چهارشنبه 30/آوریل/2025

عباس اولمرٹ ملاقات کے باوجود مغربی کنارے کو یہودیانے کے عمل میں تیزی

اتوار 16-ستمبر-2007

اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ اور فلسطینی صدر محمود عباس کے درمیان حال ہی میں ایک اور ملاقات ہوئی ہے- دونوں رہنمائوں کے درمیان مسئلے کے تصفیہ کے حوالے سے گفتگو ہوئی – اسرائیل سے سہولتیں حاصل کرنے کے لئے محمود عباس نے مطالبے پیش کئے – لیکن مغربی کنارے کے حالات ملاقاتوں ، دوستی اور تصفیہ کی روح کے منافی نظر آ تے ہیں- محمو دعباس اور اس کی جماعت کو اعتدال پسند کی سند عطا کئے جانے کے باوجود اسرائیلی حکومت فلسطینی عوام پر مصیبتوں اور مشکلات کے پہاڑ توڑ ے ہوئے ہے- محمود عباس اور ایہو اولمرٹ سے ملاقاتوں اور تصفیہ کی باتوں کے باوجو دمغربی کنارے کو یہودیانے کی سازش کو پایہ تکمیل تک پہنانے کے لئے تیزی سے اقدامات کئے جا رہے ہیں- یہودی بستیوں میں توسیع کا عمل جاری ہے – مغربی کنارے کی ہئیت کو تبدیل کیا جا رہاہے -نابلس سے قلقیلة کی شاہراہ کے دونوں اطراف یہودی مناظر کا غلبہ ہے -جگہ جگہ پر یہودی بستیاں تعمیر کی گئی ہیں- سڑکوں اور چوراہوں پر لگے اسرائیلی جھنڈے اور عبرانی زبان میں لکھے بینرز یہودی علاقے کا منظر پیش کررہے ہیں- مغربی کنارے کے کونے کونے پر موجود فوجی رکاوٹوں پررکنے سے عیاں ہوتاہے کہ یہ رکاوٹیں سرحد کا کام دے رہی ہیں- ان رکاوٹوں کو نصب کرنے کا مقصد مغربی کنارے کے شہروں کو الگ کرناہے – رکاوٹوں پر فلسطینی شہریوں کے لئے مخصوص رستہ رکھاگیاہے –
مخصوص رستے کی وضاحت کے لئے سائن بورڈز لگے ہوئے ہیں- دوسری جانب یہودی آ بادکار بغیر کسی روک ٹوک کے آ سانی سے فوجی رکاوٹوں سے گزر جاتے ہیں- طولکرم کا شناختی کارڈ رکھنے والے کے لئے نابلس اور قلقیلیہ کے درمیان واقع ’’جیت ‘‘ رکاوٹ سے گزرنا ممکن نہیں ہے – طولکرم کے رہائشی مین روڈ چھوڑ کر دوسرے راستے اختیار کرتے ہیں جن سے ان کا سفردوگنا ہوجاتاہے – نابلس اور قلقیلیہ کے شاہراہ کا یہ حال نہیں ہے بلکہ مغربی کنارے میں مختلف رکاوٹوں پر بعض شہریوں کو گزرنے نہیں دیا جاتا- جنیصافوط کے علاقے کے شہری وضاع ابو شعر کا کہناہے کہ اس کا علاقہ یہودی بستیوں کے درمیان واقع ہے – یہودی آ بادکار وں کی تعداد ہاں کے رہائشیوں سے بڑھ گئی ہے – یہودی اسکولوں ،مذہبی مدارس ، کالجز اور فیکٹریوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے – اس کے مطابق شاہراہ عام کو یہودیانے کی سازش کی ابتداء نئی نہیں ہے بلکہ اس وقت سے ہوگیاتھا جب اسرائیل نے مغربی کنارے پر قبضہ کیاتھا اور سڑک کے اطراف پر یہودی بستیاں بنانا شروع کی تھیں بالخصوص قرینہ ،شمرون ، قدمیم اور ھالیہ شمرون کی بستیاں تعمیر کی گئیں –
طولکرم اور قلقیلیہ کے وسط میں واقع ’’عزون ‘‘ قصبہ کا ایک نوجوان بیان کرتاہے کہ اسرائیلی حکومت نے یہ بہانہ بنا کر کہ یہودیوں کی گاڑیوں پر پتھر پھینکے جاتے ہیں – قبضہ کے مین روڈ کو جانے والا راستہ بند کردیتی ہے – اہل علاقہ کو متصلہ دیہاتوں کار استہ اختیار کرنا پڑتاہے – نوجوان کے مطابق قابض اسرائیلی افواج نے یہودیوں کی گاڑیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر راستے پر ٹاور تعمیر کیا ہے- قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسرائیلی نمبرپلیٹ والی گاڑیوں کی تعداد فلسطینی گاڑیوں سے زیادہ ہے – جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہاں پر یہودیوں کی تعداد زیارہ ہے –
پہاڑ کی چوٹی پر بنا ہوا ’’زوہر‘‘ نامی محل کا منظر اس بات کی علامت ہے کہ صہیونیت فلسطینیوں کی اراضی کو ہڑپ کرنے کے لئے کس کس طرح کے ڈھنگ اور گونا گوں طریقے اپناتی ہے – یہ محل پورے پہاڑ پر قبضہ کرکے تعمیر کیاگیا ہے اور اس کی سیکورٹی کا انتظام بڑا سخت ہے – گھر کی طرف جانے والی سڑک پر یہ بورڈ لگایا ہے جس پر مکتوب ہے کہ محل کے قریب آ نے سے پرہیز کیا جائے کیونکہ اس کے اردگرد بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں –
یہودی آ بادکار اپنی گاڑیوں کی کھڑکیوں سے اسلحہ دکھا کر فلسطینیوں کو خوفزدہ کرتے ہیں- یہودی آ بادکار عرب شہریوں کی گاڑیوں پر اسرائیلی جھنڈا لگادیتے ہیں – انہیں گالیاں دیتے ہیں – نسلی اہانت کا نشانہ بناتے ہیں- گرین لائن ایریا سے قبل جلجولیہ کی فوجی رکاوٹ سرحدی حدود کا منظر پیش کررہی ہے – یہاں سے گزرنے والوں کی بڑی باریک بینی سے تلاشی لی جاتی ہے – ہر طرف جدید ترین آ لات نصب کئے گئے ہیں – جلجولیہ فوجی رکاوٹ کا منظر شمالی غزہ کی پٹی میں بیت حنون پر واقع بین الاقوامی راہداری ’’ریزرو‘‘کے منظر سے مختلف نہیں ہے-
ان تمام اقدامات کا مقصد مغربی کنارے کی اراضی کو جلد ازجلد یہودیانہ ہے – دوسری جانب سے فلسطینی ریاست کی بات کی جا رہی ہے – امریکی صدر جارج بش کی طرف سے نومبر میں بلائی جانے والی مجوزہ ’’امن کانفرنس ‘‘سے قبل مغربی کنارے کے یہودیویانے کے عمل کو تیز کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اسرائل غاصبانہ پالیسی جاری رکھے گا – فلسطینی اراضی کو ہتھیانہ اور مغربی کنارے کو یہودیانہ اسرائیلی ترجیحات ہیں –

مختصر لنک:

کاپی