اسرائیلی فوج وسیع پیمانے پر بلڈوزر لے کر آتی ہے تاکہ متنازعہ اسرائیلی دیوار کے راستے میں رکاوٹ بننے والے درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر رکھ دے – جہاں بھی یہ محسوس کیا جاتاہے کہ غیر قانونی یہودی آبادیوں کے پھیلاؤ میں یہ درخت رکاوٹ بن رہے ہیں انہیں کاٹ دیا جاتاہے- کاٹے جانے والے درختوں میں چند ایک ایسے بھی ہیں کہ جن کی عمرسات سو سے ایک ہزار سال ہے اور وہ بھی تک پھل دے رہے ہیں- ان درختوں کو کاٹ کر سڑکیں، سیور یج ،بجلی، تازہ پانی اور ٹیلی کیمونیکیشن کے نیٹ ورک بچھائے جاتے ہیں تاکہ اسرائیلی فوجی چھاؤنیاں، ٹریننگ مرکز، صنعتی یونٹ اور فیکٹریاں قائم کی جائیں جو ماحول کی تباہی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اگر اسرائیلی کاروائیاں اسی طرح جاری رہیں تو نہ درخت ہی باقی رہیں گے نہ فلسطینی اور نہ ہی صاف ستھری فضا-
زیتون کے درختوں کو اکھاڑنے سے اس یہودی اصول کی خلاف ورزی ہوتی ہے جس کی وضاحت توریت میں اس طرح کی گئی ہے ’’اگر کسی شہرمیں تم جنگ لڑرہے ہو …..تب بھی اس کے درخت تباہ نہ کئے جائیں (دیوت 1920ء )
اسرائیلی یہودی کہتے ہیں کہ رب تعالی نے انہیں یہ سرزمین دی ہے اور اس کے درختوں کی حفاظت ان کا فرض ہے- ہرکاٹے گئے درخت کے بدلے میں کنکریٹ کا ایک اور بلاک رکھ دیا جاتاہے اور یہودی آبادکاروں کی رہائش گاہوں میں اضافہ کردیا جاتاہے – فلسطینیوں کو دباکر رکھنے کے لئے اسرائیل ہر حربہ استعمال کرتاہے اور درختوں کو برباد کرنے سے بھی نہیں چوکتا-
زیتون کے درجنوں کی تباہی سے فلسطینیوں کو جس قدر نقصان پہنچتاہے اعداد و شمار کے ذریعے اس کی وضاحت نہیں کی جاسکتی، جو لوگ ان ظالمانہ اقدامات کا سامنا کرچکے ہیں یا جو کائنات کے حسن میں فضا اور ماحولیات کے کردار کو سمجھتے ہیں وہی سمجھ سکتے ہیں کہ درختوں کے کٹنے سے کس قدر نقصان ہوتاہے-
اس معاملے میں عالمی قانون خاموش نظر آتاہے کیونکہ کوئی بھی حکومت اقوام متحدہ یا کوئی اور بڑا ادارہ، اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ وہ فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینے کے عمل سے باز رکھے- دنیا بھر میں مہم جاری و ساری ہے کہ درخت نہ کاٹے جائیں اور جن درختوں کو کاٹاگیاہے ان کو ازسرنو لگایا جائے ہر سال جب زیتون کے پھلوں کی کٹائی کا موسم آتاہے – انٹرنیشنل رضا کار سامنے آتے ہیں جو فلسطینی درختوں اور فصلوں کو اسرائیلی جبر و تشدد سے بچانے کے لئے فلسطینیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں- ان لوگوں کی موجودگی فلسطینی کسانوں کے لئے کسی نہ کسی حد تک ڈھارس کا باعث بنتی ہے- لیکن پرانے پھل دار درختوں کی کٹائی کے عمل کو دیکھنے سے فلسطینیوں کو جس قدر دکھ پہنچتاہے اس کو سمجھنا بہرحال مشکل ہے- زیتون کے درختوں کی تباہی کو دیکھ کر ہی فلسطینی شاعر محمود درویش نے شعر کہا ہے کہ
اگر زیتون کے درختوں کو ان ہاتھوں کا پتہ لگ جاتا، جنہوں نے انہیں اگایا ہے تو ان کا تیل آنسو بن چکا ہوتا-
