فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین محمود عباس بارہا اس کا اظہار کرچکے ہیں کہ اسرائیل کے ہمراہ قیام امن کی منزل قریب ہے- اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرت نے امید ظاہر کی ہے کہ اناپولیس ’’امن کانفرنس ‘‘مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی نازی طرز کے تسلط کے خاتمے کی طرف اقدام نہ اٹھائے گی-
اولمرت نے فاشسٹ ذہن رکھنے والے اپنے وزراء کو کئی بار یقین دہانی کرائی ہے (ان وزراء نے کئی بار مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل سے غیر یہودیوں کو غلام بنالیا جائے) کہ کانفرنس میں فلسطین —اسرائیل تنازعے کے بنیادی معاملات واپسی کا حق، بیت المقدس اور عرب علاقوں پر قائم یہودی آبادیوں کا انخلاء ہے –
انگر ان معاملات پر ابھی بات ہونا باقی ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ مغربی کنارے اور اریحا میں حال ہی میں محمود عباس اور اولمرت کے درمیان اعلی سطحی ملاقاتوں میں آخر کیا گفت و شنید ہوتی رہی ہے-گزشتہ ہفتے محمود عباس نے غیر ملکی صحافیوں کو بتایا کہ وہ اولمرت کی ’’صاف گوئی ‘‘اور ’’ایمانداری‘‘سے متاثر ہوئے ہیں ،جس لمحے محمود عباس دھوکہ باز اولمرت کی تعریف میں رطب اللسان تھے- اسرائیلی حکومت نے فیصلہ کیا کہ مشرقی بیت المقدس کی ہزاروں ایکڑ اراضی پر قبضہ کرلیا جائے تاکہ شمالی امریکہ اور یورپ سے نے والے نئے آبادکاروں کو یہاں بسایا جاسکے-
عرب اراضی پر مزید تسلط ہی پر بات ختم نہیں ہوئی ہے، اسرائیلی فوجی دستوں نے نابلس کے گلی محلوں سے فلسطینی بچوں اور محمود عباس کے اپنے آدمیوں کا شکار شروع کررکھاہے جہاں بے گناہ لوگوں کو سرد مہری سے موت کے حوالے کردیا جاتاہے –
غزہ میں اسرائیلی فوج نے غزہ کے خلاف نازی طرز کی بندشیں شروع کر رکھی ہیں،غزہ پہلے ہی وارسا طرز کے باڑے میں تبدیل ہوچکاہے کہ جہاں خوراک کی انتہائی معمولی سی مقدار کو داخل ہونے کی اجازت ہے – غزہ کو نازی طرز کے ارتکازی کیمپ ، میں تبدیل کیا جا رہاہے جبکہ ’’مہذب ‘‘دنیا آزادی ، انسانی حقوق ، جمہوریت اور امن کے نعرے لگا رہی ہے –
یہ کہنا مشکل ہے کہ ان حالات میں محمود عباس فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے – کوئی بھی فلسطینی مرد ، عورت اور بچہ یہ حق رکھتاہے کہ اپنی حیریت کااظہار کرے کہ محمود عباس پندرہ لاکھ بے بس فلسطینیوں کو دیکھ رہاہے جنہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتاہے- جن کو ارتکاز کی طرز کے مرکز میں رکھا گیاہے ، نیز بنیادی مسائل مثلاً بیت المقدس اور واپسی کے حق کو نظر انداز کیا جا رہاہے جبکہ پچاس لاکھ فلسطینی مہاجرین عرصہ دراز سے اپنے گھر واپسی کے منتظر ہیں –
’’راست گو ‘‘ اور ’’ایماندار ‘‘ اولمرت سے کتنی مزید ملاقاتیں فائدہ مند ثابت ہوں گی جبکہ اولمرت نے گزشتہ سال اپنی فوج کو حکم دیاتھا کہ جنوبی لبنان پر بیس لاکھ چھوٹے کلسٹر بم گرائے جائیں- گزشتہ ہفتے،کنڈو لیزا رائس جو یہودیوں کو ناراض کرنے کے خیال ہی سے جھرجھریاں لینے لگتی ہیں، جن کا امریکی حکومت پر کنٹرول ہے نے مشرق وسطی کو یہ کہہ کر اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے کہ مغربی کنارے کا قبضہ چھوڑنے کے سوال پر اسرائیلی حکومت نے بالکل تعاون نہ کرنے کا اعلان کیاہے اور ان کی کوششیں رائیگاں گئی ہیں، یہ دباؤ ڈالنے کی بجائے کہ اسرائیلی غصب شدہ علاقے واپس کرے، کنڈو لیزارائس رملہ گئیں اور محمود عباس نے کہا کہ ایہود اولمرت کی جو داخلی مشکلات ہیں،ان کا خیال کریں اور فلسطینیوں نے جو مطالبات کئے ہیں ان کو کم کیا جائے-
محمود عباس نے مشتعل ہو کر اناپولیس کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دی ہے، محمود عباس کا ناراض ہونااور غصے کا اظہار کرنا ایک ایسے فرد کی بے بسی کا اظہار ہے جس کی سیاسی بقا کا انحصار اس کے اپنے سیاسی حریف ’’راست گو‘‘ اور ’’ایماندار‘‘اولمرت حکومت پر ہے- جہاں تک امریکہ کا معاملہ ہے – صدارتی امیدوار یہودی لابی کوخوش کرنے کے لئے پیشہ ور عورتوں کی طرح نئے نئے حربے استعمال کرتی ہیں، ایسے امریکہ سے مشرق وسطی میں مثبت کردار ادا کرنے کا امکان فضول ہے – یہ افسوسناک ہے کہ محمود عباس نے ہر وہ اقدام کیا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو اپنی اور دوسروں کے سامنے خفیہ بنا کر پیش کرے- محمود عباس نے اپنے ہی لوگوں کو ان کے شہری حقوق سے محروم کیا ہے اور انہیں ’’حفاظتی اقدامات ‘‘قرار دیا ہے-
