عبرانی یونیورسٹی کی کمینیکل سائیکولوجسٹ نفار یشائی کرن کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجی فلسطینی مردوں اور عورتوں پر بھرپور تشدد کرتے ہیں اور اس میں لطف محسوس کرتے ہیں-
روزنامہ آبزرور سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل کی عبرانی یونیورسٹی کے کمینیکل سائیکولوجسٹ نفار یشائی کرن کا کہنا ہے کہ اکثر فوجیوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ فوجی ملازمت کے دوران انہوں نے تشدد کر کے لذت محسوس کی-
اٹھارہ اسرائیلی سپاہیوں اور تین افسروں نے اعتراف کیا کہ اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کے خلاف تشدد معمول کے مطابق کرتے ہیں- جن لوگوں نے انٹرویو دیا وہ سب کے سب رفح کی ملٹری بیس میں اس کے ساتھ کام کرتے ہیں- فوجی ملازمت ختم کرنے کے بعد ینائی کرن نے سات برس تک اس چیز پر تحقیق کی کہ 1980ء اور 1990ء کے دوران جب انتفاضہ (تحریک مزاحمت) کا پہلا دور تھا، اسرائیلی فوجی کس طرح فلسطینیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے رہے-
انٹرویو دینے والے فوجیوں میں سے چند ایک نے بتایا کہ جب ہم بے یارو مدد گار فلسطینیوں پر تشدد کرتے ہیں تو ہمیں طاقت کا صحیح نشہ محسوس ہوتا ہے- ایک فوجی نے کمینیکل سائیکولوجسٹ کو بتایا کہ تشدد کرنا بھی نشہ کرنے کے مترادف ہے- ایک فوجی نے بتایا کہ اگر میں رفح جائوں اور وہاں ہفتے بھر کوئی فساد نہ ہو تو میں بے چین ہو جاتا ہوں-
اسرائیلی فوجیوں کا کہنا ہے کہ اس تشدد سے کوئی بھی فوجی بچا ہوا نہیں ہے- ایک فوجی نے ایک واقع بتایا کہ جب ایک راہگیر کو بغیر کسی جرم کے گولی ماردی گئی- اس نے بتایا کہ ہم اسلحہ گاڑی لے جارہے تھے کہ ایک پچیس سالہ نوجوان سڑک سے گزرا- اسے کچھ معلوم نہ تھا اس نے کوئی پتھر بھی نہ پھینکا تھا- اچانک ہمارے سپاہی کی گولی نے اس کا معدہ چیر کر رکھ دیاوہ سڑک پر گرا، تڑپتا رہا اور سڑک ہی پر جان دے دی- ہماری گاڑی چلتی رہی کسی بھی سپاہی نے اس کی طرف مڑ کر دیکھنے کی بھی زحمت نہ کی-
ایک اور سپاہی نے بتایا کہ اسے فلسطینی عورتوں پر تشدد کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہ ہوتی تھی- اس نے بتایا کہ ایک فلسطینی عورت نے اس کی طرف ایناعبا اچھال دی تھی اور میں نے اسے شدید زدوکوب کیا تھا-
ایک اور سپاہی نے بتایا کہ ایک فلسطینی عورت نے مجھ پر تھوک دیا تھا اور میں رائفل کا بھاری بٹ اس کے منہ پر مارا- اس کا منہ ہی ٹوٹ گیا جس سے وہ کسی اور پر تھوک سکتی-
فوجیوں نے بتایا کہ ان کے افسران ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ فلسطینیوں پر بڑھ چڑھ کر تشدد کیا جائے اور اس کو سر عام تسلیم بھی کیا جائے- انہوں نے بتایا کہ ہمارے ایک کمانڈر نے چارج سنبھالتے ہی چار سالہ فلسطینی بچے کو مار مار کر لہولہان کردیا- اس نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ رفح میں ہم علی الصبح پٹرولنگ کررہے تھے- کرفیو لگا ہوا تھا- بازاروں میں کتا بھی نظر نہ آرہا تھا- صرف چار سالہ کا ایک بچہ گھر کے صحن میں ریت سے کھیل رہا تھا- کمانڈر نے کہا کہ یہ ریت سے ’’محل‘‘ بنارہا ہے- اچانک کمانڈر اور اس کے ساتھیوں نے ایک سمت دوڑنا شروع کردیا- کمانڈر کو شکار مل گیا تھا اس نے بچے کو پکڑ لیا- اس نے بچے کی کلائی پکڑی اور اسے توڑ ڈالا- پھر اس نے بچے کی ٹانگ توڑ ڈالی پھر اس نے بچے کے معدے پر گھونسے برسانے شروع کردیے- ہم تینوں فوجی اپنے جبڑے دکھائے حیرت کے عالم میں اسے دیکھ رہے تھے- اگلے روز میری اس کمانڈر کے ساتھ ایک اور جگہ ڈیوٹی لگی- وہاں میں نے دیکھا کہ فوجی یہی کام کررہے ہیں-
کمینیکل سائیکولوجسٹ کی رپورٹ جس نے حال ہی میں اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں جگہ پائی ہے اس سے اسرائیل میں حیرت و شرمندگی کی لہر متعارف کرادی ہے جہاں نئے بھرتی ہونے والے سپاہیوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے زیادہ اخلاق والی فوج کا حصہ بننے جارہے ہیں- اسرائیلی قلم کار ڈیوڈ گراس مین کا کہنا ہے کہ یشائی کرن کی رپورٹ منفرد لوگوں کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی برائی کے مرکز سے آنے والی چند خبریں ہیں-
ارلک الحانان کا کہنا ہے کہ جو فوجی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی فوج کے احکامات تسلیم نہیں کرتے اس کی وجہ فوج کے غیر اخلاقی احکامات ہی ہیں- ریزرو کیے گئے سپاہیوں میں سے 80 فیصد وہ لوگ ہیں جنہوں نے فوجی سروس سے اس لیے انکار کردیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی فوج جن اخلاقی اصولوں کا اعلان کرتی ہے اس سے منحرف ہو چکی ہے-
