چهارشنبه 30/آوریل/2025

احمدی نژاد کی راست گوئی، فلسطینی قیمت کیوں ادا کریں؟

پیر 1-اکتوبر-2007

ایرانی صدر محمد احمدی نژاد نے 24 ستمبر کو کولمبیا یونیورسٹی نیویارک کے طلبہ اور مقبوضہ بیت المقدس اساتذہ سے خصوصی خطاب کیا- انہوں نے دنیا بھر میں موجود ان کروڑوں لوگوں ان میں امریکی بھی شامل ہیں کی نمائندگی کی جو جارج بش کی دوغلی پالیسیوں، جرائم اور دروغ گوئی سے عاجز آچکے ہیں-
احمد نژاد نے کئی قانونی سوالات اٹھائے- اسرائیل کے حامی مدتوں سے اس جدوجہد میں ہیں کہ دنیا کے ضمیر کو ان نکات سے دور رکھا جائے- صہیونی لابی کو اس بات پر شدید غصہ ہے کہ یہ سوالات ایک اہم فورم کے سامنے اٹھائے گئے اور ان پر روشنی ڈالی گئی اور ساری دنیا کی نگاہیں اس پر مرکوز ہیں-
احمد نژاد نے نہایت سادگی سے ایک سوال اٹھایا- یہ سوال عموماً لاکھوں عرب بھی اور مسلمان بھی اور دنیا کے دیگر باضمیر لوگ بھی اٹھاتے ہیں کہ آخر فلسطینی لوگ ایک ایسے واقعے کی قیمت کیوں ادا کررہے ہیں جس سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور اگر ھولوکاسٹ کا واقعہ رونماء ہوا بھی تھا تو اس کی قیمت فلسطینیوں سے کیوں وصول کی جائے- آخر کیوں؟
مذکورہ بالا سوال اور دیگر سوالات نے امریکہ میں اسرائیل کے جنونی حامیوں اور خیر خواہوں کو شدید صدمے سے دوچار کردیا اور انہوں نے سات کروڑ بیس لاکھ ایرانیوں کے نمائندہ صدر احمدی نژاد کو دشنام طرازی، ذاتی حملوں اور رکیک تبصروں کی زد پر رکھ لیا تاکہ دنیا کی توجہ فلسطین میں صہیونی بربریت اور تشدد سے ہٹائی جاسکے- جس شرمناک ردعمل کا اظہار کیا گیا اس سے ثابت ہوگیا کہ صہیونیت عقل و دلیل کے میدان میں تہی دامن ہو چکی ہے-
احمدی نژاد نے بے بس فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے گستایونما اقدامات کے بارے میں بھی توجہ مرکوز کی- بجائے اس سے کہ احمد نژاد کے اسرائیل کے بارے میں قانونی اور منطقی سوالات کے جوابات فراہم کیے جاتے- اسرائیلی مقبوضہ بیت المقدس سے لے کر اسرائیلی مقبوضہ کانگریس تک صہیونی لیڈر ایرانی صدر کی راست گوئی اور بے باکی پر سیخ پا ہوگئے-
کولمبیا یونیورسٹی کے صدر لی بولینگر نے صہیونی ناقدین کو خوش کرنے کے لیے جنہوں نے کولمبیا یونیورسٹی میں احمدی نژاد کو خطاب کی دعوت دینے پر شدید تنقید کی تھی، نے ایرانی صدر پر براہ راست ذاتی حملہ کیا- بولینگر کے کلمات ادب و آداب، شائستگی اور انسانی متانت کے بالکل خلاف تھے-
بولینگر نے کہا کہ جناب صدر آپ میں ایک ظالم ڈکٹیٹر کی تمام علامات موجود ہیں- لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر احمد نژاد ایک ظالم ڈکٹیٹر ہیں تو پھر جارج ڈبلیو بش کی کیا حیثیت ہوگی؟
کیا بولینگر اس سے واقف نہیں ہے کہ جارج بش کی دنیا بھر میں ظالمانہ پالیسیوں کی وجہ سے براہ راست یا بلاواسطہ کتنے ہزار لوگ موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں- کیا وہ جانتے نہیں ہیں کہ کسی آزاد ملک پر حملہ کرنے قبضہ کرنے اور جھوٹے بے بنیاد دعوئوں کے ذریعے اسے تباہ کرنے کا کیا مطلب ہوتا ہے-
کیا بولینگر کو معلوم نہیں ہے کہ اسرائیل کو مسلح کرنے کے براہ راست یا بلاواسطہ کیا نقصانات مرتب ہوئے ہیں اور اسرائیل کے یہ اقدامات موسی علیہ کی تورات سے اڈولف ہٹلر کی ’’مین کمف‘‘ سے زیادہ متشابہہ میں اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے سے مشرق وسطی کے لوگوں کا اجتماعی قتل عام آہستہ روی سے جاری ہے اور اس کی تازہ ترین مثالیں لبنان اور غزہ میں ہے-
علاوہ ازیں کیا بولینگر اس پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک ھولوکاسٹ سے اس کا جواز مل جاتا ہے کہ ایک اور ھولو کاسٹ کو وجود میں لایا جائے- ایک ایسی قوم کے خلاف جو معصوم لوگوں پر مشتمل ہے اور اس کا واحد جرم یہ ہے کہ وہ سیاسی اور عسکری طور پر کمزور ہے-
جہاں تک ظالمانہ ڈکٹیٹروں کی بات ہے کیا بولینگر نہیں جانتے کہ اس معاملے میں بھی ان کا اپنا ملک ہی سرفہرست ہے- امریکہ ہی وہ ملک ہے کہ جو دنیا بھر کے ڈکٹیٹروں کا نگہبان، نگران اور سرپرست ہے- ان ڈکٹیٹر حکمرانوں کے نام بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جو اپنے ہی لوگوں کو تشدد اور قتل و غارت کا نشانہ صرف امریکہ کی سرپرستی کی بناء پر ہی بناتے ہیں-
محسوس ہوتا ہے کہ بش کے بولینگر کی طرز کے پیروکار بش کی طرح خود سر مغرور ہیں جو سوچے بغیر بولتے ہیں ورنہ ان کی تقریر میں عقل و دانش اور راست بازی کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور شامل ہوتا- بش کے پیروکار یہ بالکل نہیں سوچتے کہ اس بدترین فاشزم سے امریکہ کا عوامی تاثر دریا برد ہوچکا ہے- بین الاقوامی تعلقات کو زہر آلود کررہا ہے اور دنیا کے کئی حصوں میں بے حد و حساب دکھوں اور مشکلات کو جنم دے رہا ہے اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا-
کولمبیا یونیورسٹی میں صدر احمدی نژاد کی تقریر کے ردعمل میں امریکہ کی اہم یہودی تنظیموں کے سربراہوں نے احمدی نژاد کو ’’ہٹلر‘‘ اور اسی قسم کے دیگر القابات سے نوازا- اگر ہٹلر احمدی نژاد جیسا تھا تو یہ جان لینا چاہیے کہ مشرق وسطی میں مقبوضہ سب سے بڑی یہودی آبادی کے بعد ایران وہ ملک ہے کہ جہاں یہودی سب سے زیادہ ہیں، اس لحاظ سے تو ہٹلر ایک اچھا آدمی ثابت ہوتا ہے- اس لیے ضروری ہے کہ ہم فیوچر کا بھی احترام کریں- کیا منتشر ذہن رکھنے والے صہیونی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ جنگ عظیم دوم کے دوران یہودیوں کے ساتھ پیش آنے والے المیے کی اہمیت اس وقت گھٹا دیتے ہیں کہ جب وہ اسرائیل کے ظالمانہ رویے پر تنقید کرنے والوں کو تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کا موازنہ اسرائیل کے ساتھ کرتے ہیں-
کیا وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا صہیونیوں کی کذب بیانیوں اور دروغ گوئیوں کو ہمیشہ ہمیشہ سے درست تسلیم کرتی رہے گی- امریکہ کے اندر بھی جہاں قومی پالیسیوں اور رائے عامہ پر صہیونی کنٹرول بہت زیادہ ہے- وہاں بھی کئی امریکی ایسے سوالات اٹھانے لگے ہیں جن کو سننا اور جواب دینا صہیونی پسند نہیں کرتے- حال ہی میں امریکی سیاسیات اور پالیسیوں پر اسرائیلی گرفت کے حوالے سے دو اہم کتابیں منظر عام پر آئی ہیں ان میں سے سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی کتاب ’’فلسطین پیس ناٹ ایارتھائیڈ‘‘ ہے اور دوسری کتاب جان جے مرشے مر اور سٹیفن ایم والٹ کی ’’اسرائیلی لابی اور یو ایس فارن پالیسی‘‘ ہے جو کئی امریکیوں کے لیے اور اہل مغرب کے لیے حقیقی طور پر چشم کشا ثابت ہوں گی- ان امریکیوں اور اسرائیلیوں کے لیے جو صہیونی جھوٹے پراپیگنڈے اور کذب بیانیوں کو جشم و جاں کا حصہ بناتے چلے آرہے ہیں-
اب وقت آگیا ہے کہ صہیونیوں کو پتہ لگ جانا چاہیے کہ اگر وہ اپنے غلط راستوں کو ترک نہ کریں گے تو ان کا ھیکل ثالث بھی اسے انجام سے دوچار ہوگا- جس کا سامنا ھیکل اول اور ھیکل دوم کو سامنا کرنا پڑا- یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ بہت سے یہودیوں کی قسمت ان دروغ گو صہیونیوں کے ہاتھ میں گروی رکھ دی گئی ہے-

مختصر لنک:

کاپی