جنوری 2005ء میں مرحوم فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کا جانشین چنے جانے سے قبل فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس ابو مازن کے نام سے جانے جاتے تھے- انہوں نے عزم کررکھا تھا کہ وہ فلسطینی عوام کے قومی حقوق اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتے رہیں گے، تاہم تین سال بعد یہ واضح ہو چکا ہے کہ محمود عباس اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں- قومی سطح پر عباس نے کئی ایک ناقابل معافی فاش غلطیوں کا انکشاف کیا ہے جس کی بنیاد پر محمود عباس کو اپنے عہدے سے معزول ہوجانا چاہیے-
محمود عباس نے رام اللہ میں غیر قانونی حکومت قائم کر کے فلسطین کے آئین اور قانون کی خلاف ورزی کی- حکومت کے قیام کی کوئی دستوری وجہ نہیں تھی- ہر فلسطینی اس سے خوب آگاہ ہے کہ فلسطینی حکومت اسرائیل اور امریکہ کے آگے جواب دہ ہے کیونکہ اسرائیل ہمیشہ امریکہ پر ہی بھروسہ کرتا ہے-
مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوتا، اس حکومت نے فلسطینیوں کے سول، انسانی اور قومی حقوق کی ممکنہ خلاف ورزی کی ہے ان میں قتل، طویل گرفتاری، ثبوت جرم کے بغیر قید، جسمانی و ذہنی تشدد، نظریاتی اور سیاسی بنیادوں پر نوکری سے برخواستگی، بنیادی حقوق سے متصادم قوانین، خیراتی اور غیر حکومتی تنظیموں پر پابندی شامل ہیں- قصہ مختصر مغربی کنارے میں انسانی حقوق، شہری آبادیوں اور قانون کی بالادستی آج کی صورتحال 1967ء سے بھی بدتر ہے- اس کا سبب موجودہ مصنوعی حکومت ہے- کئی ایک واقعات ایسے رونماء ہوئے ہیں کہ جب بالکل معصوم لوگ دن دیہاڑے قتل کردیے گئے- ایسے قتل ہو جانے کے بعد بھی محمود عباس اور اس کے وزیر اعظم نے اس سے بالکل لاتعلقی کا اظہار کیا- شہریوں کے حقوق عزت اور جان و مال پر حملوں کے بعد حکومت کی لاتعلقی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جگہ جگہ لاقانونیت کے واقعات رونماء ہونے لگے یا پھر انہوں نے اپنے اپنے خاندان اور اپنے قبیلے کی طرف اپنی حفاظت کے لیے رجوع کیا-
مغربی کنارے میں معاملات اس وقت اور بھی خراب ہوگئے کہ جب فتح کے ہزاروں حامیوں بشمول کالج کے طالب علموں کو بطور مخبر، خفیہ سپاہی اور گلیوں، بازاروں کے بدمعاش عناصر کے طور پر بھرتی کیا گیا تاکہ دوسرے فلسطینیوں ماریں پیٹیں، ہراساں کریں، خوفزدہ کریں، خصوصاًاس قسم کی صورتحال میں حکومت کیا کردار ادا کرسکتی ہے کہ جب آدھی آبادی حکومت کے لیے مخبری کررہی ہے سوائے یہ کہ ان کے درمیان عدم اطمینان پیدا کیا جائے- کیا اس کام کے لیے اسرائیل کے ایجنٹ اور مخبر کافی نہیں ہیں-
محمود عباس انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کے بارے میں شاید کچھ دلائل پیدا کرسکیں اور کہیں کہ غزہ کی پٹی میں حماس نے ’’حکومت‘‘ پر قبضہ کیا ہے اس کی وجہ سے حالات خراب ہوئے ہیں کئی اور بھی لوگ ہیں کہ جو غزہ کی پٹی میں حماس کی کارروائی سے خوش نہیں ہیں-
لیکن محمود عباس کو یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ جو کچھ بھی ہوا ہے اس کی ذمہ داری سب سے پہلے ان کے اپنے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے- ان کی ناک کے نیچے ان کے چہیتے محمد دحلان نے جس کی صدر امریکہ نے خود تعریف کی تھی، نے غزہ کی پٹی کو اسلحے کے زور پر سی آئی اے کے منی کیمپ بنانے کا آغاز کیا تھا- اس مقصد کے لیے اس نے دہشت اور لاقانونیت اور دہشت گردی کے کھیل کا آغاز کردیا تھا- دہشت گردی کی یہ لہر غزہ کے ہر گھر تک پہنچ گئی تھی- محمود عباس اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیا کچھ ہو رہا ہے لیکن وہ خاموش رہے اور انہوں نے فلسطینیوں کو بالکل نہیں بتایا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ غزہ کی پٹی میں امریکی اسلحے کے ایک ٹرک کے بعد دوسرے ٹرک کیوں پہنچایا جارہا ہے-
محمود عباس کا جرم یہ ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے کہ بیرونی اسلحہ کے زور پر فلسطینیوں کو یرغمال بنایا جارہا تھا تاکہ حماس کو ختم کردیا جائے اور اس کے سربراہ کی زندگی کا خاتمہ کردیا جائے-
لیکن محمود عباس کے جرائم کی فہرست اس سے طویل ہے- فلسطینی اتھارٹی کے صدر منتخب ہونے کے بعد اور کئی دیگر مواقع پر محمود عباس نے اعلان کیا کہ وہ فلسطینیوں کے قومی اھداف کی حمایت کررہی ہیں مثلاً 1967ء کے علاقوں سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلاء اور فلسطینی مہاجرین کی بحالی کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد 194 پر عمل درآمد اب محسوس ہوتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین اپنے دونوں اھداف سے منہ موڑ چکے ہیں- اب وہ رضامند ہیں کہ مشرقی بیت المقدس میں یہودیوں کی غیر قانونی آبادیوں کو مثلاً معالیہ ادوھیم نہیں اور اس کے بدلے میں صحرائے نقب کا کچھ علاقہ حاصل کرلیں- بیت المقدس کے بدلے صحرا جہاں تک مہاجرین کی حالت زار کا معاملہ ہے جو کہ فلسطینیوں کے لیے غیر معمولی قدر و قیمت کا حاصل ہے ابو ماذن یاسر عبد ربو پر پورا اعتماد رکھتے ہیں کہ وہ جو چاہیں کریں-
یہ عبد ربو وہی ہیں کہ جنہوں نے چند سال قبل میریز لیڈر لوسی بیلین سے اتفاق کرچکے تھے کہ اپنے گھروں سے اکھاڑے گئے بچاس لاکھ فلسطینی وہ فلسطین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہہ دیں گے اور مغربی کنارے کی کٹی پٹی ریاست پر اکتفا کرلیں گے-
بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی- محمود عباس اور اس کے ساتھی صائب اریکات نبیل عمر اور دیگر اس سے بھی بڑے بڑے اقدامات کے لیے تیار بیٹھے ہیں-
رام اللہ میں محمود عباس کے دربار سے آنے والی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کے تیار کردہ اور امریکہ کے اختیار کردہ ’’نقشہ راہ‘‘ کے مطابق قرارداد نمبر 242 اور 338 پر عملدرآمد کیا جائے گا- یہ وہی محمود عباس ہیں کہ جو چند ہفتے پہلے تک کہا کرتے تھے کہ وہ اس وقت تک انا پولیس کانفرنس میں شرکت نہ کریں گے جب تک اسرائیل فلسطینی ریاست کے یقین اور قیام کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کرتا-
اسرائیلی فرمودات پر عملدرآمد کر کے محمود عباس لاکھوں فلسطینیوں کی بے عزتی کے مرتکب ہو رہے ہیں- فلسطینیوں نے محمود عباس کو یہ حق بالکل نہیں دیا تھا کہ وہ ان کے حقوق کی سودے بازی کرتے پھریں، کوئی شخص اپنے دشمنوں میں کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو اس کی اصل عزت اس وقت ہوتی ہے کہ جب اس کی قوم اس سے محبت کرے- یہ بات اسرائیل، امریکہ اور محمود عباس کو سمجھ لینا چاہیے کہ اسرائیل اور محمود عباس کے درمیان چاہے کچھ بھی طے پاجائے اس کا کوئی مقام نہ ہوگاجب تک فلسطینی اسے تسلیم نہ کریں-
