مصر رہا کہ صدر عباس کو حماس اور دیگر مزاحمت کاروں کے خلاف کارروائی میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے-
