فلسطینی سیاستدانوں اور دانشوروں نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی ریاست کی بنیاد رکھنے پر فلسطینی عوام سے حکومتی سطح پر معافی مانگے اور فلسطینیوں کو معاوضہ ادا کرے-
بدنام زمانہ بلفور ڈکلریشن کی 90 ویں سالگرہ کے موقع پر غزہ میں ہلال احمر کے ہال میں منعقدہ سیمینار کے شرکاء نے کہا کہ بلفور ڈکلریشن ابھی تک ختم نہیں ہوا- ہر دن کسی نئے ڈکلریشن کے تانے بانے بنے جاتے ہیں- سیمینار میں فلسطینی قانون ساز اسمبلی کے قائم مقام سپیکر ڈاکٹر احمد بحر، سابق فلسطینی وزیر انصاف ناھض الریس، جامعہ اقصی کے ثقافتی امور اور تعلقات عامہ کے وائس چیئرمین ڈاکٹر رمضان الزیان، فلسطینی علماء لیگ کے چیئرمین ڈاکٹر مروان ابو راس اور دیگر فلسطینی سیاستدانوں اور دانشوروں نے شرکت کی-
ڈاکٹر رمضان الزیان نے سیمینار سے خطاب میں کہا کہ فلسطینی عوام ایک ایسے مشکل مرحلے سے گزر رہے ہیں کہ اسے اتحاد و اتفاق کی اشد ضرورت ہے- آج کا دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ آئندہ آنے والے تمام چیلنجز کا مقابلہ متحد ہو کر کریں- انہوں نے کہا کہ بلفور ڈکلریشن غیر قانونی تھا- یہ ایک ایسی اتھارٹی کی جانب سے صادر کیا گیا جسے اس طرح کا کوئی قانونی حق حاصل نہیں تھا- حقداروں کے حقوق کو چھین کر غیر مستحقین کو دینا ناانصافی تھی- بلفور ڈکلریشن یورپی یہودیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اعلان کیا گیا- اس کے ذریعے یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کی سازش کی گئی- انہوں نے کہا کہ عربوں کی شکست کی وجوہات میسر ذخائر سے فائدہ نہ اٹھانا، مقصد پر یقین کامل نہ رکھنا اور عرب حکومت کا مزاحمت میں سنجیدہ نہ ہونا ہے-
فلسطینی قانون ساز اسمبلی کے قائم مقام سپیکر احمد بحر نے کہا کہ بلفور ڈکلریشن ختم نہیں ہوا- فلسطینیوں کے خلاف مسلسل سازشیں تیار کی جارہی ہیں- انہوں نے کہا کہ بلفور ڈکلریشن کے وقت فلسطین میں فلسطینیوں کی آبادی کا تناسب 95 فیصد، یہود کا 4 فیصد اور غیر ملکیوں کا تناسب ایک فیصد تھا- برطانیہ کی مالی امداد سے یہودیوں کو بہت طاقت حاصل ہوئی- ڈاکٹر احمد بحر نے سوال اٹھایا کہ کیا برطانیہ نے اپنا گناہ تسلیم کیا ہے- ہرگز نہیں بالخصوص برطانوی وزیر خارجہ نے بیان دیا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کا حق واپسی غیر منطقی ہے-
ڈاکٹر احمد بحر نے امریکہ کی طرف سے بلائی جانے والی امن کانفرنس کے حوالے سے کہا کہ کانفرنس کا انعقاد قیام امن کی کوششوں کے لیے نہیں کیا جارہا بلکہ اس کا مقصد مذاکرات جاری رکھنا ہے- مذاکرات کرتے ہوئے چودہ سال ہوگئے ہیں- اسرائیل اپنے مؤقف پر کھڑا ہے- وہ کسی ایسی فلسطینی ریاست کو نہیں مانتا جس کی سرحدیں 1967ء سے پہلی والی ہوں، وہ مقبوضہ بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم نہیں کرتا- پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے وہ تیار نہیں ہے- قیدیوں کی رہائی پر وہ راضی نہیں ہے تو مذاکرات کس بات پر کیے جائیں- انہوں نے فتح کو دعوت دی کہ وہ حماس سے مذاکرات کے لیے ایک میز پر بیٹھیں اور مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے نکالا جائے-
ناھض الریس نے سیمینار سے خطاب میں کہا کہ بعض یہودیوں نے بلفور ڈکلریشن کو مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے- بلفور ڈکلریشن جھوٹ ہے اور اس کا لکھنے والا صہیونی تھا- انہوں نے کہا کہ ہمیں برطانیہ کے گناہ پر معاف نہیں کرنا چاہیے- برطانیہ نے ہی سانحہ قیام اسرائیل کی بنیاد رکھی- برطانیہ کو اس گناہ پر فلسطینیوں کو معاوضہ دینا چاہیے اور سرکاری طور پر معذرت کرنی چاہیے-
