چهارشنبه 30/آوریل/2025

اسرائیلی دانش وروں نے حماس سے جنگ بندی کی حمایت کردی

منگل 25-ستمبر-2007

اسرائیلی نوجوانوں کی بھی بڑی تعداد فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے خلاف لازمی ملٹری سروس میں حصہ لینے کے لیے تیار نہیں ہے- علاوہ ازیں اسرائیلی دانشوروں کا ایک گروپ اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کررہا ہے کہ قیام امن کے لیے حماس کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کردے-
روزنامہ ’’ہارٹز‘‘ کی چوبیس ستمبر کی اشاعت میں اسرائیلی دانشوروں کی جانب سے ایک اپیل کی خبر شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کے لئے معقول راستہ یہ ہے کہ حماس کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں اور جنگ بندی کا اعلان کیا جائے تاکہ دونوں اطراف سے ہونے والے نقصان کو کم کیا جاسکے- درخواست گزاروں نے اپیل پر دستخط کیے ہیں- دستخط کرنے والوں میں عالمی شہرت رکھنے والے ادیب آموس اور اے بی پے ھوشا، ڈیوڈ گراس مین اور ڈرامہ نگار مہیوشوا سوبل شامل ہیں- بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی کرنے کے بعد اسرائیل پر راکٹ حملے بند ہو جائیں گے-
 حماس نے تین ماہ قبل غزہ کا کنٹرول فتح کے ساتھ شدید لڑائی کے بعد سنبھالا تھا اور فلسطینی مزاحمتی جماعتوں سے اپیل کی تھی کہ اسرائیل کے ساتھ ملنے والے سرحدی علاقے میں راکٹ نہ گرائے جائیں اور اسرائیل کے ساتھ امن کا معاہدہ کرلیا جائے- نومبر میں اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ اور فلسطینی صدر محمود عباس کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا تاکہ چھ ماہ سے جاری جارحیت ختم کردی جائے- اس فوجی کارروائی کے دوران 400 فلسطینی جاں بحق ہوئے تھے اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے حماس پہلے سے ہی جنگ بندی کے معاہدے کا احترام کرتی چلی   رہی ہے لیکن چند فلسطینی جماعتیں اسرائیلی حملوں کے جواب میں راکٹوں سیاب بھی  حملے کرتی ہیں-
اسرائیلی دانشوروں نے اولمرٹ سے اپیل کی ہے کہ نومبر میں ہونے والی مجوزہ فلسطین کانفرنس کے دوران محمود عباس سے امن معاہدہ کرلیا جائے- اپیل کرنے والے دانشوروں نے کہا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ اسرائیل کوایک موقع ملا ہے کہ نومبر میں ہونے والی علاقائی کانفرنس سے پہلے ہی قیام عمل کے لیے راستہ بنایا جائے- انہوں نے کہا کہ ہم وزیر اعظم سے اپیل کرتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت سے قابل عمل معاہدے کرلیں اور اس موقع کو ضائع نہ کریں- اسرائیل کا چاہتا ہے کہ اس کانفرنس کے دوران ایک مشترکہ بیان جاری ہونا چاہیے جن میں انتہائی اہم امور کے بارے میں حتمی بات شامل ہونا چاہیے- اس بارے میں اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ اسرائیلی پارلیمان ’’کنیست‘‘ کی طاقتور خارجہ امور اور دفاعی کمیٹی کو بریفنگ بھی دے چکے ہیں-
 اس کے برعکس فلسطینی چاہتے ہیں کہ اہم معاملے پر تفصیلی معاہدہ طے پانا چاہیے- ان میں مہاجرین سرحدیں اور مقبوضہ بیت المقدس کا مسئلہ شامل ہیں، جبکہ اسرائیل چاہتا ہے کہ اس کانفرنس میں مبہم سا بیان سامنے آئے- مشرق وسطی میں قیام امن کے لیے چار رکنی سفارتی گروپ جس میں امریکہ، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور روس شامل ہیں نے اس کانفرنس کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کردیا ہے- چار رکنی کمیٹی نے سال 2003ء میں ایک ’’نقشۂ راہ‘‘ تیار کیا تھا تاکہ اسرائیل و فلسطین امن ایک پائیدار حقیقت بن سکے- لیکن تین مراحل پر مبنی فلسطینی ریاست جس نے 2005ء تک قائم ہو جانا تھا کا مسئلہ ابھی تک تاخیر کا شکار ہوتا جارہا ہے-
فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے خلاف کئی اسرائیلی نوجوان لازمی فوجی سروس سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں- ھاگے مائر،جس نے ملٹری سروس سے انکار کردیا تھا اور دو سال قید کی سزا بھگتی تھی نے رائٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اب محسوس کررہے ہیں کہ ہمیں یہ ملٹری سروس نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جنگ بھی جاری ہے اوراسرائیل کا ناجائز قبضہ بھی جاری ہے-
اسرائیلی فوج میں مرد تین سال اور عورتیں دو سال تربیت حاصل کرتی ہیں- ملٹری سروس سے انکار کرنے والے گروپ کے راہنماء ارلک الھانان کا کہنا ہے اسی صد فیصد ریزرو فوجیوں کا اسرائیلی فوج پر اعتماد ختم ہوگیا ہے کیونکہ اسرائیلی فوج فلسطینیوں کے خلاف جارحانہ پالیسیاں اختیار کرتی ہے اور فوجیوں کو استعمال کرتی ہے- سال 2007ء میں ہر چار میں سے ایک شخص جبری ملٹری سروس کا مخالف بنایاگیااور ترتالیس فیصد عورتیں جبری ملٹری سروس کی مخالف پائی گئیں-
ستمبر 2003ء میں ستائیس ریزرو اور حاضر سروس فضائیہ کے ملازمین نے ایک خط پر دستخط کیے تھے اور کہا تھا کہ وہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینی شہریوں پر ’’غیر قانونی اور غیر اخلاقی‘‘ حملوں میں شریک نہ ہوں گے- انہوں نے کہا کہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی حملوں سے اسرائیل کا اخلاقی سانچہ اور شناخت تباہ ہو چکے ہیں- فلسطینی علاقوں میں فوجی کارروائی میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کرنے والے سار واردی کا کہنا ہے کہ لوگ مجھے غدار کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس ملک نے مجھے جو کچھ دیا ہے اس کے جواب میں میں کچھ نہیں کررہا ہوں لیکن جس طرح معاملات کو میں دیکھ رہا ہوں یہ لوگ بھی دیکھیں تو فوج ہی کی ضرورت نہیں ہوگی-

مختصر لنک:

کاپی