امور خواتین کی سابق فلسطینی وزیر اور مغربی کنارے سے حماس کی رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر مریم صالح نے کہاہے کہ فلسطینیوں کو مغربی کنارے میں دوہری جارحیت کا سامناہے- ایک طر ف اسرائیلی حکام نے جگہ جگہ پر فوجی ناکے لگارکھے ہیں دوسری طرف فلسطینی صدر محمود عباس کو جوابدہ سیکورٹی فورسز سیاسی گرفتاریوں اور رفاہی و خیراتی اداروں کو بند کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے –
ڈاکٹر مریم صالح نے مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے گفتگو میں کہا کہ وہ مغربی کنارے میں رکن پارلیمنٹ ہونے کی حیثیت سے فلسطینی رہنمائوں میں مذاکرات کے لئے کوشاں ہیں لیکن اگر کچھ لوگوں نے مذاکرات کے دروازے بند کردیئے تو پھر وہ کسی اور دروازے کی طرف جانے پر مجبور ہوں گی- انہوں نے کہا کہ مغربی کنارے کی فضا فلسطینیوں پر تنگ ہوگئی ہے – ایک طرف سے قابض افواج کی طرف سے وحشیانہ کارروائیاں جاری ہیں تو دوسری طرف سے ہمارے ہی بھائی بند ہم پر مصیبتوں کے پہاڑتوڑ رہے ہیں- نوجوانوں کو گرفتار کیا جا رہاہے – مدارس اور رفاہی و خیراتی اداروں کے سربراہان کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں- فلسطینی معاشی اور اجتماعی لحاظ سے وسیع پیمانے پرمشکلات کا شکار ہیں- اسرائیلی افواج نے متعدد خیراتی اداروں کو بند کیااور فلسطینی اتھارٹی نے ان کی بندش پر مہر ثبت کردی جس کے باعث خاندانوں کے خاندان معاشی مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں- معاشرے کے زیادہ تر خاندان انہی خیراتی اداروں پر تکیہ کرتے تھے-
کہناہے کہ فلسطینی سیکورٹی فورسز کی جانب سے سیاسی گرفتاریوں کے باعث نوجوانوں کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے- جب انہیں اپنی ہی فورسز گرفتار کرتی ہیں تو ان پر گہرانفسیاتی اثر پڑتاہے – وہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ہم اپنے ہی بھائی بندوں کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہیں- مزید برآں شہریوں میں بغض و کینہ پیدا ہو رہاہے-
اپنے صحافی بیٹے عبدالرحمن مصلح کی گرفتاری کے حوالے سے ڈاکٹر مریم صالح نے کہا کہ 26ستمبر کو ابھی ہم سحری کے لئے بھی نہیں اٹھے تھے کہ قابض اسرائیلی افواج بڑی تیاری کے ساتھ گھر میں وحشیانہ طور پر داخل ہوئیں- انہوں نے ہمیں کمرے چھوڑنے اور برآمدے میں کھڑے ہونے کا کہا- ڈاکٹر مریم صالح نے واقعات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی اہلکاروں کو یہ معلوم تھا کہ یہ میرا گھر ہے کیونکہ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم ڈاکٹر مریم صالح ہو جو وزیر رہ چکی ہو-انہوں نے بڑے وسیع پیمانے پر گھر کی تلاشی لی – کمپیوٹر اور میرے ڈاکومنٹس کو غصب کرلیاگیا-
اہلکاروں نے میرے تمام بیٹوں سے تفتیش کی کہ کیا ان کا تعلق اسلامی تحریک مزاحمت (حماس ) سے تو نہیں ؟میرے بیٹے عبدالرحمن کے بارے میں کہا کہ تم صہیونیت کے دشمن ہو اور اسی بناء پر اسے گرفتار کیاگیا-اسرائیلی فوجیوں نے اذان فجر سے قبل عبدالرحمن کو پانی تک پینے کی اجازت نہ دی – وہ ایک صحافی ہے ، اس کا کسی سیاسی تنظیم سے تعلق نہیں ہے – ابھی تک مجھے علم نہیں ہے کہ اسے کہاں رکھاگیا ہے اور وہ کس حالت میں ہے –
فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ وہ فلسطینی سیکورٹی فورسز کے سربراہان سے رابطے کررہے ہیں اور متاثرہ خاندانوں سے مسلسل رابطہ رکھے ہوئے ہیں لیکن تمام دست درازیاں سیاسی ہیں – سیاسی بنیاد پر شہریوں کو تنگ کیا جا رہاہے – آپ کی کوششیں ناکام ہوگئیں تو پھر کیا لائحہ عمل ہوگا – ڈاکٹر مریم صالح نے کہا ہمارے ارکان پارلیمنٹ مذاکرات کی کوشش کرتے رہیں گے کیونکہ مذاکرات ہی داخلی بحران کا واحد حل ہیں- رام اللہ اور البیرة میں خواتین کی ریلی کے حوالے سے ڈاکٹر مریم صالح نے کہاکہ یہ خواتین کی پر امن ریلی تھی- کسی کے خلاف نعرے نہیں لگائے گئے- صرف اتحاد واتفاق پیدا کرنے اور تنازعہ ختم کرنے کے حوالے سے نعرے بازی ہو رہی تھی لیکن سیکورٹی فورسز نے ہم پر آنسو گیس کے شیل پھینکے –
سیکورٹی فورسز کامقصدریلی کو رام اللہ شہر میں چکر لگانے سے روکنا تھا- سیکورٹی فورسز کا خیال تھا کہ مسجد سے نکلتے ہی ریلی کا خاتمہ کردیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا-مغربی کنارے میں ارکان پارلیمنٹ پر دباؤ کے حوالے سے ڈاکٹر مریم صالح نے کہاکہ حماس کے پارلیمانی گروپ ’’اصلا ح و تبدیلی ‘‘ کے ارکان پر قابض اسرائیلی افواج اور فلسطینی سیکورٹی فورسز دونوں کی طرف سے دباؤ ہے- قابض افواج نے میرے بیٹے کو گرفتار کیا تو صدر محمود عباس کو جوابدہ سیکورٹی فورسز میرے دفتر میں داخل ہوگئیں اور مجھے دھمکیاں دیں – مجھے فون کے ذریعے بھی دھمکیاں دی گئی ہیں- حماس کے رکن پارلیمنٹ خالد طافش کی گاڑی کی سخت تلاشی لی گئی اور رکن پارلیمنٹ منی منصور پر دست درازی کی گئی – منی منصور کو سیکورٹی کا بہانہ بنا کر عمرہ پر جانے سے روک دیا گیا – حماس کے ارکان کو مسجد اقصی میں نماز پڑھنے سے روکا جاتاہے- ڈاکٹر مریم صالح نے مزید کہاکہ میرے گھر کے دائیں طرف فلسطینی خفیہ ادارے کا دفتر اور بائیں طرف فلسطینی صدر محمود عباس کی رہائش گاہ واقع ہے لیکن اسرائیلی افواج کو روکنے کے لئے کوئی نہیں آیا – کسی نے میرا حال تک نہیں پوچھا- ڈاکٹر مریم صالح نے فلسطینیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اندرونی اختلافات کو ختم کرکے حقیقی دشمن سے مقابلہ کریں –
ان کے اسلحے کا رخ اپنے بھائیوں کی طرف نہیں بلکہ قابض کی طرف ہوناچاہیے- ڈاکٹر مریم نے واضح کیاکہ کسی قسم کا دباؤ انہیں اپنی عوام کی خدمت سے نہیں روک سکتا- انہوں نے کہاکہ میں ان بارہ ہزارماؤں سے بہتر نہیں ہوں جن کے بیٹوں کو قابض حکومت نے گرفتار کررکھاہے –
ڈاکٹر مریم صالح نے مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے گفتگو میں کہا کہ وہ مغربی کنارے میں رکن پارلیمنٹ ہونے کی حیثیت سے فلسطینی رہنمائوں میں مذاکرات کے لئے کوشاں ہیں لیکن اگر کچھ لوگوں نے مذاکرات کے دروازے بند کردیئے تو پھر وہ کسی اور دروازے کی طرف جانے پر مجبور ہوں گی- انہوں نے کہا کہ مغربی کنارے کی فضا فلسطینیوں پر تنگ ہوگئی ہے – ایک طرف سے قابض افواج کی طرف سے وحشیانہ کارروائیاں جاری ہیں تو دوسری طرف سے ہمارے ہی بھائی بند ہم پر مصیبتوں کے پہاڑتوڑ رہے ہیں- نوجوانوں کو گرفتار کیا جا رہاہے – مدارس اور رفاہی و خیراتی اداروں کے سربراہان کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں- فلسطینی معاشی اور اجتماعی لحاظ سے وسیع پیمانے پرمشکلات کا شکار ہیں- اسرائیلی افواج نے متعدد خیراتی اداروں کو بند کیااور فلسطینی اتھارٹی نے ان کی بندش پر مہر ثبت کردی جس کے باعث خاندانوں کے خاندان معاشی مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں- معاشرے کے زیادہ تر خاندان انہی خیراتی اداروں پر تکیہ کرتے تھے-
کہناہے کہ فلسطینی سیکورٹی فورسز کی جانب سے سیاسی گرفتاریوں کے باعث نوجوانوں کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے- جب انہیں اپنی ہی فورسز گرفتار کرتی ہیں تو ان پر گہرانفسیاتی اثر پڑتاہے – وہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ہم اپنے ہی بھائی بندوں کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہیں- مزید برآں شہریوں میں بغض و کینہ پیدا ہو رہاہے-
اپنے صحافی بیٹے عبدالرحمن مصلح کی گرفتاری کے حوالے سے ڈاکٹر مریم صالح نے کہا کہ 26ستمبر کو ابھی ہم سحری کے لئے بھی نہیں اٹھے تھے کہ قابض اسرائیلی افواج بڑی تیاری کے ساتھ گھر میں وحشیانہ طور پر داخل ہوئیں- انہوں نے ہمیں کمرے چھوڑنے اور برآمدے میں کھڑے ہونے کا کہا- ڈاکٹر مریم صالح نے واقعات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی اہلکاروں کو یہ معلوم تھا کہ یہ میرا گھر ہے کیونکہ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم ڈاکٹر مریم صالح ہو جو وزیر رہ چکی ہو-انہوں نے بڑے وسیع پیمانے پر گھر کی تلاشی لی – کمپیوٹر اور میرے ڈاکومنٹس کو غصب کرلیاگیا-
اہلکاروں نے میرے تمام بیٹوں سے تفتیش کی کہ کیا ان کا تعلق اسلامی تحریک مزاحمت (حماس ) سے تو نہیں ؟میرے بیٹے عبدالرحمن کے بارے میں کہا کہ تم صہیونیت کے دشمن ہو اور اسی بناء پر اسے گرفتار کیاگیا-اسرائیلی فوجیوں نے اذان فجر سے قبل عبدالرحمن کو پانی تک پینے کی اجازت نہ دی – وہ ایک صحافی ہے ، اس کا کسی سیاسی تنظیم سے تعلق نہیں ہے – ابھی تک مجھے علم نہیں ہے کہ اسے کہاں رکھاگیا ہے اور وہ کس حالت میں ہے –
فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ وہ فلسطینی سیکورٹی فورسز کے سربراہان سے رابطے کررہے ہیں اور متاثرہ خاندانوں سے مسلسل رابطہ رکھے ہوئے ہیں لیکن تمام دست درازیاں سیاسی ہیں – سیاسی بنیاد پر شہریوں کو تنگ کیا جا رہاہے – آپ کی کوششیں ناکام ہوگئیں تو پھر کیا لائحہ عمل ہوگا – ڈاکٹر مریم صالح نے کہا ہمارے ارکان پارلیمنٹ مذاکرات کی کوشش کرتے رہیں گے کیونکہ مذاکرات ہی داخلی بحران کا واحد حل ہیں- رام اللہ اور البیرة میں خواتین کی ریلی کے حوالے سے ڈاکٹر مریم صالح نے کہاکہ یہ خواتین کی پر امن ریلی تھی- کسی کے خلاف نعرے نہیں لگائے گئے- صرف اتحاد واتفاق پیدا کرنے اور تنازعہ ختم کرنے کے حوالے سے نعرے بازی ہو رہی تھی لیکن سیکورٹی فورسز نے ہم پر آنسو گیس کے شیل پھینکے –
سیکورٹی فورسز کامقصدریلی کو رام اللہ شہر میں چکر لگانے سے روکنا تھا- سیکورٹی فورسز کا خیال تھا کہ مسجد سے نکلتے ہی ریلی کا خاتمہ کردیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا-مغربی کنارے میں ارکان پارلیمنٹ پر دباؤ کے حوالے سے ڈاکٹر مریم صالح نے کہاکہ حماس کے پارلیمانی گروپ ’’اصلا ح و تبدیلی ‘‘ کے ارکان پر قابض اسرائیلی افواج اور فلسطینی سیکورٹی فورسز دونوں کی طرف سے دباؤ ہے- قابض افواج نے میرے بیٹے کو گرفتار کیا تو صدر محمود عباس کو جوابدہ سیکورٹی فورسز میرے دفتر میں داخل ہوگئیں اور مجھے دھمکیاں دیں – مجھے فون کے ذریعے بھی دھمکیاں دی گئی ہیں- حماس کے رکن پارلیمنٹ خالد طافش کی گاڑی کی سخت تلاشی لی گئی اور رکن پارلیمنٹ منی منصور پر دست درازی کی گئی – منی منصور کو سیکورٹی کا بہانہ بنا کر عمرہ پر جانے سے روک دیا گیا – حماس کے ارکان کو مسجد اقصی میں نماز پڑھنے سے روکا جاتاہے- ڈاکٹر مریم صالح نے مزید کہاکہ میرے گھر کے دائیں طرف فلسطینی خفیہ ادارے کا دفتر اور بائیں طرف فلسطینی صدر محمود عباس کی رہائش گاہ واقع ہے لیکن اسرائیلی افواج کو روکنے کے لئے کوئی نہیں آیا – کسی نے میرا حال تک نہیں پوچھا- ڈاکٹر مریم صالح نے فلسطینیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اندرونی اختلافات کو ختم کرکے حقیقی دشمن سے مقابلہ کریں –
ان کے اسلحے کا رخ اپنے بھائیوں کی طرف نہیں بلکہ قابض کی طرف ہوناچاہیے- ڈاکٹر مریم نے واضح کیاکہ کسی قسم کا دباؤ انہیں اپنی عوام کی خدمت سے نہیں روک سکتا- انہوں نے کہاکہ میں ان بارہ ہزارماؤں سے بہتر نہیں ہوں جن کے بیٹوں کو قابض حکومت نے گرفتار کررکھاہے –