غزہ کی پٹی میں رہنے والے فلسطینیوں نے اسرائیلی قابض حکومت کی جانب سے شناختی کارڈ یا دیگر شناختی دستاویزات ملنے کے
بارے میں مایوسی کا اظہار کیا ہے- غزہ سے واپس آنے والے محمد جنید نے نیوز ایجنسی رائٹر کو بتایا کہ غزہ میں واپسی کے بارہ سال بعد بھی وہ شناختی کارڈ حاصل نہیں کرسکے ہیں-
اس مہینے جنید نے اپنے آپ پر تیل چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش کی تھی لیکن موقع پر موجود لوگوں نے اسے بچالیا- جنید نے بتایا کہ غزہ واپسی کے بعد وہ مسلسل کوشش کررہا ہے کہ اسرائیل سے قانونی دستاویزات حاصل کرنے، بینک میں اکائونٹ کھولنے اور ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے لیے بھی شناختی کارڈ کی ضرورت ہے- انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش اس لیے کی تھی کیونکہ زندگی ’’موت‘‘ جیسی ہی بن گئی تھی-
جنید اردن میں پیدا ہوا- 1967ء کی چھ روزہ جنگ کے بعد اس کا خاندان علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوگیا- وہ 1995ء میں غزہ میں واپس آیا جب اس کی عمر تیرہ سال تھی لیکن اس کے پاس اب تک شناختی کارڈ نہیں ہے-
شناختی کارڈ سے محروم پچیس سالہ جنید نے کئی بار کوشش کی کہ وہ ملازمت حاصل کرسکے تاکہ اپنا اور اپنے چھ بچوں کا پیٹ پال سکے- اس کا کہنا ہے کہ جب بھی میں نے ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کی مجھ سے شناختی کارڈ طلب کیا گیا اور میرے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے- عالمی بنک نے جولائی کے مہینے میں خبردار کیا تھا کہ غزہ کی پٹی میں بیروزگاری کی شرح 44 فیصد کی خطرناک حدتک پہنچ چکی ہے- حماس کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ نے اقتصادی پابندی عائد کررکھی ہے- اس سے صورتحال اور بھی نازک ہو چکی ہے- فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان 1993ء میں اوسلو معاہدہ ہوا تھا اس کے بعد 54 ہزار فلسطینی دیگر ممالک سے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں واپس آئے ہیں- ان کے پاس اب تک شناختی کارڈ موجود نہیں ہیں کیونکہ اسرائیل نے ان کو شناختی کارڈ دینے سے انکار کردیا ہے- اوسلو معاہدے کے مطابق اسرائیل کے لیے لازم ہے کہ وہ واپس آنے والوں کو شناختی کارڈ دے-
سال 2000ء میں انتفاضہ ثانی کے آغاز کے بعد سے اسرائیل نے فلسطینیوں کا رجسٹر منجمد کردیا ہے جو لوگ 1967ء میں ان علاقوں سے چلے گئے تھے، اسرائیل نے انہیں بھی شناختی کارڈ نہیں دیے- اس سال کے آغاز میں اسرائیل نے مغربی کنارے میں پنتیس سو فلسطینیوں کو شناختی کارڈ دیے تاکہ موسم سرما میں ہونے والی مشرق وسطی کانفرنس سے قبل محمود عباس کے لیے فلسطین میں خیر سگالی کی فضاء بنے- خیر سگالی کے یہ جذبات غزہ تک نہیں پہنچے ہیں جس کو حال ہی میں دشمن کا علاقہ قرار دیا گیا ہے-
جنید کا کہنا ہے کہ غزہ اب ایک بڑی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے- جنید کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں لوگ چھوٹی کوٹھری میں رہتے ہیں اور غزہ کے رہنے والے بڑی قید میں رہتے ہیں- میں بھی ایک قیدی ہوں- اس نے بتایا کہ میں حال ہی میں مصر کا سفر نہ کرسکا اور اپنے عزیز کے جنازے میں اور چھوٹے بھائی کے جنازے میں شرکت نہ کرسکا- اسرائیلی انتظامیہ نے اسے آنکھوں کی سرجری کے لیے مصر بھی جانے کی اجازت نہ دی- جنید کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہر ہفتے مظاہرے ہوتے ہیں تاکہ حالت زار کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کراسکیں-
رام اللہ میں فلسطینی شہری معاملات حکومت کے سربراہ حسین الشیخ جو اسرائیل کے ساتھ شناختی کارڈ اور سفر پرمٹ کے مسئلے پر گفت و شنید کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ اس کے امکانات کم ہیں کہ غزہ کے شہریوں کو شناختی کاغذات مل سکیں- جنید نے بتایا کہ میرے بھائی کو شناختی کارڈ اس کی وفات کے پندرہ دن بعد ملے-
غزہ کے خفیہ افراد
پیر 22-اکتوبر-2007
مختصر لنک: