فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان قیام امن کے لیے بلائی جانے والی مجوزہ امریکی کانفرنس انعقاد سے پہلے ہی ناکام ہوتی نظر آرہی ہے- اسرائیلی وزیر خارجہ تسیبی لیفنی نے کہا ہے کہ کانفرنس سے زیادہ توقعات وابستہ نہ کی جائیں- کانفرنس میں حتمی مسائل کے حل کے بجائے فلسطینی اتھارٹی کے اداروں کی ھئیت اور اسرائیل اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے طریقوں جیسے مسائل پر بحث کی جائے گی-
امریکی صدر جارج بش کی جانب سے مشرق وسطی امن کانفرنس کا انعقاد نومبر 2007ء کے وسط میں کیا جارہا ہے- کانفرنس میں اسرائیل، فلسطینی اتھارٹی اور بعض پڑوسی ممالک شامل ہوں گے- اس کانفرنس کا مقصد فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان قیام امن کے معطل شدہ عمل کو دوبارہ شروع کرنا ہے-
فلسطینی صدر محمود عباس کانفرنس پر سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں- وہ عرب ممالک کو کانفرنس میں شریک کرنے کے لیے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں- بین الاقوامی برادری سے کانفرنس کی کامیابی کی بھیک مانگ رہے ہیں- وہ اپنے بیانات کے ذریعے فلسطینیوں اور عربوں کو یہ تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ امن کانفرنس میں اسرائیل کے ساتھ مل کر مسئلہ فلسطین کے فیصلہ کن تصفیہ کے لیے بنیادی اصول طے کرلیے جائیں گے، جس کے بعد شروع ہونے والے مذاکرات میں امن معاہدہ تک پہنچنے کے لیے ٹائم فریم کا اعلان کیا جائے گاجو چھ ماہ سے زائد نہیں ہوگا-
دوسری جانب محمود عباس کی خواہشات کے برعکس اسرائیل کے کچھ اورہی ارادے ہیں جن کا اظہار وزیر خارجہ تسیبی لیفنی کے حالیہ بیانات میں ملتا ہے- لیفنی نے امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس کے سامنے بین الاقوامی کانفرنس کی حدود متعین کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت صرف بیان بازی پر کانفرنس کی متمنی ہے- تل ابیب سے عبرانی زبان میں شائع ہونے والے اخبار ’’معاریف‘‘ کے مطابق تسیبی لیفنی نے 19 ستمبر کو بیت المقدس میں کونڈا لیزا رائس سے ہونے والی ملاقات میں واضح کردیا تھا کہ تل ابیب امن کانفرنس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرنے کا خواہاں نہیں ہے- یہ امید نہ لگائی جائے کہ کانفرنس میں وہ تمام مسائل زیر بحث لائیں جائیں گے جو مسئلہ فلسطین کے حتمی حل کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، ان امور میں بیت المقدس، سرحدوں کا تعین اور پناہ گزینوں کی واپسی جیسے مسائل شامل ہیں- اسرائیلی وزیر خارجہ نے کونڈا لیزا رائس کو تجویز دی کہ کانفرنس میں حتمی مسائل کی بجائے فلسطینی اتھارٹی کے اداروں کی ہئیت، سیکورٹی فورسز کا ڈھانچہ اور فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے طریقوں جیسے عمومی مسائل زیر بحث لائے جائیں-
مبصرین کے خیال میں محمود عباس کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی واشنگٹن سے خالی ہاتھ واپس لوٹے گی- اسرائیل اور امریکہ کو ایک اور کامیابی حاصل ہوگی- محمود عباس کی ناکامی اور اسرائیل کی کامیابی کی متعدد وجوہات ہیں- سیاسی مذاکرات کے آغاز کے لیے اسرائیل اس شرط پر مصر ہے کہ فلسطینی حکومت پناہ گزینوں کی واپسی کے حق سے دستبردار ہو- لہذا اسرائیلی حکومت کسی بھی صورت میں امن کانفرنس میں پناہ گزینوں کے مسئلہ کو زیر بحث لانے پر تیار نہیں ہوگی بلکہ اس کے برعکس وہ پناہ گزینوں کے حق واپسی کو ختم کرنے پر زور دے گی- ایسے خیالات کا اظہار اسرائیلی وزیر خارجہ کئی بار اپنے بیانات میں کرچکی ہیں- ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کسی بھی معاہدے میں ایک بھی فلسطینی مہاجر کو واپس آنے کی اجازت دینے پر اتفاق نہیں کرے گا- مہاجرین کی واپسی کے مسئلہ کو ختم سمجھا جائے- اسرائیل میں حکومتی جماعت ’’کادیما‘‘ کی قیادت نے واضح انکار کیا ہے کہ فیصلہ کن حل کے لیے فلسطینیوں سے کوئی معاہدہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی بیت المقدس یا پناہ گزینوں کے حوالے سے اسرائیلی مؤقف میں کوئی تبدیلی لائی جائے گی- وزیر مواصلات شائول موفاز نے کہا ہے کہ فلسطینیوں سے فیصلہ کن معاہدے کے لیے یہ وقت مناسب نہیں ہے ان کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کوئی جائیداد کا ٹکڑا نہیں ہے- اور نہ ہی کسی کو بیت المقدس کو تقسیم کرنے کا حق ہے-
امریکہ اسرائیل کے اس مؤقف کی حمایت کرے گا کہ آئندہ کسی ملاقات یا کانفرنس میں فیصلہ کن مسائل کو نہ چھیڑا جائے کیونکہ تل ابیب اور واشنگٹن کے درمیان 2005ء میں معاہدہ طے پاچکا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے کے پندرہ فیصد علاقے اور بیت المقدس پر مکمل طور پر قابض رہے گا- سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایرئیل شیرون کے ناظم دفتر دوف فائس غلاس کے مطابق اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان حتمی حل کا مرحلہ گزرچکا ہے- اس حوالے سے بات 14 اپریل 2005ء کو اس وقت ختم ہو چکی ہے جب صدر بش نے ارئیل شیرون کو خط ارسال کیا تھا- خط میں امریکی صدر نے مغربی کنارے کی بڑی آبادیوں کو برقرار رکھنے، بیت المقدس اور مضافات پر قبضہ رکھنے اور کسی بھی فلسطینی مہاجر کو مقبوضہ فلسطین واپس نہ آنے دینے پر زور دیا تھا- صدر بش نے متعین کردیا تھا کہ اسرائیل کا مغربی کنارے کے پندرہ فیصد حصے اور مکمل بیت المقدس پر قبضہ باقی رہے گا- ماضی میں ہونے والے اسرائیلی مذاکرات اور امن بات چیت سے ثابت ہو چکا ہے کہ بین الاقوامی اہتمام ،کانفرنسوں کی بھرمار، معاہدوں اور وعدوں کے باوجود فلسطینیوں کو چند ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں ملا- اس کے مقابلے میں عرب اور فلسطینی تمام عرصہ اسرائیل کو مفت میں رعایتیں پیش کرتے رہے ہیں-
یہ بات اگر تسلیم بھی کرلی جائے کہ امن کانفرنس طرز کی بین الاقوامی ملاقاتیں کسی نہ کسی نتیجے کی طرف لے جاسکتی ہیں- لیکن لبنان جنگ کے بعد ایہود اولمرٹ حکومت سیاسی طور پر کمزور ہوئی ہے اور یہ کمزوری اس بات میں شکوک و شبہات پیدا کررہی ہے کہ کیا ایسی کمزور حکومت معاہدوں پر عمل کرنے اور فلسطینیوں کو کچھ دینے کی اہلیت رکھتی ہے- یہی بات فلسطینی صدر محمود عباس کے بارے میں کی جاسکتی ہے کہ کیا وہ تمام فلسطینیوں کے نمائندہ ہیں؟ کیا وہ اسرائیل کے جھوٹے وعدوں کے مقابلے میں مزید دستبرداری کی اہلیت رکھتے ہیں- بالخصوص ’’فتح‘‘ کے اندر محمود عباس کی اور ان کی ٹیم کی مخالفت میں اضافہ ہو چکا ہے-
اسرائیلی اور فلسطینی حلقوں میں کیے جانے والے سروے میں کثرت رائے سے بین الاقوامی امن کانفرنس کی ناکامی کی بات کی جارہی ہے- نابلس کی جامعہ نجاح یونیورسٹی اور تل ابیب یونیورسٹی کے شتاینتمز مرکز کی طرف سے کیے گئے سروے کے نتائج آچکے ہیں- نجاح یونیورسٹی سروے کے مطابق 57.3 فیصد فلسطینیوں کے خیال میں کانفرنس ناکام ہوگی جبکہ صرف 23.8 فیصد افراد نے کامیابی کے امکان کا اظہار کیا- ’’شتاینمتز‘‘ مرکز کی رپورٹ کے مطابق سروے میں شامل 58.5 فیصد افراد کی رائے میں کانفرنس کی کامیابی کے امکانات کم ہیں جبکہ اکتیس افراد کے مطابق کامیابی کے امکانات نصف ہیں اور پانچ فیصد کا ماننا ہے کہ کانفرنس کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہیں-
سروے میں شامل 87 فیصد افراد کے مطابق محمود عباس کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی امن معاہدے طے کرنے کے لیے بہت کمزور ہے اس طرح 86.5 فیصد افراد کے مطابق اسرائیل میں ایہود اولمرٹ کی حکومت کو مطلوبہ تعاون حاصل نہیں ہے-
ماہرین کے خیال میں محمود عباس نے خود کو کمزور رسی سے باندھ رکھا ہے- انہیں آہ بکا کے سوا کچھ نہیں ملے گا- وہ سراب میں بھٹک رہے ہیں، جہاں پیاسے کو پانی میسر نہیں آنے والا-
امن کانفرنس کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے
اتوار 7-اکتوبر-2007
مختصر لنک: