چهارشنبه 30/آوریل/2025

ٹونی بلیئر کی اقتصادی پیش کش، فلسطینیوں کو رشوت

ہفتہ 20-اکتوبر-2007

تنازعہ فلسطین – اسرائیل کےحل کیلئے روس، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور امریکہ پر مشتمل چار رکنی ثالثی کمیٹی کے نمائندے ٹونی بلیئر نے مغربی کنارے میں فلسطینی افسران سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے تا کہ فلسطینی معیشت کے بارے میں گفت و شنید کی جا سکے جو اسرائیلی تسلط کے سبب مفلوج ہوچکی ہے –
سابق برطانوی وزیراعظم نے10 اکتوبر کو فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے رام اللہ میں ملاقات کی اور ان سےاقتصادی محرکات کے بارے میں بات چیت کی تا کہ فلسطینیوں اور اسرئیل کے درمیان مناسب فضا پید ا کی جا سکے- الخلیل میں بلیئر نے الخلیل کےگورنر حسن العرج سے اور الخلیل ٹائون کے مئیر خالد الاومیلی سے بھی ملاقات کی، ان دونوں کی تعیناتی محمود عباس نے کی ہے – الخلیل کو حماس کا مضبوط مرکز تصور کیا جاتاہے-
دونوں عہدیداران نے الخلیل کی سیاسی اور اقتصادی صورت حال کے بارے میں ٹونی بلیئر کو تفصیلات فراہم کیں، اس علاقے میں سینکڑوں انتہا پسند یہودی  آباد کار، اسرائیلی فوج کی پشت پناہی سےعربوں پر مسلسل حملہ آور ہوتے ہیں اور ان کی املاک کو لوٹ کر لے جاتے ہیں- ملاقات کے بعد اومیلی نے صحافیوں کو بتایا کہ ہم نے ٹونی بلیئر کوآگاہ کر دیا ہے کہ موجودہ سیاسی اور سیکورٹی صورت حال میں اقتصادی بحالی بہت مشکل کام ہے – معمول کی معاشی سرگرمیوں کے لئے ضروری ہے کہ آمد و رفت پر قدغن نہ ہو، نیز اشیاء اور محنت کشوں کو  آزادی سے منتقل ہونے کی سہولت حاصل رہے- مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی نقل وحرکت پر جو پابندیاں عائد ہیں، اس کی روشنی میں یہ بے انتہا مشکل ہے کہ معمول کی تجارتی سرگرمیاں پروان چڑھ سکیں-
جب ان سے سوال کیا گیا کہ انہیں بلیئر کے الفاظ پر یقین ہے تو اومیلی نے جواب دیا کہ وہ امید پر ست انسان ہیں- الخلیل سے تعلق رکھنے والے تاجروں اور کاروباری حلقوں نے قبل ازیں بلیئر پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کے لئے اقتصادی سہولتیں فراہم کرنے کے بدلے میں چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں سے واپسی کے حق سے دستبرداری کا اعلان کرا دیں-
احمد ابو قصروی کا کہنا ہے کہ یہ شخص ناقابل یقین اور دوہرے معیار پر کار بند ہے اور اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، جب یہ برطانیہ کا وزیر اعظم تھا اس وقت اسے سوچنا چاہیے تھا کہ فلسطین کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں اسرئیل نے نازی نما قبضہ کر رکھا ہے جس سے اقتصادی سرگرمیاں ختم ہوچکی ہیں، جہاں اسرئیل نے سڑکوں پر فوجی رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں جہاں گسٹایو طرز کے فوجی، اسلحہ سے لیس ہو کر معمول کی زندگی اور اقتصادی سرگرمی کو تباہ وبرباد کئے ہوئے ہیں – رام اللہ میں بلیئر نے محمود عباس کو بتایا کہ اسرائیل سے اس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک اقتصادی سرگرمی قیام پذیر نہ ہو-
فلسطینی اتھارٹی کے افسران کا کہناہے کہ محمود عباس نے بلیئر کی جانب سے فلسطینیوں کے روز مرہ حالات بہتر بنانے کی کوششوں اور دلچسپی کا شکریہ ادا کیا، تاہم محمود عباس نے انہیں بتایا کہ فلسطین میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اقتصادی ناکہ بندی نے تمام تجارتی سرگرمیوں کو مفلوج کررکھاہے –
الخلیل میں بلیئر نے صحافیوں کا سامنا نہیں کیا اور ان کے کئی سوالوں کے جوابا ت نہیں دیئے- کئی فلسطینی صحافیوں اور کیمرہ مینوں نے الخلیل میں ٹونی بلیئر کے دورے کا بائیکاٹ کیا کیونکہ فلسطینی اتھارٹی کی پولیس نے صحافیوں کو دھمکی دی تھی کہ ان کے کیمرے توڑ دیئے جائیں گے- ایک فلسطینی صحافی نے کہا کہ میں نے بلیئر سے سوال کرنا تھا کہ عراق میں امریکہ و برطانیہ کی تباہ کاری کا منصوبہ تیار کرنے کے بعد ان کے خیال میں  آئندہ عرب اور مسلم نسلیں ان کو کیا مقام دیں گی – امریکہ و برطانیہ کی بھرپور فوجی کاروائی سے دس لاکھ سے زائد عراقی جاں بحق ہوچکے ہیں-
ٹونی بلیئر کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اور مسلم دنیا میں شدید نا پسند کیا جاتا ہے کیونکہ بلیئر، جارج بش کی طرف سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کھلم کھلا شریک ہے – ٹونی بلیئر کو فلسطینی علاقوں میں اسی لئے بھی ناپسند کیا جاتا ہے کیونکہ اس نے لبنان اور غزہ میں اسرائیلی کاروائیوں کی حمایت کی ہے جس سے ہزاروں افراد ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں-

مختصر لنک:

کاپی