چهارشنبه 30/آوریل/2025

حماس، فتح کے درمیان رمضان میں مذاکرات کا امکان

پیر 17-ستمبر-2007

حماس اور فتح براہ راست رابطہ کررہے ہیں تاکہ باہمی اختلافات کو ختم کریں اور غزہ کی پٹی میں جون کے وسط میں جو واقعات پیش آئے تھے اس کو فراموش کر کے قومی یکجہتی کو بحال کریں- وسط جون میں حماس کے مسلح افراد نے فتح کی سیکورٹی فورسز کو غزہ سے نکال باہر کیا تھا-
تاحال یہ رابطے بے قاعدہ ہیں تاہم یہ رابطے جلد ہی باضابطہ شکل اختیار کرلیں گے- اگرچہ سعودی عرب نے دو بڑے سیاسی و عسکری فلسطینی گروہوں کو رضامند کرنے اور باہمی اختلافات ختم کرانے سے انکار کردیا تھا- لیکن تازہ ترین کوششوں میں سعودی عرب کی حکومت کا بہر حال نمایاں حصہ ہے-
حماس کے اہم ذرائع کے مطابق تازہ مہما کا آغاز اس ہفتے ہوا کہ جب غزہ میں قائم حماس کی حکومت کے وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ نے سعودی عرب کے وعلی عہد شہزادہ سلطان ابن عبد العزیز کو فون کیا اور انہیں رمضان المبارک کے اسلامی مہینے کے آغاز پر مبارکباد پیش کی- گفتگو کے دوران سعودی ولی عہد نے اسماعیل ھنیہ سے دریافت کیا کہ حماس اور فتح کے درمیان اختلافات ختم کرانے کے لیے سعودی عرب کی حکومت کیا خدمت سرانجام دے سکتی ہے-
ذرائع کے مطابق اسماعیل ھنیہ نے سعودی عرب کے راہنماء سے کہا کہ حماس تاحال اس معاہدے پر قائم ہے جو 8 فروری کو مکہ میں سعودی عرب کی زیر نگران ہوا تھا- اور حماس اب بھی خواہش مند ہے کہ وہ فتح کے ساتھ مکہ یا کسی اور شہر میں مل بیٹھے تاکہ فتح کے ساتھ جن مسائل پر اختلاف ہے ان کا حل تلاش کرے-
اسماعیل ھنیہ نے یہ بھی کہا کہ یہ انتہائی نامعقول اقدام ہے کہ فلسطینی لیڈر اپنے دشمن (اسرائیل) کے ساتھ اجلاس کرتے ہیں جبکہ اپنے بھائیوں  کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں- اسماعیل ھنیہ نے شہزادہ سلطان کو بتایا کہ حماس اس کے لیے تیار ہے کہ فتح کا سیکورٹی ہیڈ کوارٹر انہیں واپس کردے- لیکن اس کے لیے شرط یہ ہوگی کہ فلسطین کی سیکورٹی فورسز کو گروہی بنیادوں پر نہیں بلکہ قومی بنیادوں پر امستوار کیا جائے-
شہزادہ سلطان نے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ کو ھنیہ کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے آگاہ کیا- اطلاعات کے موجودہ شاہ عبد اللہ نے فیصلہ کیا کہ آئندہ دو دنوں کے اندر اندر فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو جدہ کا دورہ کرنے کی دعوت دی جائے-
محمود عباس بدھ کے روز جدہ پہنچے اور شاہ عبد اللہ سے تفصیلی بات چیت کی- اس ملاقات کے دوران دونوں راہنمائوں نے اس پر اتفاق کیا کہ فلسطین قومی یکجہتی کو بحال کرنے کے لیے مکہ معاہدہ ٹھوس بنیاد بن سکتا ہے-
تاہم محمود عباس نے سعودی قیادت کے سامنے واضح کردیا کہ حماس کو غزہ کی پٹی میں پندرہ جون سے پہلے کی حالت میں واپس آنا ہوگا- سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفیصل کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت حماس فتح اختلاف ختم کرانے کے لیے کسی نئے اقدام کا آغاز نہیں کررہے ہیں- تاہم یہ واضح ہو چکا ہے کہ متعلقہ گروپ اس پر متفق ہیں کہ موجودہ تعطل کا خاتمہ اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب مکہ معاہدے پر اصرار و اتفاق کیا جائے-  اس کا امکان ہے کہ حماس سے مذاکرات کا دوبارہ آغازہ کرنے سے قبل محمود عباس فتح کی قیادت سے تفصیلی اصلاح مشورہ کریں-
فتح کے حامیوں اور قیادت نے حماس کے خلاف اس قدر شدید محاذ گرم کر رکھا ہے کہ رام اللہ سے جو بیانات جاری ہوئے ہیں ان میں نوے فیصد حماس کے خلاف ہوئے ہیں-
اسی اثناء میں امکان ہے کہ ھنیہ بدھ کے روز ایک خطاب کریں اور فتح سے اعتماد سازی اور بحالی تعلقات کے امکانات پر روشنی ڈالیں- اسماعیل ھنیہ کے مشیر احمد یوسف نے کہا ہے کہ اسماعیل ھنیہ ان بنیادوں کی وضاحت کریں گے جن کے ذریعے موجودہ صورتحال سے برآمد ہوا جاسکتا ہے-
الخلیل شہر سے تعلق رکھنے والے ایک فلسطینی قانون دان کا کہنا ہے کہ فتح سے تعلقات بحال کرنے کے عمل کے دوران میں حماس اپنا تفخر فراموش کردے گی- فلسطینی قانون ساز کونسل کے ایک رکن نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ کسی نہ کسی نے تو پہلا قدم اٹھانا تھا اور حماس نے یہ قدم اٹھایا ہے-
انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ حماس میں قدم اٹھائے گی تاہم غزہ میں موجود مبصرین نیز حماس کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس اس پر رضامندی ظاہر کرے گی کہ غزہ میں موجود سیکورٹی ہیڈ کوارٹر کسی تیسری پارٹی کے حوالے کردیا جائے- یہ مصری حکومت بھی ہوسکتی ہے سفارتی سطح پر دونوں جماعتوں کو قریب لانے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں وہ ان کوششوں کے ہم پلہ نہیں ہیں جو دونوں جماعتیں میدان میں اتر رہی ہیں- مغربی کنارے میں فتح کی سیکورٹی فورسز نے حماس کے حمایتیوں اور حماس کے مراکز پر حملوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے- اس طرح غزہ میں حماس کی سیکورٹی فورسز نے مختصر دورانیوں میں فتح سے تعلق رکھنے والے لیڈروں اور کارکنان کی گرفتاریاں کیں- ان پر الزام ہے کہ وہ رام اللہ حکومت کے اشارے پر غزہ میں مسائل پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں-
اس ہفتے حماس نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں فتح کے عسکری اہلکاروں اور فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی فورسز پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے حماس کے اداروں اور تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف ایک ہزار سے زائد کارروائیاں کی ہیں ان میں اغواء، گرفتاری، تشدد، سامان کی توڑ پھوڑ حتی کہ قتل تک شامل ہیں-
فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی فورسز حماس کے خلاف کارروائیوں کا دفاع کرتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش یہ ہے کہ جس قسم کی ’’ایگزیکٹو فورس غزہ میں قائم کرلی ہے ایسی فورس مغربی کنارے میں قائم نہ ہو-
غزہ کی پٹی میں حماس کی ایگزیکٹو فورس نے فتح کی سیکورٹی فورس کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا- تاہم اس سلسلے میں فتح کی جانب سے جو دعوے کیے جاتے ہیں- ان میں کم وزن محسوس ہوتا ہے کیونکہ مغربی کنارے غزہ کی پٹی کے برخلاف اسرائیل کے مضبوط کنٹرول میں ہے-
اس کا مطلب یہ ہے کہ فتح کے خلاف بغاوت کرنے کے لیے ایسی قوت درکار ہوگی جو بیک وقت اسرائیلی فوج اور فتح کو شکست دے سکے جو کہ غیر منطقی ہے-
الخلیل سے تعلق رکھنے والے فلسطینی قانون ساز کونسل کے رکن حاثم قطیفہ کا کہنا ہے کہ فوجی بغاوت سے مراد ایک فوج کی اپنی حکومت کے خلاف بغاوت ہوتی ہے- فوجی دستے حکومتی اداروں ریڈیو، ٹی وی سٹیشنوں اور اہم تنصیبات پر قبضہ کرلیتے ہیں- مغربی کنارے میں ایسی کوئی بھی عناصر موجود نہیں ہیں کیونکہ سارا علاقہ اسرائیلی قبضے میں ہے- رام اللہ میں ہونے والے ایک سمیوزیم سے خطاب کرتے ہوئے قطمیفہ کا کہنا ہے کہ فتح دعوی کرتی ہے کہ حماس فلسطین کی قانونی حیثیت کی بے حرمتی کررہی ہے کہ انہوں نے کہا کہ قانونی حیثیت تو میری ہے- میں نے اکاون ہزار ووٹ حاصل کیے تھے اور مجھے لوگوں نے منتخب کیا تھا- انہوں نے فتح پر شدید تنقید کی جس نے حماس کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کردیا ہے-
دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پراپیگنڈہ جاری ہے- فتح کی جانب سے کوشش کی جارہی ہے کہ حماس کو ہراساں کرنے کے لیے بڑے بڑے عوامی مقامات پر نماز جمعہ کی ادائیگی کی جائے تاکہ عدم اطمینان میں اضافہ ہو اور عدم استحکام غالب ہو-
جمعہ 7 ستمبر کو فتح کی قیادت نے فلسطینیوں سے اپیل کی کہ وہ حماس سے لاتعلق ظاہر کرنے کے لیے سکولوں کے صحنوں اور دیگر کھلی جگہوں پر نماز جمعہ ادا کریں- بہت کم لوگوں نے اس اپیل پر توجہ دی- جس سے مناسب ہوتا ہے کہ حتی کہ مغربی کنارے میں فتح کا احترام کم اور خوف زیادہ ہے جسے فتح کنٹرول کررہی ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسرائیل نے فتح کو چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ جو چاہے اقدام کرے-
غزہ کی پٹی میں فتح کے ہزاروں حامیوں نے ان میں سیکورٹی اور پولیس فورس کے سابقہ عہدیداران بھی شامل ہیں نے کوشش کی کہ عوامی مقامات پر نماز جمعہ ادا کریں- لیکن حماس نے ان کو منتشر کردیا- حماس کی قیادت کا کہنا ہے کہ نماز جمعہ کی ادائیگی اللہ تعالی کے لیے نہیں بلکہ شیطان کے لیے ہے اس لیے غیر قانونی ہے-

مختصر لنک:

کاپی