چهارشنبه 30/آوریل/2025

صابرہ اور شاتیلہ :پچیس سال بعد

جمعہ 21-ستمبر-2007

17ستمبر 1982ء کو بیروت کے نزدیک واقع صابرہ شاتیلہ مہاجر کیمپوں میں خوفناک حادثات کا ایک سلسلہ شروع ہوا، اسرائیلی حکومت کے ایماء پر اسرائیلی اسلحے سے مزین مسیحی قوتوں نے فلسطینیوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتاردیا-
اڑتالیس گھنٹے تک ان وحشیوں نے ایک ایک کیمپ، ایک ایک خیمہ کی تلاشی لی اور ہر خیمے میں موت کا کھیل اس طرح کھیلا کہ موجود لوگوں کو قتل کردیا گیا- زخمی کردیاگیا یا موجودہ عورتوں کی عصمت دری کی گئی- اس کے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کہ ہلاک و زخمی ہونے والوں کی اصل تعداد کیاتھی تاہم اس پر زیادہ اتفاق ہے کہ شکار بننے والوں کی تعداد  2000 سے 3500 کے درمیان ہے –
یہ ایک دردناک اور انتہائی افسوسناک واقعہ تھا – انسانی لاشیں ہر طرف، ہر گلی، ہر مکان میں پھیلی ہوئیں تھیں، ایسی لاشیں بھی ملیں کہ جن کے گرد بجلی کے تار لپیٹے ہوئے تھے-جسم سڑ کر سیاہ ہوچکے تھے، جسم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے ان کو ادھر ادھر پھینک دیا گیاتھا، عورتوں کو اذیتیں دے دے کر عصمت دری کے بعد موت کے گھاٹ اتارا گیاتھا- عورتوں کی ٹانگیں اس عالم میں الگ کی گئی تھیں کہ ان کی شرمگاہ چھپانے کے لئے مرنے کے بعد بھی کپڑے کا ٹکڑا ان کے جسم پر موجود نہ تھا-بہت سی عورتوں کو اس وقت گولی ماردی گئی کہ جب وہ اپنے باورچی خانوں میں کھانا پکار رہی تھیں، دو ہلاک شدہ عورتوں کے نزریک ایک شیر خوار بچے کی لاش اس حالت میں پڑی تھی کہ اس کا سر غائب تھا، بچوں کو ذبح کرنے کے بعد ان کی لاشوں کا ڈھیر لگایاگیاتھا، اور ان کی نعشوں میں تعفن پیدا ہوگیاتھا، بچوں کے گلے کاٹ ڈالے گئے تھے اور ان بچوں کا خون ان کے گھروں کی دیواروں پر پھیلایا گیاتھا-
پورے پورے گھروں کو کلہاڑے کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیاگیاتھا، اس کو ایک اور آش وز قرار دیا جاسکتاہے اور اس کا شکار فلسطینی بنے تھے اور بے رحم یہودی قاتل اس کے ذمہ دار تھے- یہ وسیع البنیاد اجتماعی قتل عام اسرائیلی حکومت کی رضا مندی اور اجازت کے ساتھ روبہ عمل لایا گیاتھا یہ اسرائیلی فوج تھی جس نے قاتلوں کو اسلحہ فراہم کیاتھا، ان قاتلوں کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ ان کیمپوں اور ان گھروں میں جائیں اور خون کی ہولی کھیلیں-
یہودی اور مسلح قاتل، قتل عام کرتے رہے اور اسرائیلی فوج اور پولیس لمحہ بہ لمحہ اس کو دیکھتی رہی اور کوئی کارروائی نہ کی- رات کے وقت اسرائیلی فوج نے قاتلوں کی مدد اس طرح کی کہ روشنی کے بڑے بڑے غبارے جلائے گئے تاکہ قتل عام سے جو فلسطینی بچ گئے تھے وہ رات کے وقت بھی بآسانی دستیاب ہوجائیں-
ان میں سے کچھ مہاجرین نے فرارکی کوشش کی تو ان کا یہ خیال بھی غلط ثابت ہوگیا کہ اسرائیلی فوج میں انسانیت کی رمق باقی ہے کیونکہ جب وہ فرار ہو رہے تھے، اسرائیلی فوج نے ان کے پیچھے کتے چھوڑ دیئے تاکہ وہ مہاجر کیمپ میں واپس جائیں اور موت کا سامنا کریں- تل ابیب میں اسرائیلی حکومت نے شمالی امریکہ میں موجود یہودی کنٹرول میں میڈیا کے تعاون سے اسرائیلی حکومت کے اس قتل عام کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا بلکہ اس کا الزام بھی فلسطینیوں کی سر منڈھ دیا-
ذرائع ابلاغ نے اس واقعے کو اس طرح پیش کیاگویا عربوں کو عرب قتل کررہے ہیں اس میں یہودیوں کا کیا کام ہے- اس وقت اسرائیل کے وزیراعظم مناہیم بیگن جسے دیریاسین قتل عام کا ہدایت کار بھی کہا جاتاہے نے اسے کمال فن کاری سے عربوں کی باہمی لڑائی قرار دیا-
صابرہ اور شاتیلہ کے کیمپوں میں جو قتل عام ہوا اس وقت میں جنوبی الے نائے کے علاقے کاربن ڈیل میں ماسپر ڈگری کا طالب علم تھا- امریکی ذرائع ابلاغ کی نشر کردہ خبروں سے معلوم ہوتا تھا کہ اصل کہانی یہ نہیں تھی کہ اسرائیلیوں اور یہودیوں نے عربوں کو چھوٹے سے علاقے میں گھیر کر ان کو موت کے گھاٹ اتارنے کا سلسلہ شروع کررکھاتھا بلکہ اصل کہانی یہ تھی کہ عربوں نے یہودیوں کو ختم کرنے کے لئے اور یہودیوں نے اپنی دشمنی کے اظہار کے لئے یہ کام کیاتھا- مناہیم بیگن کا ریکارڈ، نازی جرمنوں سے بالکل مختلف نہیں ہے لیکن اسے نوبل انعام سے نوازا گیا- وہ اس انتہا کو پہنچ گیاتھاکہ وہ چاہتاتھاکہ جس طرح قرون وسطی میں یہودیوں نے مسلمانوں کا خون بہاکر ہلاک کیاتھا ، صابرہ اور شاتیلہ میں بھی اسی طرح خون بہایا جائے- ایک اسرائیلی شہری نے جس کا سابقہ تعلق اٹلی سے تھا نے بتایا کہ کچھ یہودیوں نے مسیحی بچوں کاخون بہا کر پیا تاکہ ان کی ذاتی قوت و کرامت میں اضافہ ہوسکے- صابرہ اور شاتیلہ میں فلسطینیوں کا اجتماعی قتل عام ایک الگ تھلگ واقع نہیں ہے- ان کی باضابطہ منصوبہ بندی کی گئی تھی اور اس پر عمل درآمدکے لئے مناسب موقع کی تلاش کی گئی- اس قتل عام کی اصل ذمہ داری چیف  آف آرمی سٹاف ارئیل شیرون کو سونپی گئی تھی –
دیگر اسرائیلی افسر مثلاً  موس یارون نے بھی اس قتل عام کو موثر بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا – اب ارئیل شیرون گزشتہ دوبرسوں سے قومے کی حالت میں ہسپتال میں داخل ہے ، ہوسکتاہے کہ اسے معصوم بچوں کے قتل کی سزا دی جا رہی ہے-اسرائیلی کارندے علی پوبیکا جس نے اس کاروائی کے دوران وحشیانہ قتل عام کا براہ راست مشاہدہ کیاتھا وہ بھی چند برس بعد بیروت میں قتل کردیاگیاتھا لیکن یالون اور دوسرے کئی مجرم ابھی تک انصاف کے کٹہرے سے دورہیں-اس خوفناک اور دہشت ناک مظاہرے سے مسیحیوں کو یہی پیغام ملتاہے کہ صہیونیت ان کی دشمن ہے اور ان کے سامنے دو ہی راستے کھلے ہیں اسرائیلیوں کی مکمل تابعداری کریں یا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فنا ہوجائیں-
جیساکہ اب معاملہ ہے اس وقت بھی اسرائیل یہ چاہتاتھاکہ فلسطینیوں کو بتا دیا جائے کہ نسلی صفائی اور علاقوں پر کنٹرول کے لئے وہ گستابو،ایس ایس اور ورماخت کی طرح کوئی بھی بدترین کاروائی کرسکتاہے – بیروت کے قتل عام کے بعد یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اسرائیل کی صہیونی ریاست اپنی نازی طرز کی دہشت ناک شناخت برقرار رکھنا چاہتی ہے نیز یہ کہ اسرائیل کے تمام فوجی اور سیاسی لیڈر حال کے بھی اور ماضی کے بھی ، جنگی مجرم ہیں ، بالکل ہٹلر اور اس کے ساتھیوں کی طرح- اڑتالیس گھنٹے کے دورانیے میں اتنی بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اتار دینے کے واقعات سے شاید کسی اور جگہ نہ پیش  ئے ہوں – اسرائیل نے ہزاروں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور قاتل  ج تک کھلے پھر رہے ہیں – یقیناً دہرے معیار کی حامل دنیا سیانصاف طلب کرنا بے وقوفی ہوگی-لیکن یہاں یہ بات فراموش نہ کی جائے کہ اگر کسی کو انصاف نہ ملے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مجرم نے جرم کیا ہی نہیں ، صابرہ اورشاتیلہ کے غزہ اور مغربی کنارے کے قاتلوں اور مجرموں کا قیامت کی گھڑی تک پیچھا کیا جانا چاہیے – وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا جرم ختم نہیں ہوگیا ،فلسطینیوں کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ان کو  زادی مفت میں نہیں ملے گی- جس دنیا نے صابرہ اورشاتیلہ کے کیمپوں سے اٹھنے والی عورتوں اور بچوں کی فریادوں پر کوئی کاروائی نہ کی ،  ئندہ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا تو کوئی امداد کو نہ  ئے گا – فلسطینیوں کو اپنی قوت کو مجتمع کرنا ہوگا ، امریکہ اور یورپی ممالک سے امیدیں باندھنے کا عمل ختم کرنا ہوگا-
پی ایل او کی فورسز کے بیروت سے انخلاء کے موقع پر ریگن انتظامیہ نے وعدہ نہیں کیاتھاکہ مہاجرین کو تحفظ فراہم کیا جائے گا – اسی طرح عرب حکومتوں پر بھی اعتماد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ امریکہ کی معمولی غلام حکومتیں ہیں –

مختصر لنک:

کاپی