فلسطینی صدر محمود عباس اور اسرائیل کے درمیان جاری مذاکرات میں صدر عباس کے کئی اہم بنیادی قومی مفادات سے دستبردار ہونے انکشاف کیا گیا ہے- عبرانی اخبار ’’معاریف‘‘ کی رپورٹ کے مطابق صدر عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے پانچ چھ ادوار میں صدر عباس پناہ گزینوں کی واپسی کے مطالبے کیے القدس کی آزادی سے دستبردار ہوگئے ہیں-
رپورٹ کے مطابق اگست کے آخری ہفتے میں ہونے والی بات چیت میں دونوں راہنمائوں نے کئی تنازعات ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے- مذاکرات میں طے کیا گیا ہے کہ صدر عباس 1948ء اور اس کے بعد بے دخل کیے گئے لاکھوں فلسطینیوں کی وطن واپسی کے مطالبے کو نہیں دہرائیں گے، جبکہ مقبوضہ بیت المقدس کے بارے میں فیصلہ کیا گیا ہے- یہ دونوں ریاستوں اسرائیل اور فلسطین کا مشترکہ دارالحکومت ہوگا جبکہ اس کو مشرقی اور مغربی کے تقسیم کے فارمولے پرعمل نہیں کیا جائے گا- مذاکرات میں مسجد اقصی کے حوالے سے طے کیا گیا ہے کہ اس پر اسرائیل کنٹرول محدود کردے گا تاہم یہ دونوں حکومتوں کی کسٹڈی میں رہے گی- معاریف کی رپورٹ کے مطابق اولمرٹ نے صدر عباس کا یہ جملہ بار بار دھرایا کہ انہوں نے رواں مذاکرات میں کہا کہ ’’انہوں نے کہا فلسطینیوں کے اسرائیل واپسی کا مطالبہ کب کیا وہ صرف یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں فلسطین آنے دیا جائے-‘‘ اس پر وزیر اعظم اولمرٹ کا کہنا تھا کہ اب یہ بات واضح ہے کہ صدر عباس پناہ گزینوں کے اسرائیل واپسی کے مطالبے کو نہیں دہرائیں گے-
رپورٹ کے مطابق غرب اردن میں قائم یہودی آبادیوں کے مسئلے پر مذاکرات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ یہ کالونیاں اپنی جگہ پر قائم رہیں گی- البتہ اسرائیل 1948ء کے مقبوضہ علاقے سے اتنا رقبہ فلسطینی ریاست کو منتقل کردے گا-
رپورٹ کے مطابق اگست کے آخری ہفتے میں ہونے والی بات چیت میں دونوں راہنمائوں نے کئی تنازعات ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے- مذاکرات میں طے کیا گیا ہے کہ صدر عباس 1948ء اور اس کے بعد بے دخل کیے گئے لاکھوں فلسطینیوں کی وطن واپسی کے مطالبے کو نہیں دہرائیں گے، جبکہ مقبوضہ بیت المقدس کے بارے میں فیصلہ کیا گیا ہے- یہ دونوں ریاستوں اسرائیل اور فلسطین کا مشترکہ دارالحکومت ہوگا جبکہ اس کو مشرقی اور مغربی کے تقسیم کے فارمولے پرعمل نہیں کیا جائے گا- مذاکرات میں مسجد اقصی کے حوالے سے طے کیا گیا ہے کہ اس پر اسرائیل کنٹرول محدود کردے گا تاہم یہ دونوں حکومتوں کی کسٹڈی میں رہے گی- معاریف کی رپورٹ کے مطابق اولمرٹ نے صدر عباس کا یہ جملہ بار بار دھرایا کہ انہوں نے رواں مذاکرات میں کہا کہ ’’انہوں نے کہا فلسطینیوں کے اسرائیل واپسی کا مطالبہ کب کیا وہ صرف یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں فلسطین آنے دیا جائے-‘‘ اس پر وزیر اعظم اولمرٹ کا کہنا تھا کہ اب یہ بات واضح ہے کہ صدر عباس پناہ گزینوں کے اسرائیل واپسی کے مطالبے کو نہیں دہرائیں گے-
رپورٹ کے مطابق غرب اردن میں قائم یہودی آبادیوں کے مسئلے پر مذاکرات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ یہ کالونیاں اپنی جگہ پر قائم رہیں گی- البتہ اسرائیل 1948ء کے مقبوضہ علاقے سے اتنا رقبہ فلسطینی ریاست کو منتقل کردے گا-