مرکز اطلاعات فلسطین نے منتخب فلسطینی قانون ساز اسمبلی کے سپیکر ڈاکٹر عزیز الدویک سے اسرائیلی جیل میں فلسطین کے موجودہ حالات کے حوالے سے انٹرویو کیا- ڈاکٹر عزیزالدویک نے فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے جاری کردہ صدارتی آرڈیننسز، فلسطینی قانون ساز اسمبلی کے کردار، مغربی کنارے میں عباس ملیشیا کی طرف سے اسلامی تحریک مزاحمت (حماس ) کے خلاف جاری گرفتاریوں کی مہم اور فلسطینی بحران کے حوالے سے گفتگو کی- فلسطینی سپیکر نے نومبر میں امریکہ کی طرف سے مجوزہ امن کانفرنس کے حوالے سے بھی بات کی- ان کے انٹرویو کا متن زائرین کے پیش خدمت ہے-
سوال: فلسطینی صدر محمود عباس نے مذاکرات سے انکار کردیا ہے- انہوں نے مذاکرات کے لئے شرائط رکھی ہیں- آپ اس بحران کے خاتمے کے لئے کیا راستہ دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر عزیز الدویک: قائد اول کا فرض بنتاہے کہ وہ اپنی عوام کی خواہش کو دیکھے- اس وقت فلسطینی عوام کی خواہش صرف اور صرف قومی اتحاد ہے- اس طرف امہ عربیہ اور امت مسلمہ کی خواہش بھی اتحاد ہے جو کوئی اتحاد سے انکار کرتا ہے وہ اس خواہش کی مخالفت کرتاہے-
سوال : رام اللہ میں حکمران جماعت الزامات کی زد میں ہے- اس پر عوام کی روزی سے کھیلنے کا الزام ہے- اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے ملازمین کی تنخواہیں روک دیں- شہریوں کی بجلی کاٹنے اور شہریوں سے کمیشن لینے جیسے الزامات میں آپ اس امر کو کس نظر دیکھتے ہیں ؟–
جواب: موجودہ حالات بہت نازک ہیں- زخموں کو کھولنے کی بجائے اس وقت فلسطینیوں کے درمیان اختلافات کے خاتمے اور انہیں اکٹھا کرنے کی کوششوں کی ضرورت ہے- اس میں قوم اور ملک کا مفاد ہے- جو قدم اختلاف کی طرف اٹھے گا وہ قدم کامیابی سے دور ہوگا- فلسطینی عوام کا ضمیر اپنے اندر فیصلہ کئے ہوئے ہے- وہ جلد یا بدیر ان لوگوں کے حوالے سے فیصلہ کرے گا-
سوال : قانون ساز اسمبلی کا کردار معطل ہوگیا ہے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ محمود عباس کے صدارتی آرڈیننس اور فیصلے قانون ساز اسمبلی کا متبادل ہوسکتے ہیں–
جواب :فلسطین کے 2003ء میں ترمیم شدہ آئینی اور بنیادی نظام کے مطابق مقبوضہ فلسطین کے ہر معاملے کے متعلق قانون ساز اسمبلی میں صاحب اختیار ہے- اسی کے پاس تمام اختیارات ہیں- کسی جسم کا دوسرے جسم کے متبادل بننا ممکن نہیں ہے- قانون ساز اسمبلی کا واضح نظام موجود ہے- کوئی دوسرا نظام اس کی جگہ نہیں لے سکتا- قانون ساز اسمبلی سے پاس کردہ آئین کے مخالف کارروائیاں غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں- وہ اس وقت تک غیر قانونی ہیں جب تک اسے قانون ساز اسمبلی دو تہائی اکثریت سے پاس نہیں کرتی-
سوال :کیا متناسب نمائندگی کی بناء پر انتخابات کرانے اور انتخابات میں حصہ لینے کے لئے پی ایل او کے منشور تسلیم کرنے کی شرائط کے حوالے سے جاری صدارتی آرڈیننس آپ کو منظور ہے ؟
جواب: ان مطالبات سے قبل اور بھی بہت سے اہم مطالبات ہیں، جن پر فلسطینی گروپوں کی قیادت نے اتفاق کیاہے- معاہدہ قاہرہ، میثاق مکہ اور قومی اتحاد کا میثاق جس پر تمام جماعتوں نے دستخط کئے ہیں- یہ ایسے معاہدے ہیں جن سے انکار کسی صورت ممکن نہیں ہے-
سوال: مغربی کنارے میں عباس ملیشیا کے ہاتھوں سیاسی گرفتاریوں کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: ہم نے کسی سیاسی گرفتاری کی ہمیشہ مذمت کی ہے- اب بھی ہم سیاسی گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہیں- بالخصوص قانون ساز اسمبلی کے اجلا س میں متفقہ طور پر سیاسی گرفتاریوں کو جرم قرار دیا گیاتھا-
سوال:کیا ہم تاریخی موڑ پر کھڑے ہیں؟–
جواب: ہم اس وقت نہایت حساس تاریخی موڑ پر کھڑے ہیں جو ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں- تاریخ کسی کو معاف نہیں کرے گی- عوام کا ضمیر تمام قیادت، تنظیموں اور زویوں پر فیصلہ محفوظ کئے ہوئے ہے-
سوال: امریکی صدر نے نومبر میں امن کانفرنس بلانے کااعلان کیا ہے، آپ کی اس کانفرنس کی کامیابی کے حوالے سے کیا توقعات ہیں؟–
جواب: میرا نہیں خیال کہ کانفرنس فلسطینی عوام کے مفاد کے لئے کوئی مثبت قرارداد پاس کرے- بین الاقوامی میڈیا اس پر متفق ہے کہ پیش رفت کا دھوکہ ہوگا- کوئی حقیقی پیش رفت نہیں ہوگی- امریکی انتظامیہ اپنی مدت کے آخر ی ایام میں ہے وہ آئندہ صدارتی انتخابات کی تیاری کے لئے سانس لے رہی ہے- لہذا کانفرنس مشرق وسطی کے مسائل کے حل کے حوالے سے پیش رفت کا دھوکہ ثابت ہوگی- اس کانفرنس سے کوئی حقیقی پیش رفت کی امید رکھنا عبث ہے-
سوال: نئے تعلیمی سال کے آغاز اور رمضان المبارک کے حوالے سے آپ کیا پیغام دیں گے؟–
جواب: رمضان المبارک اور نئے تعلیمی سال کے آغاز پر اپنی قوم کو مبارک باد کا پیغام دیتاہوں اور امید کرتاہوں کہ جب یہ دونوں مواقع دوبارہ آئیں گے ہمارا وطن آزاد ہوچکاہوگا- ہماری تمنائیں پوری ہوچکی ہوں گی- میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی مسجد اقصی اور بیت المقدس کو ہر برائی سے محفوظ رکھے، میں تعلیم وتربیت کے ذمہ داران سے مطالبہ کرتاہوں کہ وہ قوم کے بیٹوں کے حالات کا خیال رکھتے ہوئے طلبہ و طالبات میں سکول بیگز تقسیم کریں- اسیران کی آزادی اور قومی اتحاد ہمارا ماٹو ہے-
سوال :کیا آپ قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے اور سپیکر بنائے جانے پر نادم ہیں کیونکہ اسرائیلی افواج کی جانب سے آپ کو گرفتار کئے جانے کی وجہ آپ کا سپیکر بننا ہے؟–
جواب: ہرگز نہیں، قوم کی خدمت اور بلند مقاصد کے حصول اور باوقار قومی مفادات پانے کے لئے کام کرنا ہر زندہ شخص کا مقصد ہے- جو شخص ذاتی مفاد کی طرز زندگی بسر کرتاہے وہ کامیاب نہیں ہوسکتا- کامیاب شخص وہی ہے جو اپنی قوم اور اپنے اصولوں کے لئے زندگی بسر کرتاہے- ہم ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ہماری شہادت سے اسلام زندہ ہوگا-
