جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیل میں بدکاری اور عورتوں کی سمگلنگ عروج پر

بدھ 7-نومبر-2007

ماریہ اعلی تعلیم کے حصول اور روزگار کے لیے 1999ء کو یوکرائن سے اسرائیل آئیں- مگر یہاں ماریکہ کو طوائف بننے پر مجبور کردیا گیا-
بی بی سی نیوز آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے ماریہ نے کہا کہ مجھے عسقلان کے ایک گھر میں دوسری عورتوں کے ہمراہ لے جایا گیا اور بتایا گیا کہ آئندہ سے بدکاری اس کا پیشہ ہوگا- ماریہ نے بتایا کہ مجھ پر ھسٹریا کے دورے پڑنے لگے لیکن ایک شخص نے مجھے مارنا شروع کردیا پھر کچھ اور لوگوں نے میری عصمت دری کی- اب میری عمر چالیس سال ہو چکی ہے- اس نے بتایا کہ پھر ایک اور جگہ پر لے جایا گیا اور بتایا گیا کہ مجھے فروخت کردیا گیا ہے-
مرینہ ایک اور عورت ہے جس نے بمشکل پیشہ کرانے والے گروہ سے رہائی حاصل کی ہے اس کے بعد سے وہ اپنے دو کمروں پر مشتمل کمرے سے باہر نہیں نکلتی- وہ اسرائیلی انتظامیہ سے بھی چھپتی پھرتی ہے کیونکہ وہ غیر قانونی مہاجر ہے اور غنڈہ گروہوں سے بھی بچتی ہے جو عصمت دری پر مجبور کرتے ہیں- مرینہ کو اسرائیل یہ امید دلا کر لایا گیا تھا کہ وہاں نئی فیکٹریاں لگ رہی ہیں اور وہاں بہت اچھی تنخواہ ملے گی- اسرائیل جنسی ٹریفکنگ کے حوالے سے کئی ممالک سے آگے نکل چکا ہے- ان عورتوں کو اسرائیل لانے کے بعد ان کو لانے والے ان سے پاسپورٹ لے لیتے ہیں اور بعد ازاں پیشہ ور دلالوں کے ہاتھ انہیں آٹھ ہزار سے دس ہزار ڈالر میں فروخت کردیا جاتا ہے- جب ان کی سمگلنگ کی جاتی ہے تو اس دوران انہیں جسمانی طور پر مارا پیٹا بھی جاتا ہے اور اس کے علاوہ ان کی عصمت دری بھی کی جاتی ہے-
گزشتہ برس اقوام متحدہ نے رپورٹ شائع کی تھی کہ اسرائیل ان ممالک میں سرفہرست ہے کہ جہاں عورتوں کو سمگل کیا جاتا ہے اور بعد ازاں عصمت دری پر مجبور کردیا جاتا ہے- امریکی وزارت ہر سال ان ممالک کی فہرست شائع کرتی ہے کہ جہاں عورتوں کی سمگلنگ کی جاتی ہے اور اسرائیل کا ذکر ہر سال اس لسٹ میں شامل ہوتا ہے- اسرائیلی انتظامیہ نے اس مسئلے پر آنکھیں بند کررکھی ہیں لیکن عورتوں کی ٹریفکنگ کا مسئلہ تیزی سے پرورش پا رہا ہے-
دوسرے ممالک سے اسرائیل لائے جانے اور عصمت فروشی پر مجبور کی گئی عورتوں کی بحالی کے لیے کام کرنے والی اسرائیل انجمن مائیگرنٹ ورکرز زھوٹ لائن کی نمائندہ نومی لیوینکرون کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس برس میں جنسی عورتیں بھی اسرائیل لائی گئیں- اسرائیلی حکومت نے اس جرم کے خلاف کچھ نہیں کیا- اس کا کہنا ہے کہ زنا کے لیے لائی جانے والی پہلی عورت کا معاملہ 1992ء میں افشا ہوا لیکن اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا- زناکاری اور بدکاری کے لیے تین ہزار عورتیں ہر سال اسرائیل لائی جاتی ہیں یا تو ان کو قانونی طریقے سے یہاں لایا جاتا ہے یا پھر ان کو سرحدوں سے سمگل کیا جاتا ہے-
امریکہ کی جانب سے کیے جانے والی تنقید اور اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں کی دھمکیوں کے بعد حکومت نے کچھ اقدام کیے- سال 2000ء میں جنسی مقاصد کے لیے عورتوں کو اسرائیل لانے کو جرم قرار دیا گیا-
2003ء میں ایک اور قانون پاس کیا گیا جس کے مطابق جو لوگ عورتوں کو غیر قانونی طور پر اسرائیل میں لانے کے مرتکب ہوں گے ان کی رقوم قبضہ میں کرلی جائیں گی-
انسانی سمگلنگ کو روکنے کے لیے قائم کی گئی انجمن ٹاسک فورس کی نمائندہ یدیدہ وولف کا کہنا ہے کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس مسئلے پر قابو پالیا گیا ہے- لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہوا- اس کے ثبوت میں اس کا کہنا ہے کہ بدکاری کے نرخ میں کافی اضافہ ہوچکا ہے- اس کا کہنا ہے کہ یہ ایک ثبوت ہے کہ یہ کام باآسانی جاری ہے-

مختصر لنک:

کاپی